خبر لیجے زباں ‘پھسلی’

عثمان جامعی

ہمارا مشاہدہ کہتا ہے کہ لوگ یا تو چرب زبان ہوتے ہیں یا زبان دراز، یہ دونوں متضاد خصوصیات کسی میں یکجا ہونا ممکن نہیں، لیکن جہاں تک تعلق ہے سیاستدانوں کا تو وہ ‘خاص ہیں ترکیب میں’ اس لیے انہیں چرب زبانی، زبان درازی، دو منہ والی زبان اور زبان سے ‘چمڑا’ چمکانے کی صلاحیت سمیت زبان سے متعلق ہر خاصیت ودیعت کی گئی ہے تاکہ آسانی کے ساتھ سیاست کرکے مخلوق کو جتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں پہنچا سکیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اہلِ سیاست کی یہ خاصیت انہیں بعض اوقات مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ چرب زبانی کے باعث زبان پھسل جاتی ہے اور زبان درازی کی وجہ سے تو پورے کا پورا سیاستدان ہی اقتدار کی سیڑھیوں سے لڑھک کر نیچے جاگرتا ہے یا اسے زباں بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چرب زبانی کا معاملہ یہ ہے کہ چربی کی بہتات کے باعث زبان پھسلتی رہتی ہے اور زبان دراز ہو تو اسے قابو کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چرب زبانی ہوتی تو عوام اور ‘اداروں’ کو خوش کرنے کے لیے ہے، لیکن چربی زیادہ چڑھ جانے کے باعث منہ میں اتنی پھسلن ہوجاتی ہے کہ زبان اِدھر اُدھر پھسل کر بھد اڑوانے کا سبب بن جاتی ہے۔

جب زبان پھسلتی ہے تو الفاظ اپنی جگہ بدل کر اِدھر سے اُدھر ہوجاتے ہیں۔ اس میں قصور الفاظ کا نہیں، بات یہ ہے کہ سیاستدان جس طرح پینترے، پارٹی اور پالیسی بدلتے ہیں، اس سے ان کے الفاظ الجھے ہی رہتے ہیں کہ انہیں کب کس جگہ استعمال ہونا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ‘کانپیں ٹانگنے’ لگتی ہیں۔

نہ ہوئے حضرت جوش ملیح آبادی، ورنہ وہ تو زبان کے معاملے میں اتنے شدت پسند تھے کہ اگر آج ہوتے اور صاحبِ اختیار ہوتے، تو جانے کتنوں کو غلط اردو بولنے پر ذرا بھی کانپے بغیر ‘ٹانگ’ چکے ہوتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سیاستدانوں سے میڈیا تک ‘اردو کا جنازہ دھوم سے نکلتے دیکھ کر وہ ہوش کھو چکے ہوتے اور اردو کا مستقبل دیکھ کر ان کی ‘کانپیں ٹانگتی’ رہتیں۔

بہرحال ‘ٹانگتی کانپوں’ کا نظارہ کرنے والے بلاول بھٹو صاحب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ زبان کو پھسلنے سے بچائیں، ورنہ آئندہ کہیں ‘انتقام بہترین جمہوریت ہے’، نہ کہہ بیٹھیں۔

ابھی بلاول کی تقریر سُن کر ہماری ‘کانپیں ٹانگ’ ہی رہی تھیں کہ وزیرِ داخلہ شیخ رشید صاحب نے حزبِ اختلاف کو تڑی لگا دی کہ جس نے ‘قانون میں ہاتھ لیا’ اسے نہیں چھوڑوں گا۔ اب پتا نہیں شیخ صاحب کی زبان لڑکھڑا گئی یا وہ کوئی ‘اسی قسم کی’ بات کہنا چاہتے تھے۔ ویسے شیخ رشید کی زبان کم ہی بہکتی ہے، وہ تو اکثر بولتے ہی بہکی ہوئی زبان ہیں۔ ہم نے یہ تو سُن رکھا ہے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں، جس سے قانون کے ہاتھ ہونے کی تصدیق ہوتی ہے، قانون کے بارے میں ‘مزید معلومات’ شیخ صاحب کے اس بیان سے حاصل ہوگئیں۔

ہماری معلومات میں تو اضافہ محترمہ مریم نواز نے یہ فرماکر بھی کیا کہ ‘انڈے کتنے روپے کلو ہیں’ ورنہ ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ ‘انڈوں’ کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔ ممکن ہے انہوں نے گندے انڈوں کی بات کی ہو، جو سیاست میں اتنی کثرت سے ہیں کہ گننے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے تول کر ان کی قیمت لگائی اور حکومت سازی اور تحریک عدم اعتماد جیسے مواقع پر چکائی جاتی ہے۔

شکر ہے کہ بھائی کیپٹن صفدر ہمارے طبقے سے تعلق نہیں رکھتے، ورنہ انہیں روز ہدایت مل رہی ہوتی ‘سنیے، آدھا کلو انڈے، 2 کلو ڈبل روٹی اور ایک درجن دودھ لے آئیے گا، ناشتے کے لیے’، جواب میں کیپٹن صفدر گھبرا کر کہتے، ’چھوڑیں بیگم! دیگچی میں رات کی نہاری پوری ایک فٹ بچی ہوئی ہے، اسی سے ناشتہ کرلیں گے‘۔

