اسلام آباد – پاکستان کی سیاست اس وقت ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ پاکستانی میں چونکہ آج کل سیاست کو کرکٹ سے تشبیہ دینا معمول ہے تو گجرات کے چوہدریوں کی جانب سے اچانک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش قبول کرنے کو چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے ایک چھکے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی یہ چھکا تو لگا چکے ہیں لیکن ان کی اپنی ٹیم کے کچھ لوگ ان کے ساتھ دکھائی نہیں دے رہے
جب پرویز الٰہی حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے میں مصروف تھے تو پارٹی کے جنرل سیکریٹری طارق بشیر چیمہ نے نہ صرف اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا بلکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ان کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان بھی کیا
مقامی ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں سنا جا سکتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’وہ اپنی قیادت کے حکومت کی حمایت کے اس فیصلے کو نہیں مانتے۔‘
جبکہ وفاقی وزیر مونس الٰہی کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’وہ طارق بشیر چیمہ کو راضی کر لیں گے۔‘
طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ انہوں نے چودھری شجاعت سے اجازت لے کر استعفیٰ دے دیا۔ پرویز الہی کے حوالے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج حکومتی وفد کے ساتھ ملاقات میں وہ ان کے ساتھ موجود تھے جس کے دوران ان کی وفد کے ارکان سے تلخ کلامی بھی ہوئی
پاکستانی سیاست میں آنے والی اس ڈرامائی تبدیلی پر بات چیت کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’پاکستانی سیاست میں ویسے آپ کو ہر طرح کی ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن موجودہ صورتحال انتہائی دلچسپ ہے۔‘
’میری معلومات کے مطابق کل رات ق لیگ اور اپوزیشن کا ہر طریقے سے ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر اتفاق ہو چکا تھا اور چیزیں بھی فائنل کر لی گئی تھی۔ آج صبح صوبائی اسمبلی میں جو عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد آئی وہ بھی چودھری پرویز الہی سے مشاورت سے آئی۔‘
انہوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے بزدار کے خلاف قرارداد کو اپنے حق میں استعمال کروایا ہے یہی وجہ ہے کہ بعپ (بلوچستان عوامی پارٹی) والے چوہدری پرویز الٰہی سے ناراض ہو کر اپوزیشن میں شامل ہوئے۔‘
انہوں نے کہا ’جب پرویز الہٰی وزیراعظم سے مل رہے تھے اسی وقت انہوں نے بعپ کے ساتھ بھی ملاقات طے کر رکھی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھرپور طریقے سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔‘
سلمان غنی کا کہنا تھا ’جہاں تک طارق بشیر چیمہ اور ق لیگ کے اندر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری سالک کے حوالے سے جو خبریں چل رہی ہیں اس حد تک تو درست ہے کہ چودھری پرویز الہٰی نے مکمل مشاورت کے بغیر فیصلہ کر لیا ہے اس سے پارٹی کے اندر اور خاندان میں اعتراض بھی ہو سکتا ہے لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ معمولی مسئلہ ہے اس کو جلد یا بدیر حل کر لیا جائے گا۔‘
موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے شعبہ سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’اس وقت جو سیاست چل رہی ہے مجموعی طور پر اس کو اخلاقیات سے عاری اور مفادات کی سیاست کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ اس وقت کوئی بھی ایک پارٹی ایسی نہیں ہے جو کسی اصول یا نظریے پر کھڑی نظر آئے، چاہے وہ اپوزیشن کی کوئی جماعت ہو یا حکمران جماعت اور اس کے اتحادی ہوں سب ایک ہی طرح کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس لیے اس وقت یہ کہنا کہ کون آگے جا رہا ہے اور کون پیچھے مکمل طور پر قبل از وقت ہے۔ یہاں تو دن اور رات کے بجائے گھنٹوں اور منٹوں میں صورت حال بدل رہی ہے۔ اس وقت کی صورتحال بھی مجھے کسی طور حتمی نہیں لگتی۔ ظاہر ہے پرویزالٰہی کے حکومت کا ساتھ دینے کے اعلان سے حکومت کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے لیکن اب اپوزیشن بھی کوئی ایسی چال چلے گی جس سے ان کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔‘
پارٹی اور خاندان میں کوئی اختلاف نہیں: چوہدری شجاعت
پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے منگل کو اپنے خاندان اور پارٹی میں سیاسی اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تمام فیصلے ان کی مشاورت اور رضامندی سے ہوتے ہیں
منگل کو چوہدری شجاعت نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ ’غلط قسم کا پروپیگنڈا کرنا اور حقائق کو جوڑ توڑ کر پیش کرنا یا کروانا نہایت نامناسب ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے تمام سیاسی فیصلے ان کی مشاورت سے ہوئے۔ ’ہمارا خاندان اور جماعت ایک ہی پیج پر ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ وضاحت پر یقین نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود ’میں کہنا چاہوں گا کے مجھے خاندان کا سربراہ سمجھا جاتا ہے۔‘
’مجھے بتایا گیا کہ آپ کے خاندان میں اختلافات ہیں ایسی بے بنیادخبروں میں کوئی صداقت نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اختلافات کا غلط پروپیگنڈا کر کے جو لوگ سیاسی فائدہ اُٹھاناچاہتے ہیں انہیں بڑی مایوسی ہوگی
اپوزیشن، مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہوئی؟
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد حکمران جماعت نے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کر کے اپنا ’ترپ کا پتا‘ ظاہر کر دیا
