سری لنکا دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کیسے پہنچا؟

ویب ڈیسک

کولمبو – جنوبی ایشیا کا اہم ملک سری لنکا ان دنوں اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ اس وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کے پاس تیل درآمد کرنے کے لیے ڈالر نہیں بچے ہیں، بجلی کی عدم دستیابی نے ملک کے بڑے حصے کو تاریکی میں ڈبو رکھا ہے، ایندھن کے لیے راشن بندی جاری ہے اور اسی تناظر میں دو اموات بھی ہوچکی ہیں جس کے بعد سری لنکن حکومت نے پیٹرول پمپس پر بڑھتے ہوئے ہجوم کے پیش نظر نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے فوج بھی تعینات کر دی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کی قلت اور آسمان سے چھوتی قیمتوں نے لنکن شہریوں کی زندگی کو تباہ کردیا ہے جب کہ حال ہی میں حکومت سری لنکا نے کاغذ کے بحران کے باعث ملک بھر میں امتحانات ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا

یہ معاشی بحران دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے اور سری لنکا حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک سے امداد سمیت آئی ایم ایف کے پاس بھی جارہی ہے

سری لنکا کی تباہ حال معاشی حالت نے وہاں کے لوگوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ آسمان چھوتی مہنگائی کے باعث عوام دو وقت کی روٹی تک کھانے سے قاصر ہیں۔ سری لنکا میں بھوک کے ستائے لوگ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہ رہے ہیں۔ اس ہفتے سری لنکا کے بہت سے تامل شہری اپنا ملک چھوڑ کر مشکل حالات میں سمندری راستے سے ہندوستان کے شہر تامل ناڈو پہنچے۔ حکام کا اندازہ ہے کہ سری لنکا سے مزید ہجرت ہوگی اور دو سے چار ہزار سری لنکن شہری ہندوستان پہنچ سکتے ہیں

گزشتہ ہفتے سری لنکن تاملوں کا ایک چھ رکنی خاندان جو رامیشورم کے ایک جزیرے کے قریب پہنچا تھا، کوسٹ گارڈ کی طرف سے پوچھ گچھ کے بعد رامیشورم کے قریب ایک پناہ گزین کیمپ بھیج دیا گیا۔ ان چھ افراد میں ایک چار ماہ کا شیرخوار بھی شامل تھا

بدھ کو پانچ بچوں سمیت 10 افراد کا ایک اور گروپ تمل ناڈو کے ساحل پر پہنچا۔ پناہ گزینوں میں سے ایک شیواشنکری نے کہا ”سری لنکا میں ان کے لیے زندہ رہنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اس لیے انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔“

اس گروپ نے بتایا کہ سمندر پار کرتے وقت ان کی کشتی کا انجن خراب ہو گیا اور وہ سمندر کے بیچوں بیچ پھنس گئی۔ تیز دھوپ کے درمیان، وہ کسی طرح سمندر پار کر کے آدھی رات کو تمل ناڈو کے ساحل پر پہنچ گئے۔ ایک اور مہاجر شیوا نے بتایا ”سری لنکا میں چاول، تیل اور پیٹرول کی شدید قلت ہے۔“

سری لنکا میں گیس، کھانا پکانے کے لیے ایندھن اور اسٹیشنری فروخت کرنے والی دکانوں پر بہت زیادہ ہجوم دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک میں تمام اشیا کی شدید قلت ہے اور لائنوں میں کھڑے ناراض لوگ تازہ ترین صورتحال کا ذمہ دار گوتابایا راجا پاکسے حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں

سری لنکا کی آمدن کا بڑا حصہ اس کو سیاحت سے ہونے والی آمدن ہے اور موجودہ معاشی بحران کے بارے میں بھی عام تاثر یہ ہے کہ کورونا عالمی وبا کے باعث لگنے والی پابندیوں سے سیاحت ختم ہوئی اور سری لنکا کو مالی بحران سے نبرد آزما ہونا پڑا

تاہم معاشی ماہرین کے نزدیک بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومت کے اقدامات سری لنکا کو درپیش تاریخ کے سنگین ترین بحران کے اسباب میں شامل ہیں۔ سری لنکا 2007 سے مسلسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ مختلف ادوار میں لیا گیا یہ قرض گیارہ ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے اور اس قرض میں سے سب زیادہ یعنی 36.4 فی صد حصہ حکومت کے بین الاقوامی بانڈ سے حاصل کردہ قرضوں پر مشتمل ہے

