اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے

جمعے کو پاکستان فیڈرل یونین آف جنرلسٹ کی درخواست پر جاری مختصر حکم نامے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نئے آرڈیننس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں لائے گئے پیکا ایکٹ کی شق 20 کو بھی کالعدم قرار دیا ہے

عدالتی فیصلے کے مطابق ’پیکا ترمیمی آرڈیننس 2020 کا نفاذ آئین اور اس کے نتیجہ میں ملنے والے بینادی حقوق کی توہین ہے جن کا تحفظ آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19 اے میں کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے اس آرڈیننس کے نفاذ کو غیرآئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘

عدالت نے کہا ہے کہ ’اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حق ہے جو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے اور جسے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے میں تحفظ حاصل ہے۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہتک عزت کو قابل گرفتاری اور قید جرم قرار دینا اور اس کے نتیجے میں ڈر اور خوف کی فضا پیدا کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ‘

اس کے علاوہ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں پیکا 2016 ایکٹ کی سیکشن 20 میں ہتک عزت اور اس کی سزا کو بھی آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دیا ہے

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے نون لیگ کے گزشتہ دور میں لائے گئے ’پریوینشن آف الیکٹرانک ایکٹ‘ (پیکا) میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے جعلی خبر چلانے پر سزا تین برس سے بڑھا کر پانچ برس کر دی تھی اور اسے ایک ناقابل ضمانت جرم کی شکل دے دی تھی

پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ٹیلی ویژن پر کسی بھی ‘فرد’ کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جاتی۔

جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا تھا۔

آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی، ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تفویض کیا گیا تھا۔

مذکورہ آرڈیننس کو ‘امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022’ کا نام دیا گیا تھا جو فوری طور پر نافذالعمل کردیا گیا تھا

عدالت نے صحافیوں کے خلاف اس طرح کے تمام مقدمات کو ختم کر دیا ہے، تاہم شکایت کرنے والے ہتک عزت کے دیگر متعلقہ قوانین کے تحت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں

عدالت نے اپنے حکم نامے میں توقع ظاہر کی ہے کہ وفاقی حکومت ہتک عزت کے قوانین خاص طور پر ہتک عزت آرڈیننس 2002 کا جائزہ لے گی اور اس کو موثر بنانے کے لیے قانون سازی کرے گی

فیصلے میں وزارت داخلہ کے سیکریٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور شہریوں کے حقوق کی پامالی کے الزامات پر تحقیقات کریں

عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو تیس دن کے اندر تحقیقات مکمل کر کے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت بھی کی ہے

سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے رواں برس فروری میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اب فیک نیوز چلانے پر تین برس کی جگہ پانچ برس سزا ہوگی اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔ میڈیا تنقید کرنا چاہتا ہے تو کرے لیکن فیک نیوز نہیں ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان مقدمات کا ٹرائل چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔ اگر اس مدت میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتا تو متعلقہ ہائی کورٹ اس جج سے ٹرائل مکمل نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گا۔ اگر کوئی وجہ نہ ہوئی تو اس جج کو سزا دی جائے گی۔‘

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان ترمیم کردہ قوانین کو ’جمہوریت کے منافی‘ قرار دے دیا تھا

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا تھا کہ ’ریاست پر آن لائن تنقید پر قید کی سزا کو دو سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کا مجوزہ قانون جمہوریت کے منافی ہے۔ یہ قانون حکومت اور ریاست سے اختلاف اور ان پر تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال ہوگا۔‘

آج کی سماعت میں کیا ہوا

آج ہونے والی سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی عدالت میں پیش ہوئے

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، کون ذمہ دار ہے؟ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے گئے اور ان کی ہی خلاف ورزی کی گئی

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اور وہ دفعات لگائیں جو لگتی ہی نہیں

انہوں نے کہا کہ یہ دفعات اس لیے لگائی گئی تھیں تاکہ عدالت سے بچا جا سکے، یہ بتا دیں کہ اس سب سے کیسے بچا جا سکتا ہے

ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کسی عام آدمی کے لیے ایکشن لیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا

ڈائریکٹر ایف آئی نے کہا کہ گرفتاری کے بعد برآمدگی پر بھی مقدمہ درج کیا جاتا ہے

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کس قانون کے تحت مقدمہ درج ہونے سے پہلے کسی کو گرفتار کرتے ہیں، آپ اپنے عمل پر پشیمان تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ کسی کا تو احتساب ہونا ہے، فیصلہ کریں گے کہ کون ذمہ دار ہے، صحافیوں کی نگرانی کی جارہی ہے، کیا یہ ایف آئی اے کا کام ہے؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے

چیف جسٹس نے کہا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے، ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا ہے یہ تاریخ ہے لوگ باتیں کریں گے

فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے بعد ازاں سنادیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close