کیا جی پی ایس سینسرز کے ذریعے اب زلزلے کی پیشنگوئی ممکن ہے؟

ویب ڈیسک

زلزلوں کی قبل از وقت پیش گوئی کا موضوع طویل عرصے سے عالمی سطح پر سائنس کی دنیا کا ایک اہم موضوع رہا ہے، اب فرانس سے تعلق رکھنے والے دو سائنسدانوں نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انتہائی حساس جی پی ایس سینسرز کی مدد سے زلزلے کے جھٹکےسے دو گھنٹے قبل اس کی پیش گوئی کرنا ممکن ہوگا

واضح رہے کہ زلزلوں کی قبل از وقت پیشن گوئی سے متعلق حالیہ بحث کا آغاز ولندیزی محقق فرینک ہوگربیٹس کی اس پیشن گوئی کے ساتھ ہوا، جس میں انہوں نے بلوچستان میں چمن فالٹ زون میں چھ سے زائد شدت کے زلزلے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اس کے چند دن بعد چمن سے تقریباً آٹھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع افغانستان کے صوبے ہرات میں شدید زلزلہ آیا، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی

تاہم دنیا بھر کے ماہرینِ ارضیات کا ماننا ہے کہ ہوگربیٹس کی پیشن گوئی سائنسی پیمانوں پر پوری نہیں اترتی اور اسے ’پیشن گوئی‘ سے زیادہ ’امکان‘ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں مقام اور وقت کے متعلق واضح معلومات نہیں ہوتیں

اب اس حوالے سے رواں ماہ مؤقر جریدے سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق میں کوٹ ڈی ازور یونیورسٹی فرانس سے وابستہ دو فرانسیسی جیو فزسٹ کوئنٹن بلیٹری اور جین میتھیو نوکیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ انتہائی حساس جی پی ایس سینسرز کی مدد سے زلزلے سے دو گھنٹے قبل ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکات کا جائزہ لے کر زلزلے کی پیشنگوئی کرنا ممکن ہوگا

اپنی تحقیق کے بارے میں کوٹ ڈی ازور یونیورسٹی کے جیو فزکسٹ کوئنٹن بلیٹری نے میڈیا سے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ان کی تحقیق کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے زلزلوں کا بنیادی میکینزم جاننا ضروری ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ زلزلہ اس وقت آتا ہے، جب زمین کی سب سے اوپری تہہ یا کرسٹ کے دو بلاکس کسی فالٹ لائن کے ساتھ مقفل (لاک) ہو جاتے ہیں

بلیٹری کے مطابق اس طرح ان بلاکس کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوتا ہے، جو اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک یہ پھسل کر دوبارہ ایک نارمل حالت میں نہیں آ جاتے۔ ارضیاتی ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد پتا لگایا ہے کہ پھسلنے کا یہ عمل آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوتا ہے، جس کی رفتار اور شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے

کوئنٹن بلیٹری کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے پیشگی سگنلز کی علامات زیادہ تر انفرادی زلزلوں کے لیے دیکھی گئی ہیں۔ ان سے کبھی بھی ایسا سگنل نہیں ملا، جو تمام زلزلوں پر لاگو ہو سکے

بلیٹری بتاتے ہیں کہ انہوں نے تحقیق کے شریک مصنف جیوڈیسٹسٹ جین میتھیو نوکیٹ کے ساتھ مل کر اس پر کافی سوچ بچار کیا اور پھر دنیا بھر میں آنے والے سات سے زیادہ شدت کے نوے زلزلوں کا ڈیٹا جمع کیا۔ جس کے لئے زلزلے کے مرکز کے قریب واقع جی پی ایس اسٹیشنوں سے مدد لی گئی

