کیا چھٹی عظیم عالمی معدومیت شروع ہو گئی ہے؟

رضا ہمدانی

کرہ ارض پر کروڑوں سال سے جاندار جی رہے ہیں، ان میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ہمارے ایکو سسٹم یعنی ماحولیاتی نظام میں موجود ہیں، لیکن دوسری جانب ان جانداروں کا معدوم ہونا یعنی Extinction ارتقائی لائف سائیکل کا حصہ ہے، لیکن کئی بار معدومیت ان کے پھیلاؤ کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہوتی ہے اور یہ بیلنس خراب ہو جاتا ہے اور اسی کو وسیع پیمانے پر معدومیت یعنی ’ماس ایکسٹنکشن‘ کہتے ہیں

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں عدم اعتماد کے ووٹ کا شور ہے اور سیاسی درجہ حرارت زوروں پر ہے، شاید ہی کوئی معدومیت کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھے، لیکن اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ سائنس دانوں کے خیال میں چھٹی عظیم عالمی معدومیت کا آغاز ہو گیا ہے تو شاید آپ رکیں اور پڑھیں

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرہ ارض پر موجودہ دور میں معدومیت کا عمل جاری ہے اور اس کی وجہ ہم انسان ہی ہیں، لیکن کیا یہ وسیع پیمانے پر معدومیت کا عمل ہے؟ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ پچھلی پانچ ماس ایکسٹنکشنز کے دوران ہماری معلومات کے مطابق کیا ہوا تھا

سائنس دانوں کے مطابق اگر اس وقت معدومیت کی رفتار ’بیک گراؤنڈ ریٹ‘ سے زیادہ ہے تو ماس ایکسٹنکشن کا عمل جاری ہے۔ بیک گراؤنڈ ریٹ بتاتا ہے کہ اگر ہم انسانوں نے اقدامات نہیں کیے تو جاندار کتنی تیزی سے معدوم ہو جائیں گے اور یہ ریٹ دو عظیم عالمی معدومیت کے درمیان ہونے والی معدومیت سے معلوم کیا جاتا ہے

بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق انواع کی معدومیت کا ریٹ بیک گراؤنڈ ریٹ سے ایک ہزار سے لے کر دس ہزار گنا زیادہ ہے۔ اس کے مطابق گذشتہ ماس ایکسٹنکشن کے برعکس اس تیز رفتار معدومیت کے ذمہ دار صرف ہم انسان ہیں

تنظیم کے بقول اس وقت تقریباً 17 ہزار پودے اور جانوروں کو معدومیت کا خطرہ ہے اور یہ نمبرز بہت کم ہیں کیونکہ 19 لاکھ انواع میں سے صرف تین فیصد پر تحقیق کی گئی ہے جبکہ انواع کی تعداد 19 لاکھ سے بھی کہیں زیادہ اور ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد ایک کروڑ 30 سے 40 لاکھ انواع تک ہے۔ اسی طرح گذشتہ پانچ سو سالوں میں انسانوں کی وجہ سے 869 انواع معدوم ہوئیں۔ آٹھ میں سے ایک پرندہ اور چار میں سے ایک ممالیہ جانور کو مستقبل قریب میں معدومیت کا خطرہ ہے

تحقیق کے مطابق ماس ایکسٹنکشن ہر دس کروڑ سال کے بعد ہوتی ہے، تاہم اس کے بارے میں صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پہلی ماس ایکسٹنکشن 44 کروڑ سال قبل ہوئی جس میں 85 فیصد انواع معدوم ہوئیں۔ یہ ماس ایکسٹنکشن پہلے سخت سردی اور پھر تیزی سے گرمی ہونے کے باعث ہوئی

دوسری ماس ایکسٹنکشن 37.4 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جس میں 75 فیصد انواع معدوم ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سطح سمندر میں بہت زیادہ تبدیلی ہو رہی تھی اور تیزی سے بہت گرمی اور سردی ہو رہی تھی

تیسری ماس ایکسٹنکشن پچیس کروڑ سال قبل ہوئی اور یہ سب سے تباہ کن تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں 95 فیصد انواع معدوم ہوگئیں۔ اس ماس ایکسٹنکشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ زمین پر ایک بڑا سیارچہ گرنے کے نتیجے میں پیش آئی، تاہم اس حوالے سے متضاد آرا ہیں

چوتھی ماس ایکسٹنکشن بیس کروڑ سال قبل پیش آئی اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شاید بحر اوقیانوس میں ارضیاتی عمل کے باعث پیش آئی۔ اس میں زمین پر 80 فیصد انواع معدوم ہوئیں

پانچویں، آخری اور سب سے زیادہ مشہور ماس ایکسٹنکشن 14.5 کروڑ سال قبل ہوئی، جس میں 76 فیصد انواع معدوم ہوئیں بشمول ڈائناسور کے

ان پانچ ماس ایکسٹنکشن کے مقابلے میں چھٹی ماس ایکسٹنکشن میں انسان کا براہ راست یا بالواسطہ ہاتھ ہے، جیسے کہ جانوروں کے مسکنوں یا رہائش گاہوں کی تباہی، حد سے زیادہ ماہی گیری اور شکار، کیمیائی آلودگی اور انسان کی وجہ سے گلوبل وارمنگ

بر اعظموں میں معدومیت عام ہوتی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ 20 سالوں میں 50 فیصد معدومیت براعظموں میں ہوئی ہے۔ انسان اور معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع خاص طور پر ایشیا بالخصوص جنوب مشرق چین، بھارت، ہمالیہ، سری لنکا، جاوا، فلپائن اور جاپان کے کچھ حصوں اور افریقہ کے چند حصوں میں موجود ہیں

چھٹی ماس ایکسٹنکشن میں انسانوں کا براہ راست ہاتھ ہے۔ ’لیونگ پلینٹ‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسان نے 30 فیصد زمین کو خوراک کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور زراعت دنیا بھر میں 80 فیصد جنگلات کے خاتمے کا سبب ہے۔ زراعت ہی میں 70 فیصد تازہ پانی استعمال ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انواع کے مسکن تباہ ہو گئے ہیں

تاہم کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ماس ایکسٹنکشن کے حوالے سے ہم زیادہ ہی خوف کا شکار ہیں اور ابھی بھی معدومیت کی شرح وہ نہیں ہے کہ یہ کہا جا سکے کہ ہم چھٹی ماس ایکسٹنکشن کی جانب جارہے ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں بھی ہو رہا تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ابھی سے اقدامات کیے جائیں جیسے کہ انواع کی مسکن گاہوں اور ایکو سسٹم کو بحال کریں، کیمیائی آلودگی کا باعث بننے والی اشیا کا استعمال محدود کریں، ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے مراعات دی جائیں اور ایکو سسٹم کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کی جائیں.

بشکریہ : انڈپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close