زبان پھسلنے کا ذکر ہو اور جناب قائم علی شاہ کی یاد نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے۔ خیر ہوئی کہ موصوف نے امجد صابری کی شہادت پر تعزیت کرتے ہوئے جنید جمشید کا نام لے کر انہیں قوال قرار دیا، یہ بھی ممکن تھا کہ وہ فرماتے ‘جنید جمشید نے گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا اور سانولی سنولی سی محبوبہ جیسا صوفیانہ کلام قوالیوں کے ذریعے پیش کرکے دین کی بہت خدمت کی’۔

سائیں قائم علی شاہ شاعری پر بھی مہربان رہے، انہوں نے ساحر لدھیانوی کی نظم کے نہایت مشہور مصرع ‘خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا’ کے ساتھ وہ سلوک کیا جو ان کی جماعت سندھ کے مالی وسائل کے ساتھ کرتی ہے اور مصرع یوں پڑھا، ’خون پھر خون ہے گرتا ہے تو تھم جاتا ہے’۔

دراصل سائیں اس وقت وزیرِاعلیٰ تھے اور انہیں پورا خیال تھا کہ سڑکیں صاف رہیں اور خون جمنے نہ پائے، یہی خیال شاعر کے خیال پر غالب آگیا اور مصرع کو کچا چبا گیا۔ اچھا کیا کہ سائیں نے ساحر کا یہ پورا شعر نہیں پڑھا، ورنہ اصل شعر ‘ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا’ کو وہ یوں بھی پڑھ سکتے تھے:

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو جم جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو مٹ جائے گا

جب محترمہ فریال تالپور کی زبان پھسلی تو انہوں نے بلاول بھٹو کو بھی ‘شہید’ کہہ ڈالا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ بلاول کو محفوظ رکھے اور لمبی عمر عطا کرے، لیکن پھپھو کا یہ لغزش زدہ جملہ سن کر بلاول نے سوچا تو ہوگا کہ نام کے ساتھ بھٹو لگانا صحیح فیصلہ نہیں تھا، ورنہ بھٹو کے ساتھ شہید کا لاحقہ لگا ہی دیا جاتا ہے، جبکہ آدمی ‘زرداری’ ہو تو اسے عدالت سے سزا دلوانے کے لیے بھی ‘شہادت’ نہیں ملتی۔

ہم اَدّی کو مشورہ دیں گے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ناموں کے تسلسل میں اپنے بھائی اور بھتیجے کا نام ذرا وقفے سے لیا کریں، لیکن یہ وقفہ ان شخصیات کے کردار اور مقام کے حساب سے نہ ہو، ورنہ تو دوران تقریر فریال صاحبہ کو بھٹو اور بی بی کا نام لینے کے بعد آصف زرداری اور بلاول کا نام لینے کے لیے کئی سال تک توقف کرنے پڑے گا۔

دنیا بھر کے سیاستدانوں میں اگر زبان پھسلنے کا مقابلہ ہو تو عمران خان یہ عالمی کپ بھی جیت لیں گے۔ ہمارا حُسن ظن ہے کہ اتنا تو وہ خود بھی نہیں پھسلے جتنی ان کی زبان پھسلتی ہے۔ یہ تو ان کے حامیوں کی مہربانی ہے کہ اپنے رہنما کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی روحانیت کو رحونیت، تونسہ کو چونسا نہیں کہنے لگے ورنہ جانے کتنے لفظوں اور ناموں میں تبدیلی آچکی ہوتی۔

خان صاحب کی زبان جب پھسلتی ہے تو سائنس اور ٹیکنالوجی سے جغرافیے تک انقلاب لے آتی ہے، پھر نیپال سمٹ کر اپنے دارالحکومت کھٹمنڈو میں چلا جاتا ہے، ملک کے موسم بڑھ کر 12 ہوجاتے ہیں اور بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اب تک تو موسم کی ادا دیکھ کر انسان بدل رہے تھے اب انسانوں کی شرح پیدائش سے متاثر ہوکر موسم بھی صاحبِ اولاد ہونے لگے ہیں۔

‘اسپیڈ کی لائٹ سے زیادہ تیز ٹرین’ تصور میں یونہی زن سے گزر جاتی ہے جیسے خان صاحب سے بندھی امید کے دن گزر گئے، جرمنی اور جاپان کی سرحدیں آپس میں آ ملتی ہیں اور جرمن کہنے لگتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے یہ سرحدیں بہت دیر سے آپس میں آکر بھڑیں، ورنہ ایٹم بم ذرا سا بہک کر جرمنی پر گر سکتا تھا۔

عمران خان کی زبان بعض دفعہ تو اتنی پھسلتی ہے کہ باہر نکل کر دوسروں کی زبان بن جاتی ہے، اسی کیفیت میں انہوں نے انتخابی مہم کے دوران لوگوں کو ‘شیر پر مہر لگائیں’ کا مشورہ دے ڈالا تھا۔

عمران خان ہوں، مریم نواز، بلاول ہوں یا فریال تالپور اور قائم علی شاہ، ہم ان سمیت تمام سیاستدانوں کی تسکین قلب کے لیے بتائے دیتے ہیں کہ وہ زبان پھسلنے پر ذرا بھی پریشان نہ ہوں، اس سے لوگوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ عوام کو آپ کی زبان پر اعتبار کب ہے، وہ جانتے ہیں کہ جب آپ کی زبان نہیں پھسلتی تو آپ عوام کو بہلا پھسلا رہے ہوتے ہیں۔

بشکریہ : ڈان نیوز


عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close