ریکوڈک منصوبہ: ایک اور ’ڈیل‘ کا الزام… معاملہ کیا ہے؟

نیوز ڈیسک

کوئٹہ – صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کے سب بڑے منصوبے ریکوڈک پر بلوچستان میں بعض حلقوں کو تحفظات ہیں جس کے پیش نظر ’ریکو ڈیفنس‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے

اس مہم کے قائدین میں شامل سابق سینیٹر نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عام سیاسی کارکنوں کو ریکوڈک کے حوالے سے تحفظات ہیں جس کی وجہ سے یہ مہم شروع کی گئی

اس مہم کے سلسلے میں کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے ہیں تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے اس معاہدے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پراجیکٹ میں بلوچستان کا حصہ کسی خرچے کے بغیر پچیس فیصد ہے جبکہ اس کے علاوہ بعض دیگر ٹیکسز کی مد میں آمدنی بھی ہوگی

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں گورنر راج لگنے کا خطرہ تھا اور ان کے بقول اس سے قبل جو گورنر راج لگا وہ بھی ریکوڈک کی وجہ سے لگا

ریکوڈک ڈیفینس مہم شروع کرنے کی وجہ کیا ہے؟

نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ وہ خاص لوگوں کی بات نہیں کر رہے تاہم جو عام سیاسی کارکن ہیں ان کے ذہنوں میں ریکوڈک معاہدے کے بارے میں تحفظات ہیں

ان کا کہنا تھا ”پہلے بھی اس منصوبے پر تنازع رہا اور اس وقت بھی وفاقی حکومت اس کو فروخت کرنا چاہتی تھی لیکن نواب اسلم رئیسانی اور ان کی کابینہ نے مزاحمت کی جس پر گورنر راج لگایا گیا“

”مبینہ طور پر نہ صرف فرقہ واریت کو ہوا دی گئی بلکہ نواب اسلم پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔‘ انھوں نے بلوچستان میں گذشتہ سال حکومت کی تبدیلی کو بھی ریکوڈک سے جوڑا“

نوابزادہ لشکری رئیسانی کا مزید کہنا تھا ”بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک رکن کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر دوسرے کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا لیکن پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی. وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کے پیچھے صرف یہ پالیسی تھی کہ افراتفری پیدا کی جائے تاکہ لوگوں کی توجہ اس جانب ہو اور اس کی آڑ میں ریکوڈک کو بیچ دیا گیا“

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے پر عام سیاسی کارکنوں کے تحفظات ہیں۔ اس لیے ہم نے مہم شروع کی کہ جو خفیہ معاہدہ کیا گیا اس کو لوگوں کے سامنے رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو خفیہ بریفنگ دی گئی جہاں سب لوگ جمع ہوئے لیکن اس کے بعد سارے لوگ خاموش ہو گئے۔

’بلوچستان کے لوگوں کو سابقہ معاہدوں کے حوالے سے تلخ تجربات ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں کے گیس کے وسائل کو استعمال میں لایا جا رہا ہے لیکن اس کی آمدنی سے بلوچستان کی ترقی پر خرچ نہیں ہوا۔‘

نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ ’سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے لوگوں کو بڑے خواب دکھائے گئے لیکن اس معاہدے کو اسمبلی کے سامنے نہیں لایا گیا کہ یہ کیسے ہوا اور اس میں بلوچستان کا حصہ کتنا ہے۔‘

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ چالیس سال سے سیندک کو لوٹا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے نام ہیں جنھوں نے ملٹی نیشنل کپمنیوں کے ساتھ ریکوڈک کے حوالے سے ڈیل کی

اگرچہ نوابزادہ لشکری رئیسانی کی طرح بلوچستان میں بعض قوم پرست جماعتوں کو بھی ریکوڈک کے معاہدے کے بارے میں تحفظات ہیں لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اسے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں

وزیر اعلیٰ بلوچستان اسے کامیابی کیوں سمجھتے ہیں؟

وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے چند روز قبل میڈیا کے نمائندوں سے ریکوڈک کے حوالے سے تفصیلی بات کی تھی

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں معدنیات کے حوالے سے ایک امریکی کمپنی کا جو معاہدہ ہوا، اس میں افغانستان کا حصہ 18 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ریکوڈک میں بلوچستان کا حصہ 25 فیصد ہے

انھوں نے کہا کہ ’رائلٹی اور بعض ٹیکسز کی مد میں آمدنی اس کے علاوہ ہے اور سب کچھ کو ملایا جائے تو بلوچستان کا حصہ 33 فیصد سے زائد ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کمپنی منصوبے پر کام شروع کرنے کے ساتھ ہی علاقے کی ترقی کے لیے چالیس ارب کے منصوبوں پر کام شروع کرے گی

انھوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اپنے تمام ٹیکسز معاف کیے کیونکہ ریکوڈک منصوبے سے آٹھ سے دس ارب روپے کی ایک بڑی سرمایہ کاری آئے گی جس سے سٹاک بھی اٹھیں گے اور ڈالر کی قیمت میں بھی کمی آئے گی

معاہدے کے حوالے سے پہلے اجلاس میں کیا ہوا؟

وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ ’جب میں نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف لیا تو اسلام آباد سے فون آیا کہ جہاز پکڑیں اور اسلام آباد پہنچیں۔ میں نے کہا کہ کیوں، تو کہا گیا کہ ریکوڈک سے متعلق ایپکس کمیٹی کا آخری اجلاس ہے۔‘

’میں جب وہاں پہنچا تو کہا گیا کہ کمفرٹ لیٹر لکھیں۔ وہ کمپنیاں کمفرٹ زون میں رہنا چاہتی تھیں کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ ان کے پیسے ملیں گے یا نہیں اور نیا معاہدہ ہو گا یا نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بتایا کہ جب تک یہ نہیں بتایا جائے گا کہ ریکوڈک میں بلوچستان کا حصہ کتنا ہے تو میں یہ لکھوں گا کہ اس میں بلوچستان حکومت کی رضامندی شامل نہیں۔‘

’میں نے وہاں پوچھا کہ ریکوڈک میں بلوچستان کا شیئر کتنا ہو گا ۔یہ بتایا گیا آپ کے شیئر طے کیے گئے ہیں۔ ہم ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کو واپس لا رہے ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امریکہ میں ہمارا روزویلٹ ہوٹل اور پی آئی اے نیلام ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بتایا گیا کہ آپ کے لیے بڑی خوشخبری ہے کہ پہلے بلوچستان کو 25 فیصد مل رہا تھا جس میں خرچے میں آپ کا حصہ تھا لیکن اب آپ کو 10 فیصد حصہ بغیر کسی خرچے کے ملے گا اس لیے آپ کو مبارک ہو۔

’میری بات پر اجلاس میں سناٹا چھا گیا‘

وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کہتے ہیں کہ ’جب انھوں نے 10 فیصد کی بات کی تو میں نے کہا کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ بین الاقوامی سطح پر ہم پھنس چکے ہیں۔ ہمارے اثاثے نیلام ہو رہے ہیں۔‘

’اس بات کو دیکھ کر میں ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں ورنہ 50 فیصد سے نیچے بات نہیں کرتا اور اس کے بغیر بلوچستان میں کسی کو گھسنے نہیں دیتا۔‘

میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ’میری اس بات پر تو اجلاس کے شرکا حیران ہو گئے اور سناٹا چھا گیا کہ یہ کیا نیا پاگل پن ہے۔‘

’میں نے کہا کہ 25 فیصد اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ملک پھنس گیا ہے۔ بہت سارے معاملات ہیں اور اس کے ہوٹلز اور اثاثے نیلام ہو رہے ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’مجھے بتایا گیا کہ وہ 25 فیصد بلوچستان کو کہاں سے دیں گے یہ تو ناممکن ہے۔ جس پر مجھے کہا گیا کہ پھر سرمایہ کاری میں حصہ دو تو میں نے کہا سرمایہ کاری کریں گے لیکن 25 فیصد لے کر جاﺅں گا کیونکہ بلوچستان کے لوگوں کو پتا ہے کہ پہلے منصوبے میں 25 فیصد تھا اب 10 فیصد کیسے ہو گیا۔‘

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ’وفاقی حکام نے کہا کہ یہ 25 فیصد اسی صورت میں تھا کہ بلوچستان نے سرمایہ کاری کرنی تھی۔ میں نے کہا کہ وہاں لوگوں کو کیا پتا ہے کہ 25 فیصد حصہ سرمایہ کاری کی صورت میں تھا۔ اب 10 فیصد کیسے لے کر جاﺅں گا۔ میں نے کہا کہ وہاں بڑے تجربہ کار سیاستدان ہیں جو ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ میں نے یہ بھی بتایا کہ معاہدے پر صرف دستخط نہیں کرنے بلکہ اس نے طویل عرصے تک چلنا بھی ہے۔

وزیر اعلیٰ کے مطابق ان کے اصرار پر انھوں نے مان لیا کہ 25 فیصد کریں گے جن میں سے 10 فیصد کسی خرچے کے بغیر ہوں گے لیکن بقیہ 15 فیصد کے لیے بلوچستان سرمایہ کاری کرے گا

