نئی مہا بھارت

رؤف کلاسرا

پاکستانی سیاست کبھی بھی بور نہیں تھی۔ یقین نہیں آتا تو گوجرانوالہ کے جلسے میں کی گئی نواز شریف کی تقریر اور پھر ٹائیگر فورس سے کی گئی وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سن لیں۔ ایسا خوفناک منظر پہلے کبھی نہیں بنا تھا جو اب بن چکا ہے

ایک دفعہ عامر متین نے اپنے ایک گورے صحافی دوست کے حوالے سے ایک بات بتائی تھی۔ اس گورے کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کے کئی ملکوں میں رپورٹنگ کر چکا ہے لیکن جتنا اس نے پاکستانی لوگوں کو سیاست میں دلچسپی لیتے دیکھا اور کہیں نہیں دیکھا‘ یہاں ہر بندہ سیاسی ہے اور اس کے پاس اپنی سیاسی تھیوریز ہیں جو وہ گھنٹوں بیٹھ کر آپ کو وضاحت کے ساتھ سمجھانے کو تیار ہے۔ عامر متین کا کہنا ہوتا تھا: ایک لحاظ سے یہ اچھی بات ہے کہ ہر بندہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے کیونکہ سیاست اور سیاستدانوں نے ہی اس کی زندگی کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اس کو کیا معیارِ زندگی میسر ہوگا یا اس کے بچوں کا کیا مستقبل ہوگا سب کچھ کا انحصار انہی پر ہوتا ہے۔ اگر وہ سیاست میں دلچسپی لے گا تو وہ بہتر لیڈر اور حکمران اپنے لیے چن سکے گا۔

بلاشبہ پاکستان میں بچہ بچہ سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن جب قیادت چننے کی باری آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سب اسی بندے کو ووٹ دیں گے جس کو وہ دیتے آئے ہیں۔ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ دنیا کے اکثر ملکوں بشمول پاکستان میں لوگ چاہے کچھ بھی کہتے رہیں لیکن ووٹ اسی پارٹی کو دیں گے جس کے ساتھ وہ کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھے امریکن ووٹنگ پیٹرن کا زیادہ پتہ نہیں تھا۔ ورجینیا میں میرے دوست اکبر چوہدری سے بات ہورہی تھی تو وہ بولے رئوف بھائی، امریکہ میں نوے فیصد ووٹرز پہلے سے طے کر چکے ہوتے ہیں کہ انہوں نے ڈیموکریٹ کو ووٹ دینا ہے یا کنزویٹو کو۔ ان کا کہنا تھا: یہاں ریاستیں سیاسی پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہیں چاہے وہ بائبل بیلٹ ہو یا پھر ڈیموکریٹ کے حامی ہوں۔ کچھ بھی ہوتا رہے، ان کی پارٹی کچھ بھی کر لے وہ اسے ووٹ دیں گے‘ اس لیے یہ ساری جنگ صرف اس دس فیصد ووٹر کے لیے لڑی جاتی ہے جسے سوئنگ ووٹ کہا جاتا ہے۔ وہ ووٹرز جو کسی پارٹی کے ساتھ محبت پیار نہیں کرتے اور وہ وقت اور حالات یا امیدوار کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے کس کو ووٹ ڈالنا ہے، اس لیے چار سال جتنی بھی کوشش کی جاتی ہے وہ سب ان دس فیصد ووٹرز کو متاثر کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور سب تقریریں، مقابلے اور ٹی وی شوز اور ایک دوسرے پر حملے ان دس فیصد کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ میں نے کہا: کتنے خوش قسمت ہیں یہ دس فیصد جن کے لیے پورا میلہ رچایا جاتا ہے اور وہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کا صدر کون ہوگا۔

اگرچہ ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ میڈیا کوئی بڑی توپ ہے، یہ ایجنڈا سیٹ کرتا اور حکومتوں کو گرانے اور بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میری سوچ اس کے برعکس ہے۔ اب تک جو عالمی سروے ہوئے اور جو متعدد سٹڈیز ہو چکی ہیں، ان کے مطابق دنیا بھر کا میڈیا اپنے ملکوں میں عوام پر دس سے بارہ فیصد اثرات ڈالتا ہے یا انہیں اپنی رائے تشکیل دینے میں مدد دیتا ہے۔ اکبر چوہدری کی بات کو اس میڈیا سروے کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ دس فیصد لوگ ہی سوئنگ ووٹرز ہوتے ہیں جو اپنی رائے میڈیا کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں۔ حکومتیں بدلتی اور گرتی انہی دس فیصد کی وجہ سے ہیں، تو سوال یہ ہے نوے فیصد کیوں اپنی رائے بدلنے کو تیار نہیں ہوتے؟ وہ اتنے کیوں ڈٹے ہوئے ہیں؟
جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔ یہاں بھی نوے فیصد لوگوں کی اپنی پارٹیاں ہیں۔ وہ پارٹی الیکشن ہار جاتی ہے جس کا ووٹر الیکشن والے دن باہر نہیں نکلتا کیونکہ وہ مایوس ہو چکا ہوتا ہے، لیکن وہ ووٹر جا کر کسی اور پارٹی کو ووٹ نہیں ڈالے گا۔ انسانی مزاج عجیب ہے کہ ریسٹورنٹ بھی جائے گا تو کوئی نئی ڈش آرڈر نہیں کرے گا بلکہ جس کے ذائقہ سے وہ آشنا ہے اسی ڈش کا آرڈر دے گا۔ کم لوگ نئی ڈشن ٹرائی کرتے ہیں۔

