ہم جو کریں وہ آلودگی، آپ جو کریں وہ ٹیکنالوجی؟

حسنین جمال

ہمارا شاپر آلودگی، ہماری گاڑی گندی، ہمارے کاغذ درخت کھائیں، ہمارے جوتے اور پرس غیر انسانی، آپ جو کریں وہ ٹھیک ہے!

بیس سال پہلے تک کوئی بھی شریف آدمی سودا خریدنے جاتا تو اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کی باسکٹ ہوتی تھی یا گھر میں سِلا ہوا کپڑے کا تھیلا۔ جو چیز خریدی، اس میں ڈالی اور ٹہلتے ٹہلتے واپس آ گئے

پلاسٹک کا ڈسپوزیبل شاپر اتنی بڑی سہولت تھی کہ لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ شاپر آئے تو سب کے مزے لگ گئے۔ جو کچھ خریدا باہروں باہر پیک کرایا، گھر لا کے تھیلا الٹا، چیز سنبھالی اور خالی شاپر کچرے میں پھینک دیا یا اچھی امیوں کی طرح بیڈ کے نیچے سنبھال دیا کہ پھر کبھی کام آئے گا

اچانک ہمیں پتہ لگا کہ اوئے ہوئے شاپر تو ماحول کو شدید ترین خراب کر رہے ہیں۔ سمندری حیات کو ان سے خطرہ ہے، زمینی جاندار ان سے مشکل میں ہیں اور یہ سہولت انسانوں کا مستقبل تباہ کرنے پہ تلی ہوئی ہے۔ ہم نے یقین کر لیا اور شاپرز سے جان چھڑانے کی کوشش کرنے لگے۔ سوال یہ ہے کہ دہی، دودھ، تیل جیسی چیزیں گھر لانے کے لیے دوبارہ برتنوں کی طرف رجوع کیا جائے یا کاغذ کے تھیلوں میں لائیں؟ ہم سے ہمارے شاپر چھین لیے گئے

ہم لوگ سول آئزڈ ہونا بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ آپ کچھ کھا پی کے گاڑی سے ڈبا باہر پھینکنے لگیں گے تو بیگم بچے آگے بڑھ کے روک لیں گے۔ کیوں بھئی کیا مسئلہ ہے؟ ’بری بات ہے، سڑک پہ نہیں پھینکتے۔‘

’لیکن اس وقت تو ہم جہاں کھڑے ہیں، وہاں پہلے ہی ڈھیروں شاپر اور کاغذ موجود ہیں۔‘

’پھر بھی نہیں پھینکنا، گاڑی میں رکھیں، گھر آ کے ڈسٹ بن میں ڈالیے گا۔‘

بعد میں اگلے دن لگتا ہے جیسے گاڑی میں چوہے مرے پڑے ہوں، تب کچرا نکلتا ہے۔ لیکن خیر، ہم لوگ ترقی تو کر رہے ہیں اور اپنا ملک تھوڑی گندا کرتا ہے کوئی!

شاپروں کا رونا ابھی بیچ میں تھا کہ ہمیں کرونا والے ماسک نے پکڑ لیا۔ وہ ایک نمبر کی مشکل تھی تو یہ ڈیڑھ عذاب ہے۔ ابھی کوئی سمندری حیات کسی کے دماغ میں نہیں آتی، کسی چڑیا، طوطے یا گدھ کی ٹینشن نہیں ہوتی، فٹ پاتھ کنارے پودوں تک میں یہ ماسک بکھرے ہوتے ہیں لیکن نہیں، ابھی مسئلہ انسان کو ہے تو اس لیے پلاسٹک نما چیز کا یہ ماسک سراسر انسانی حقوق میں شامل ہو گیا ہے اور ماحول بھی یاد نہیں آتا کسی کو…

ماحول سے یاد آیا، آپ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں لا رہے ہیں لیکن بھائی بجلی بن کیسے رہی ہے؟ وہی کوئلہ، تیل وغیرہ جلتا ہے تو اس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں سولر ذرائع سے کتنی بجلی بنتی ہے؟ تو اتنے لمبے لانجھے میں ٹانگ پھنسانے کی بجائے پٹرول ڈیزل میں کیا برائی ہے؟