’جب وہ 25 فیصد پر آمادہ ہوئے تو میں نے وزیر اعظم کو کہا کہ ہمارے پاس دال روٹی کے پیسے نہیں تو 15 فیصد کے لیے سرمایہ کاری کہاں سے لائیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے وزیر اعظم کو کہا کہ بلوچستان کے 15 فیصد حصے کی سرمایہ کاری وفاقی حکومت اپنی طرف سے کرے ورنہ میں اس معاہدے سے باہر ہو جاﺅں گا۔ آپ جانیں اور آپ لوگوں کا کام جانیں۔ اس پر مجھے کہا گیا کہ یہ کون سا طریقہ ہے، اس طرح تو نہیں ہوتا تو میں نے کہا جس طرح بھی ہوتا ہے لیکن میں بغیر کوئی پیسہ لگائے 25 فیصد سے کم پر دستخط نہیں کروں گا۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ وزیر اعظم، شوکت ترین، آرمی چیف اور جنرل اظہر کے شکرگزار ہیں کہ بلوچستان کی بات مان لی گئی۔

وزیرِ اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ریکوڈک کے حوالے سے سخت حالات آتے رہے۔ ’یہاں تک محسوس ہونے لگا کہ کہیں گورنر راج نہ لگ جائے کیونکہ پہلے بھی اس مسئلے پر گورنر راج لگوایا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ تمام شراکت داروں نے ہماری بات سنی اور اس بات کو تسلیم کیا کہ اگر اس معاہدے کو اچھے انداز سے چلانا ہے اور بلوچستان کے نوجوانوں کے اعتماد کو بحال کرنا ہے تو بلوچستان کی نئی حکومت کی بات کے ساتھ چلنا ہو گا۔

نیا معاہدہ کتنے سال کے لیے ہوا اور اس کا علاقہ کتنا ہے؟
وزیرِ اعلیٰ نے بتایا کہ ’سو سال کے لیے جس علاقے کا معاہدہ ہوا، وہ ہمارے رولز کے مطابق سو مربع کلومیٹر ہو گا۔ باقی جو حصے ہوں گے اس میں نیا معاہدہ کریں گے۔ ان میں حصہ 50 فیصد سے کم نہیں ہو گا۔ کوشش کریں گے کہ 70 یا 80 ہو لیکن 50 سے کم نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سے سیاستدانوں نے کہا کہ بلوچستان کا حصہ 50 فیصد ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک 80 فیصد ہونا چاہیے لیکن جو ہو زمینی حقائق کے مطابق ہو۔‘

’معاہدے کو خفیہ نہیں رکھا‘
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ کسی بھی چیز کو چھپایا نہ جائے کیونکہ اگر کسی چیز کو چھپایا جائے تو اس سے گمراہ کُن معلومات پھیلتی ہیں۔

’جھوٹی خبروں کی صورت میں یہ خبر چلتی کہ اربوں کا گھپلا ہوا۔ غلط خبر چل جانے سے یہ نقصان ہوتا کہ اس معاہدے کے لیے جو محنت ہوئی تھی اس کا بیڑہ غرق ہوتا اس لیے بلوچستان اسمبلی کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو نو گھنٹے کی بریفنگ دی گئی۔ اسمبلی میں بلوچستان کے نمائندے ہیں اور اسمبلی کو بریفنگ کا مقصد پورے بلوچستان کو بریفنگ تھی

سونے اور تانبے کے علاوہ دیگر معدنیات کا مالک کون ہو گا؟

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں معدنیات کے جو ذخائر ہیں وہ صرف سونے اور تانبے تک محدود نہیں بلکہ اس میں ان سے بھی زیادہ قیمتی معدنیات ہیں

اس سوال پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ کمپنیاں صرف تانبے اور سونے کی ملکیت میں شراکت دار ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سونے اور تانبے کے سوا باقی جتنی بھی معدنیات ہوں گے وہ سب بلوچستان کی ہوں گی۔

گوادر میں معدنیات کی پراسسینگ پروجیکٹ کا مجوزہ منصوبہ

وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مطابق ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ دنیا میں سونے کی کان کنی کی سب سے بڑی کمپنی ہے لیکن وہ پراسیسنگ نہیں کرتی۔

انھوں نے بتایا کہ ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ وہاں سے تانبہ کتنا نکل رہا ہے اور سونا کتنا، یا وہاں سے اور کونسی معدنیات نکل رہی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ معدنیات کی گوادر میں پراسیسنگ پروجیکٹ کے لیے ایک سعودی کمپنی سے بات چیت ہو رہی ہے۔

’نہ صرف ریکوڈک سے نکلنے والی معدنیات وہاں پراسیس ہوں گی بلکہ سیندک کی معدنیات بھی گوادر میں پراسیس ہونے کے بعد آگے جائیں گی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close