اس انسانی مزاج کے باوجود ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں عمران خان کی شکل میں ایک نئی پارٹی بڑے عرصے بعد ابھری۔ اس سے پہلے بھٹو کی پارٹی ابھری تھی۔ بھٹو کی پارٹی ابھرنے کی وجہ جنرل ایوب خان کا طویل مارشل لا تھا۔ لوگ ایک ہی چہرہ دیکھ دیکھ کر تنگ آ گئے تھے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ادوار نے لوگوں کو مایوس کیا تھا لہٰذا لوگوں کو احساس ہوا کہ تیسرا آپشن ہونا چاہیے۔ یوں پُرانی تھیوری کے برعکس دس فیصد سے زیادہ لوگوں نے نئی پارٹی کو چانس دینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کو زیادہ ووٹ نوجوانوں کے ہی پڑے تھے۔ پیپپلز پارٹی اور نواز شریف کا ووٹ بینک زیادہ نہیں گرا تھا۔

اب حالت یہ ہورہی ہے کہ کسی پارٹی کا جلسہ دیکھ لیں تو وہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہوتے ہیں اور ہر پارٹی کے بندے کے پاس اپنے جواز موجود ہیں کہ اس کا لیڈر کتنا بہادر، حسین، ذہین اور قابل ہے جبکہ مخالف کتنا بونگا اور بیکار ہے۔ بہرحال لگتا ہے حالات بڑی تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری لڑائی میں اب پہلی دفعہ اسٹیبشلمنٹ کو بھی نشانے پر لیا گیا ہے۔

دوسری جانب نواز شریف نے ساری کشتیاں جلانے کا فیصلہ کرکے نہ صرف اپنی پارٹی کے لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا بلکہ ایک لائن بھی ڈرا کر لی ہے کہ وہ اب پیچھے نہیں ہٹیں گے؛ اگرچہ ان پر لوگوں کا اعتبار نہیں رہا۔ بہت سارے سوالات ہیں، جیسے چند ماہ پہلے تک نواز شریف کے حکم پر ہی (آرمی چیف کی) توسیع کا ووٹ ڈالا گیا تھا۔ جو الزامات اب نواز شریف نے لگائے ہیں وہ سب باتیں اس وقت بھی موجود تھیں جب توسیع کا ووٹ ڈالا جا رہا تھا، اس لیے شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ لڑائی اس وقت ہی کیوں شروع ہوتی ہے جب کسی کو اپنی مرضی کی ڈیل نہیں ملتی۔ محمد زبیر کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ناکام ملاقاتوں کے بعد نواز شریف کے پاس دو آپشن تھے۔ ایک یہ کہ جیسے جنرل مشرف کے جانے کا نو برس انتظار کیا اور پھر دوبارہ اقتدار میں آ گئے تھے، اسی طرح اب بھی سر جھکائے کام چلاتے رہتے۔ دوسرا آپشن یہ تھا وہ سب پر برس پڑیں اور سب کشتیاں جلا ڈالیں۔ لگتا ہے نواز شریف کو شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ انہیں ایکسٹینشن کے معاملے پر استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے انہوں نے تین سال کے لیے آرمی چیف لگایا اور پھر انہیں تین سال مدت ملازمت میں توسیع بھی دلوائی لیکن اس کے بدلے میں نواز شریف کو بھگوڑا اور اشتہاری قرار دیا گیا۔

نواز شریف صاحب کے ساتھ ایک مسئلہ ہے جو اب اس عمر میں غالباً حل نہیں ہو پائے گا، یہ کہ انہیں ہر مکا لڑائی کے بعد یاد آتا ہے۔ ایک وزیراعظم کو لڑائی ہمیشہ اس وقت لڑنی چاہیے جب وہ اقتدار میں ہو۔ جب اس کے پاس کچھ طاقت ہو اور وہ مظلوم بن سکتا ہو۔ جب آپ اقتدار سے باہر ہو جائیں تو پھر لڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھ سے پوچھیں تو نواز شریف صاحب نے دراصل اس اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کیا جس کو وہ آج للکار رہے ہیں۔ ان کے پاس چند اچھے مواقع تھے جو وہ اقتدار کی محبت میں استعمال نہیں کر سکے۔ اب جب وہ یہ سب باتیں سناتے ہیں کہ ان سے جنرل ظہیر نے استعفا مانگا یا کسی دوسرے معاملے میں فلاں فلاں ج نے وزیراعظم ہائوس سے نکالا یا برطرف کرایا گیا تو ان کی باتوں پر کم یقین آتا ہے۔ نواز شریف کو احساس ہے موجودہ قیادت کے ساتھ ان کا معاملہ اب طے نہیں ہوگا لہٰذا وہ سخت لائن لے رہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا کہ نواز شریف کوکہاں سے اشارہ مل رہا ہے‘ یہ مختلف کہانی ہے۔

بہرحال یہ طے ہے نواز شریف، جنرل مشرف دور کی طرح دوبارہ طویل انتظار کے لئے تیار ہیں، اور وہی پرانا فارمولہ اپنا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے ان کے اپنی قریبی ساتھی بھی اس نئی لیکن خطرناک مہابھارت کیلئے تیار ہیں؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close