حد کرتے ہو صاحب!

اَمَر گُل

جن کے  ہاتھوں میں سندھ کی باگ تھی، انہوں نے تو اس دھرتی کے بھاگ میں جیسے ابھاگن بننا ہی لکھ دیا ہے ، کرسی کو دوام دینے کے لیے دیمک سے دوستی نبھائی گئی، لیکن دیمک کب کاٹھ کی دوست بنی ہے؟

اقتدار کو طول تو شاید سر جھکائے رکھنے سے مل جائے، لیکن دھرتی تو سر بلند لوگوں کو ہی اپنا بیٹا مانتی ہے… ضمیر کی نیند شاید ہماری زندگی کو تو آسان بنا دے گی، لیکن دھرتی تو اپنی نیند تج دینے والوں کو ہی اپنا سپوت سمجھتی ہے، وہ دھرتی جس کی گود میں ہمیں زندگی کے رت جگے کے بعد ابھی ایک طویل نیند سونی ہے!

سندھ کا ملیر اور ملیر کے پہاڑ، بارانی ندیوں کے کیچمنٹ ایریاز، انسانوں کا سامانِ حیات، مویشیوں کی چراگاہیں، جنگلی حیات کی پناہ گاہیں اور دھرتی کے پھیپھڑے تو حکمرانوں نے ملک ریاض کو سونپ دیے، وہ حکمران، جنہیں صرف پیسے گننے کی ریاضی آتی ہے…

سندھ تو ان حکمرانوں نے بیچ دیا، جن کی سیاست کی جادو کی پٹاری میں مرویسوں مرویسوں کے نعرے کا کبوتر ہے.. وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنی پٹاری سے اس کبوتر کو برآمد کریں گے تو محوِ حیرت لوگ تالیاں بجانا شروع کر دیں گے.. لیکن کب تک، کیا دھوکہ ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے؟ طویل ضرور، لیکن شعبدہ بازی دوام سے بہرحال عاری ہوتی ہے!

موقع پرستی تو انہیں خوب آتی ہے، لیکن یہ موقع پرستی انہیں یہ بات کیوں نہیں سمجھا پاتی کہ ان کی بقا خود اس دھرتی کی بقا سے جڑی یے، وصول کی گئی بہا سے نہیں… وہ یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ اب لوگ تالیاں پیٹتے، ہار پہناتے، نعروں کے لیے اپنے گلے چھیلتے اور قیمتی گاڑیوں کے پیچھے دوڑ کر اپنے چہرے خاک آلود کرتے تھک چکے ہیں؟ انہیں کوئی سمجھائے کہ اب ٹُن ہو کر ووٹ پر مُوتنے کا دور گزر چکا!

پہلے ملیر کی زمینیں، پھر جامشورو، کھیرتھر کے پہاڑ اور سندھ کے سمندر کے جزائر تک کا سودا کرکے اب مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں کی شعبدہ بازی کرنے والوں کو یہ بات کون سمجھائے، کہ تم کچھ وقت کے لیے کچھ لوگوں کو تو بیوقوف بنا سکتے ہو، لیکن جب یہ سمجھنے لگو کہ سب کو سدا کے لیے بیوقوف بنا کر رکھو گے تو یاد رکھو یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو خود تمہارے بیوقوف ہونے پر مہر ثبت کر چکا ہوتا یے…

جزائر کے سودے نے دھرتی کے سودائیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، اس دن دھاڑے کے ڈاکے پر ماہی گیروں، سول سوسائٹی، سیاسی رہنماؤں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سمندر میں کشتیوں کی ایک بڑی ریلی نکالی، جو ان جزیروں تک گئی، جن پر قبضہ کیا جا رہا ہے…. دھرتی کے یہ سودائی سمندر کو بھی میدانِ جنگ بنا چکے ہیں، سوداگر یہ کب سمجھیں گے!؟

سندھ میں وفاق کا نمائندہ گورنر صاحب کہتا ہے کہ جزائر پر شہر آباد ہونگے تو لوگوں کو روزگار ملے گا… کیا وہ ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ منہ پر کالک پوتنے سے عزت بڑھے گی!؟ جنابِ والا، اس دھرتی کے لوگ اس حد تک بھی بھلکڑ نہیں کہ وہ ان زخموں کو بھی بھول جائیں، جو ابھی رس ریے ہیں… وہ جانتے ہیں کہ مرہم کا وعدہ کرنے والوں نے مرہم بھی بیچ کھایا اور پھر ان زخموں کا تمسخر اڑاتے رہے!

گورنر صاحب کا بیان بادشاہوں کے لیے محل بنا کر ٹوٹے جھونپڑے میں سوکھی روٹی کھانے والوں کو مبارکباد دینے کے سوا اور کیا ہے…. جان لو جناب، کہ یہ سادہ سے ماہیگیر خوب جانتے ہیں کہ جزائروں پر یہ شہر ماہیگیروں سے ان کا ایک ایک لقمہ چھین کر بسائے جائیں گے….

آج ان ماہیگیروں کو اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ان جزیروں پر اپنا احتجاج رکارڈ کرانے بھی نہ دیا گیا، جن کے لیے یہ جزائر ہمیشہ اس دوست کی طرح تھے، جس کے کندھے پر سر رکھ کر یہ سمندر سے ملی خوشیاں اور دکھ بانٹتے تھے…. کل شہر بس جانے پر انہیں یہاں روزگار ملے گا…. حد کرتے ہو صاحب!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close