سری لنکا کے غیر ملکی قرضوں میں 14 فی صد سے زائد ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہے،جو ساڑھے چار ارب سے زائد ہے۔ اس قرض میں جاپان اور چین دونوں کے الگ الگ ساڑھے تین ارب سے زائد بھی واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت اور عالمی بینک، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی شامل ہیں۔ پچھلے عشرے میں چین نے سری لنکا کو شاہراہوں، بندرگاہوں، ایک ایئرپورٹ کی تعمیر اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے منصوبوں کے تحت دیئے گئے ہیں

لیکن نقادوں کا کہنا ہے یہ فنڈز ایسے منصوبوں کے لیے دیے گئے جن کی لاگت بہت زیادہ ہے لیکن ان سے آمدن کے امکانات بہت کم تھے۔ اس لیے ان منصوبوں کی وجہ سے سری لنکا کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا لیکن ان کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ آمدن کے ذرائع پیدا نہیں ہوئے۔ چین ان الزامات کو مسترد کرتا ہے

رواں برس جنوری میں سری لنکا کے صدر گوتا بایا راجا پکشے نے چین سے قرضوں کی ادائیگی میں نرمی کی اپیل بھی کی تھی

بعض مبصرین کے مطابق سری لنکا کو درپیش معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات میں حکومت کی اقتصادی پالیسیاں بھی شامل ہیں جن کے باعث کورونا وبا سے قبل ہی ملکی معیشت زوال کا شکار تھی

ادھر بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سری لنکا میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 2.31 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جب کہ رواں برس اسے بیرونی قرضوں کی مد میں چار ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ملک کے پاس ڈالرز کی کمی کی وجہ سے سری لنکا میں دودھ سمیت بنیادی غذائی اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث عالمی مارکیٹ سے تیل کی خریداری میں کمی کی وجہ سے ملک کو ایندھن کی قلت کا بھی سامنا ہے

ڈالرز کی کمی کی وجہ سے سری لنکا عراق اور ناروے میں اپنا سفارت خانہ اور آسٹریلیا میں قونصل خانہ بند کرچکا ہے۔ قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں بھی سری لنکا ڈالر بحران کی وجہ سے نائیجیریا، جرمنی اور قبرص میں اپنے سفارتی مشن بند کرچکا ہے

معاشی پالیسیاں

بعض مبصرین کے مطابق سری لنکا کو درپیش معاشی مسائل کی بنیادی وجوہ میں حکومت کی اقتصادی پالیسیاں بھی شامل ہیں جن کے باعث کرونا وبا سے قبل ہی ملکی معیشت زوال کا شکار تھی

رواں ماہ امریکی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز آف سری لنکا کے ڈائریکٹر دشانی ویراکون کا کہنا تھا کہ 2007 کے بعد سے ہر حکومت قرضون کی ادائیگی کے لیے کسی سوچ بچار کے بغیر بانڈز جاری کرتی رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے کے لیے برآمدات سے آمدن بڑھانے کے بجائے قرضوں پر انحصار کیا گیا۔

ان کے مطابق ایک جانب حکومت غیر ملکی قرضوں اور درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر استعمال کرتی رہی تو دوسری جانب مرکزی بینک نے ملکی کرنسی کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے زرمبادلہ کا استعمال کیا۔

ویراکون کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں غذا اور دیگر اشیائے ضروریہ کو ملک کے باہر سے منگوانے کے لیے زرِ مبادلہ ہی نہیں بچا اور افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوا۔

ٹیکس اقدامات

سال 2019 میں سری لنکا میں صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر گوتابایا راجا پکشے نے بڑے پیمانے پر ٹیکس کٹوتیوں کا اعلان کیا۔ ان اقدامات کے تحت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو تقریباً نصف کردیا گیا۔

’رائٹرز‘ کے مطابق ٹیکس میں اتنی بڑی کمی کا یہ فیصلہ بہت اچانک تھا اور مرکزی بینک کے بعض عہدے داروں کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close