پھر جو الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کے اندر پلیٹیں ہوتی ہیں؟ ان کا پلاسٹک ہوتا ہے؟ ان کا تیزاب ہوتا ہے؟ اس کی تیاری اور ان سب چیزوں کا بالآخر عمر پوری ہونے پہ کچرے میں جانا، وہ سب آلودگی نہیں پھیلائے گا؟ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک بندہ پٹرول استعمال کرے تو آلودگی، حکومت اسی کو جلا کے بجلی بنا دے تو آپ کی الیکٹرک گاڑی آب ہوا کے لیے صحت بخش بن جائے گی؟

پیپر لیس ہونے کا بہت شور ہے پچھلے دس سال سے… دفتروں کے کاروبار بڑی تیزی سے اس طرف شفٹ ہو رہے ہیں۔ لوگ فخریہ بتاتے ہیں کہ ہمارے یہاں کاغذ کم سے کم استعمال ہوتا ہے۔ کیوں کہ کاغذ بنانے کے لیے درخت کاٹنے پڑتے ہیں، اس لیے حکومتیں بھی پیپر لیس ہونے کی کوشش کرتی ہیں

یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن پیپر لیس ہونے کے لیے جو مشینیں آپ استعمال کر رہے ہیں ان کو بنانے میں کوئی آلودگی نہیں پھیلتی؟ ایک کمپیوٹر کے سی پی یو سے جو تابکاری خارج ہوتی ہے، اسے کیوں چپ کر کے پی جاتے ہیں آپ؟ کیا وہ انسان کے لیے خطرناک نہیں؟ موبائل جو ہر سال لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر میں ضائع ہوتے ہیں، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ، یہ سب چیزیں چاہے زمین میں دبا دیں چاہے جلا دیں، یہ آلودگی نہیں پھیلاتیں کیا؟ یہ کون سا پیپرلیس ہونا ہے کہ برابر تباہی کو گلے سے لگا لیں؟

وہ جو ہے، بٹ کوائن یا کرپٹو کرنسی… آپ کو پتہ ہے، اسے جنریٹ کرنے میں کتنے ہیوی کمپیوٹر لگتے ہیں اور ان کا ماحول پہ کیا اثر ہوتا ہے؟ سینتیس کلو ٹن انرجی سالانہ صرف ڈیجیٹل کرنسی مائننگ میں ضائع ہوتی ہے۔ جو بم ہیروشیما پہ گرا تھا، اس کی انرجی پندرہ کلو ٹن تھی۔ لگا لیں حساب…!! انویسٹوپیڈیا کے مطابق دنیا میں اب پندرہ ہزار سے زیادہ کرپٹو کرنسیاں ہیں اور جو اوپر حساب کتاب دیا ہے وہ ان اداروں کا ہے، جو بتا کے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہم گاڑی سے باہر ڈبہ نہیں پھینک سکتے.. اور دنیا والے آلودگی کا لولی پاپ ہمیں دے کے خود کرپٹو کرنسیاں بنا رہے ہیں؟

ہمیں کہا گیا کہ جانوروں کی کھال سے بنے جوتے اور پرس بنیادی جانورانہ حقوق کے خلاف والی چیز ہیں، ہم نے مان لیا۔ اب ہمیں پلاسٹک اور آرٹیفیشل لیدر یا ریکزین کے جوتے اور پرس برداشت کرنے پڑتے ہیں، لیکن ان کی آلودگی پر کسی کا دھیان نہیں جاتا

اصلی چمڑے سے بنی کوئی بھی چیز ہو، وہ ماحول دوست ہوتی ہے۔ دس پندرہ سال میں گل سڑ جاتی ہے۔ یہ جو پلاسٹکی مصنوعات ہیں، ان سے تو جان چھڑانا ممکن ہی کیسے ہوگا، اپنی سمجھ دانی سے باہر ہے یہ معاملہ!

ہماری چھوٹی چھوٹی سہولتیں دنیا کو آلودہ کر رہی ہیں اور جس کی لاٹھی ہے، وہ بھائی کرپٹو کرنسی بنائے، بجلی والی گاڑیاں بیچے یا بھلے کمپیوٹر کا انقلاب لے آئے۔

ہمارا شاپر آلودگی، ہماری گاڑی گندی، ہمارے کاغذ درخت کھائیں، ہمارے جوتے اور پرس غیر انسانی، آپ جو کریں وہ ٹھیک ہے!

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close