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو حکمران جماعت کے اہم اتحادی کی حمایت کھو دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے
کہا جارہا ہے کہ چوہدریوں کو غیر پُرکشش پیشکش کی گئی تھی، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرنے کی کوشش میں اتحادیوں نے اپوزیشن کی حمایت نہیں کی
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایک سینیئر رہنما، جو مسلم لیگ (ق) سے ہونے والی بات چیت کا حصہ تھے، انہوں نے بتایا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما نواز شریف اور ان کی بیٹی پر مسلم لیگ (ق) کے مطالبات ماننے میں لچک نہ دکھانے کا الزام لگا رہے ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت (موجودہ اسمبلیوں کی بقیہ مدت تک کے لیے) وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ اور آئندہ انتخابات میں بیس نشستیں حاصل کرنا چاہتی تھی
رہنما نے کہا کہ (ق) لیگ کے مطالبات پر پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری راضی ہوگئے تھے، لیکن نواز شریف اور مریم نواز اس پر تیار نہ تھے
انہوں نے بتایا کہ باپ، بیٹی نے پیغام پہنچایا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد پرویز الہٰی کو صرف تین سے پانچ ماہ کی عبوری مدت کے لیے پنجاب کا اعلیٰ عہدہ دیا جاسکتا ہے
اس کے علاوہ ان کے درمیان آئندہ انتخابات پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی نہیں ہوسکی
آصف زرداری، شریفوں کی جانب سے چوہدری کو مزید پُرکشش پیشکش نہ کرنے پر پریشان تھے، جس کا نتیجہ بالآخر مسلم لیگ (ق) کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی حمایت کے اعلان کی صورت میں نکلا جنہوں نے اتحادیوں کو وہ دے دیا جو وہ چاہتے تھے
ایک اور اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی جارحانہ کوششوں کے باوجود شریفوں اور چوہدریوں کے درمیان اعتماد کے خلا کو پُر نہیں کیا جاسکا
مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت پرویز الہٰی کی ’سیاسی چالبازیوں‘ کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکار تھی
انہوں نے بتایا کہ قیادت میں یہ تشویش بڑھ رہی تھی کہ اگر پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دے دیا گیا تو وہ مسلم لیگ (ن) کی قیمت پر اپنی جماعت کو مضبوط کریں گے
دوسری جانب یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ مشترکہ اپوزیشن چوہدریوں کے حوالے سے مایوس نہیں ہوئی اور ہم اب بھی ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کےلیے درکار تعداد موجود ہے، اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اتحادی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کریں، ہم پُرامید ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کرلے گی
مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری کا بھی یہی کہنا تھا کہ اپوزیشن اب بھی چوہدریوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ وزیر اعظم کی حمایت کے اپنے فیصلے کا جائزہ لے سکتے ہیں
دریں اثنا چوہدریوں میں بھی اتحاد کا حصہ رہنے کے فیصلے کے حوالے سے دراڑ پائی جارہی ہے کیوں کہ چوہدری شجاعت مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں جبکہ پرویز الہٰی، وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی وجہ سے پی ٹی آئی کو بہتر آپشن سمجھتے ہیں
ق لیگ تنگ نظر ہے، پرویز الہٰی وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے، انہیں لگ پتہ جائے گا، اپوزیشن رہنما پھٹ پڑے
اسلام آباد – پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بن سکتے، نمبرز ہمارے پاس ہیں اپوزیشن جسے نامزد کرے گی وزیراعلیٰ وہی ہوگا
یہ بات انہوں نے بلوچستان سے منتخب ایم این اے اسلم بھوتانی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اسلم بھوتانی نے حکومت سے علیحدہ ہونے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر بلاول، اختر خان مینگل، ایاز صادق اور دیگر بھی موجود تھے
آصف زرداری نے کہا کہ ملک کو بچانے کی غرض سے ہم نے (ق) لیگ کو بھی دعوت دی وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار تھے کہ معلوم نہیں انہیں کیا ہوا کہ وہ کہیں اور چلے گئے، (ق) لیگ تنگ نظر ہے، پرویز الٰہی وزیراعلیٰ نہیں بن سکتے، ان کا رویہ تبدیل کرنا سمجھ سے بالاتر ہے
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے نمبرز ہمارے پاس ہیں، حکومت کے پاس نہیں، جسے اپوزیشن نامزد کرے گی وزیراعلیٰ پنجاب وہی ہوگا
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی، قبل ازیں جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی ہمارے ساتھ شامل ہوچکے ہیں
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عدم اعتماد کے لیے ہمارے نمبرز پورے تھے اور اب اس سے بھی زیادہ ہیں، ایم کیو ایم کا ایک مطالبہ نہیں ہے ہم آج بھی ان کے کسی مطالبے سے انکار نہیں کررہے، کراچی کی ترقی کے لیے ہمیں ایم کیو ایم کے ساتھ دیرپا تعلقات قائم کرنے ہیں
اسلم بھوتانی نے کہا کہ میں اپوزیشن نہیں بلکہ آصف زرداری کے ساتھ ہوں ان کے مجھ پر بہت احسانات ہیں. آصف زرداری جہاں ہیں، میں بھی ان کے ساتھ ہوں. آصف زرداری کا حکم ہوا تو میں حاضر ہوں
دوسری جانب اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے (ن) لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ق لیگ نے اپنا فیصلہ کرلیا انہیں پتا لگ جائے گا کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔ یکم سے 4 اپریل تک ووٹنگ ہوگی اور حکومت سے نجات ملے گی.