پہلی عالمی جنگ میں بے نظیر ماحولیاتی نقصان

عبدالستار

1914ء سے 1918ء کے دوران نہ صرف کئی لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو بری طرح نقصان پہنچا بلکہ ماحول دشمن گیسوں کے اخراج نے فضائی آلودگی کو بھی بے نظیر سطح پر پہنچا دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں

بیسویں صدی اپنے دامن میں دو خوفناک عالمی جنگیں سمیٹے رخصت ہوئی۔ ان دونوں جنگوں نے نہ صرف دنیا بھر کے ممالک کی سیاسی، معاشی، اقتصادی اور عسکری ہئیت کو تبدیل کیا بلکہ انہوں نے عالمی ماحول کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ یہ تباہی نپولین کی جنگی مہمات میں یورپ کے ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب کیے جانے کے فوری بعد آئی تھی۔ انقلابی جنگیں کہلائی جانے والی ان فرانسیسی فوجی مہمات نے نا صرف جنگلات کو زبردست نقصان پہنچایا بلکہ خطے میں ماحولیاتی حدت میں بھی اضافہ کیا

ہزاروں ایکڑ زرعی زمین ناقابل کاشت

آئیے پہلی عالمی جنگ کی ماحولیاتی تباہ کاریوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ فورڈہم یونیورسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق خندقیں کھود کر لڑنے کی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے فرانس کے دیہی زرخیز علاقے بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوئے۔ یہ خندقیں شمالی سمندر سے لے کر سوئس سرحدوں تک کھودی گئی تھیں

یہاں لاکھوں سپاہیوں نے دن رات ہزاروں ٹن گولہ بارود کا استعمال کیا، جس سے ارد گرد کی زمین اور جنگلات کو زبردست نقصان پہنچا۔ جب جرمنی نے برطانیہ کے تجارتی راستوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں تو برطانیہ نے اپنی پچاس فی صد جنگلاتی اراضی کو تلف کر دیا۔ تین اعشاریہ تین ملین ہیکٹر زرعی زمین بھی بردباد ہوئی، جب کہ خندقی جنگ کی فوجی حکمت عملی نے کئی ممالک میں زمین کے بڑے حصوں کو نا قابل کاشت بنا دیا

اس جنگ کے تباہ کن اثرات اتنے شدید تھے کہ ان کے نشانات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سومے جنگ میں دو لاکھ پچاس ہزار ایکٹر زرعی زمین اتنی بری طرح تباہ ہوئی کہ وہ قابل کاشت ہی نہیں رہی۔ اس کے علاوہ جنگ کی وجہ سے چار لاکھ چورانوے ہزار ایکٹر پر پھیلے فرانسیسی جنگلات بھی تباہی سے دوچار ہوئے۔ برطانیہ نے اپنی جنگی ضروریات پوری کرنے کے لیے ساڑھے چار لاکھ ایکٹر پر مشتمل جنگلات کی کٹائی کی، جو ان جنگلات کے کل رقبے کا تقریباً پچاس فی صد حصہ تھا

اس کے علاوہ برطانیہ نے اپنے زیرِ تسلط نو آبادیاتی علاقوں سے لکڑی کے حصول کے لئے جنگلوں کو برباد کیا۔ جرمنی نے مقبوضہ علاقوں میں درختوں کو بڑے پیمانے پر کاٹا۔ مثال کے طور پر اس نے صرف لیتھوانیا سے پانچ ملین کیوبک میٹر لکڑی حاصل کی۔ اس جنگ نے پورے یورپ میں جنگلی حیات کو بھی بری طرح متاثر کیا اور ایک مرحلے پر بھینسوں کی نسل تقریباً مکمل طور پر ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔

زرعی زمین کا بے رحمانہ استعمال

جنگ نے صرف یورپ کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ امریکہ بھی اس کی ماحولیاتی ہولناکیوں سے محفوظ نہیں رہا۔ جنگ کے دوران کسانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ زمین کی زرخیزی کو بے رحمی سے استعمال میں لائیں، جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں ہزاروں ایکٹرز زمین بنجر ہوگئی، جس کی وجہ سے جنگلی حیات بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں جنگی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جنگلوں کو بھی بری طرح ختم کیا گیا

دورانِ جنگ عوام اور فوجیوں کو خوراک پہنچانے کے لیے کئی دیگر ممالک نے زمین کی زرخیزی کو بے رحمی سے استعمال کیا۔ اس کی وجہ جنگ کے سبب زرعی اجناس کی طلب میں یک دم اضافہ تھا۔ جو ممالک جنگ کا حصہ بھی نہیں تھے یا جنگ میں دیر سے شریک ہوئے تھے، انہوں نے متحارب ریاستوں کو زرعی اجناس فراہم کرنے کے لیے اپنی زرعی زمینوں کو ایسے استعمال کیا، جس کی وجہ سے ان کی زرخیزی آنے والے وقتوں میں بری طرح متاثر ہوئی۔ انٹرنیشنل انسائیکلو پیڈیا آف فرسٹ ورلڈ وار کے مطابق امریکہ میں یہ پیداوار بہت حد تک بڑھی

مثال کے طور پر 1915ء میں کاشت کاروں نے ساٹھ ملین ایکٹر پر گندم کاشت کی، لیکن 1919ء میں یہ نمبر چوہتتر ملین ایکڑ تھا۔ کچھ ممالک میں گندم کی کاشت فی ایکڑ دوسو فیصد، چار سو فیصد اور یہاں تک کے بعض اوقات ایک ہزار فیصد بھی بڑھی

زہریلی گیسوں کا بے دریغ استعمال

اس جنگ میں زہریلی گیسوں کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا، جس کا مقصد خندقوں میں چھپے دشمن کے سپاہیوں کو نشانہ بنانا تھا لیکن ان زہریلی گیسوں نے صرف انسانوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ یورپ کا ماحول بھی ان کے نشانے پر تھا۔ آنسو گیس، مسٹرڈ گیس اور کاربونل کلورائیڈ کا بے رحمی سے استعمال کیا گیا۔ ان گیسوں کے استعمال سے تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے لیکن ان کے زہریلے مادے فضا میں تحلیل ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی نقصانات بھی بڑھے

ماہرین کا خیال ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کی وجہ سے تمام متحارب اور غیر متحارب ممالک کو صنعتی پیداوار بھی بڑھانا پڑی تھی تا کہ جنگی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس لئے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی بڑے پیمانے پر بڑھا۔ مثال کے طور پر 1851ء میں برطانیہ ایک سو چوبیس میٹرک ٹن، امریکہ چالیس اعشاریہ نوے میٹرک ٹن اور جرمنی سترہ میٹرک ٹن کاربن خارج کر رہا تھا لیکن جنگ نے اس کاربن کے اخراج میں بے پناہ اضافہ کیا

جرمنی پہلی جنگ عظیم کا ایک مرکزی فریق ملک تھا اور جنگ کی وجہ سے اس کی صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جرمنی نے 1918ء میں پانچ سو ایک میٹرک ٹن کاربن خارج کی۔ دوسری جانب امریکہ تمام متحارب ریاستوں کو ہتھیار، زرعی اجناس اور صنعتی اشیاء فراہم کررہا تھا۔ لہذا اس کی پیداوار میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا اور نتیجے کے طور پر اس ہاں بھی کاربن کے اخراج میں بے حساب اضافہ ہوا۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close