بلیٹری بتاتے ہیں کہ یہ جی پی ایس اسٹیشن ہر پانچ منٹ بعد ملی میٹر کی درستگی کے ساتھ ارضیاتی حرکات نوٹ کرتے ہیں۔ اس ڈیٹا کا جائزہ لے کر انہیں معلومات ملیں کہ زلزلے سے تقریبا اڑتالیس گھنٹے قبل ارضیاتی حرکت میں شدت آ جاتی ہے۔ متعدد جگہ زلزلے کے بڑے جھٹکے سے اڑتالیس گھنٹے قبل تین ہزار ارضیاتی حرکات بھی نوٹ کی گئیں

بلیٹری اور نوکیٹ نے ایک ٹائم سیریز مرتب کی، جس کے مطابق پہلے چھیالیس گھنٹے میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافہ ہوا، لیکن زلزلے سے دو گھنٹے قبل یہ اضافہ غیر معمولی تھا۔ بلیٹری بتاتے ہیں کہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بڑے جھٹکے سے پہلے فالٹس لائن مرکزی مقام پر پھسل رہی ہوں

اس کی مزید تصدیق کے لئے دونوں محققین نے عام دنوں میں ہونے والی زمینی حرکات کی ایسی ایک لاکھ ٹائم ونڈوز کا جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس وقفے میں غیر معمولی حرکیات کا تناسب اعشاریہ صفر تین فیصد تک تھا۔ جس سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر انتہائی حساس جی پی ایس سینسرز دستیاب ہوں، جو ملی میٹر کی حد تک ارضیاتی حرکت کا درست کھوج لگا سکیں، تو آخری دو گھنٹے میں زلزلے کی قبل از وقت پیشن گوئی ممکن ہوگی

تو کیا یہ تکنیک واقعی قابل عمل ہے؟ اس بارے میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے جیو فزسٹ پال سیگل کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی دلچسپ اور چونکا دینے والی تحقیق ہے مگر ابھی اسے جانچ پڑتال کے سخت مراحل سے گزرنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اکثر بڑے زلزلے سے پہلے کچھ چھوٹے جھٹکے بھی آتے ہیں لیکن ہر مرتبہ ایسا نہیں ہوتا، لہٰذا جو ڈیٹا جی پی ایس سے جمع کیا گیا، اسے ابھی مزید جانچنے کی ضرورت ہے

قدیر قریشی سائنسی علوم کے ایک معروف محقق ہیں، انہیں سائنسی علوم کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر پاکستان کے سب سے بڑے سائنس فورم ’سائنس کی دنیا‘ کے بانیوں میں سے ہیں۔ ان کے مطابق سائنسدان جی پی ایس سے حاصل شدہ بڑے ڈیٹا کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے پروسس کر کے ایک ایسا طریقِ کار و ضع کرسکتے ہیں، جن سے زلزلے کی قبل از وقت اور قابلِ بھروسہ پیشن گوئی ہوگی

قدیر قریشی کہتے ہیں کہ اگرچہ ابھی تک اتنا زیادہ ڈیٹا موجود نہیں، جس کی روشنی میں زلزلے کی درست پیشنگوئی ممکن ہو، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ یہ فرانسیسی سائنسدان اپنی تحقیق آگے بڑھانے کے لیے کافی پرجوش ہیں اور مستقبل قریب میں انتہائی حساس اور مؤثر جی پی ایس سینسرز تیار کر لیں گے۔ ان سیسنرز کو مرکزی فالٹ زونز میں نصب کر کے مزید تحقیق کی جائے گی، جس سے زلزلے کی قبل از وقت درست پیشنگوئی ممکن ہوگی

انہوں نے مزید کہا ”یہ غالباً زلزلوں کی پیشنگوئی کی طرف ایک امید کی کرن ہے، لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ زلزلے زمین کے اندر کئی میل گہرائی میں پتھروں کی تشکیل میں تباہ کن ناکامی کے باعث آتے ہیں، لہٰذا اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ہر زلزلے سے پہلے ایسی قابلِ شناخت حرکات نوٹ کی جا سکیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close