غائب کر دینے والا ’’سلیمانی شیشہ‘‘
ایک برطانوی اسٹارٹ اپ کمپنی ایسا شیشہ فروخت کر رہی ہے، جو اپنے پیچھے موجود کسی چیز کو نظروں سے اوجھل کردیتا ہے جبکہ اس سے پیچھے کا منظر بھی دکھائی دیتا رہتا ہے
اس شیشے کی تیاری میں وہی طریقہ استعمال کیا گیا ہے جو منظر بدلنے والے تفریحی فٹ اسکیلز اور کھلونوں میں برسوں سے استعمال ہوتا آ رہا ہے؛ جسے ’’لینٹی کیولر لینسنگ‘‘ کہا جاتا ہے
یہ تکنیک استعمال کرتے ہوئے کسی شیشے میں سے روشنی اس طرح گزاری جاتی ہے کہ دوسری طرف کا منظر بہت دھندلا دکھائی دینے لگتا ہے جبکہ اس کے پیچھے رکھی ہوئی چیز، اسی دھندلے پن میں تقریباً غائب ہوجاتی ہے
برطانیہ کی ’’اِن وزیبلٹی شیلڈ کمپنی‘‘ نے اب یہی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایسے بڑے شیشے تیار کیے ہیں جن کے پیچھے ایک انسان چھپ کر نظروں سے اوجھل ہوسکتا ہے
یہ ’’سلیمانی شیشہ‘‘ چھوٹے اور بڑے سائز میں دستیاب ہے۔ بڑے سلیمانی شیشے کی اونچائی 3 فٹ 1 انچ (37 انچ) اور چوڑائی 2 فٹ 1 انچ (25 انچ) ہے جسے 299 برطانوی پاؤنڈ میں خریدا جا سکتا ہے
چھوٹے شیشے کی اونچائی صرف 12 انچ اور چوڑائی 8 انچ ہے؛ اور اسے صرف 49 پاؤنڈ میں خریدا جاسکتا ہے
فی الحال ’’اوجھل کرنے والے شیشوں‘‘ کی فروخت عالمی اسٹارٹ اپ کمپنی ویب سائٹ ’’کک اسٹارٹر‘‘ کے ذریعے کی جارہی ہے، جہاں اس ٹیکنالوجی کی دیگر تکنیکی تفصیلات بھی دیکھی جاسکتی ہیں
’’اِن وزیبلٹی شیلڈ کمپنی‘‘ نے اگرچہ یہ سلیمانی شیشے تفریحی مقاصد کے لیے تیار کیے ہیں، تاہم اسی طرح کی تحقیق عسکری اور تجارتی مقاصد کے لیے جاری ہے تاکہ ٹینک اور طیارے تک دشمن کی نظروں سے اوجھل کیے جاسکیں۔ البتہ یہ بہت پیچیدہ کام ہے، جس میں اب تک کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے
سورج مکھی کے زردانوں سے بنا کاغذ، جس پر بار بار لکھا جاسکتا ہے
اگرچہ کاغذ کو بازیافت (ری سائیکل) کرنا ایک بہتر طریقہ ہے لیکن سنگاپور کے سائنسدانوں نے سورج مکھی پھول کے زردانوں سے ایک نیا کاغذ بنایا ہے جسے بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے
پولن گرین سے بنا یہ کاغذ ایک کیمیکل سے صاف ہوجاتا ہےجس کے بعد اسے دوبارہ چھاپا اور لکھا جاسکتا ہے۔ سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی نے دو سال قبل اس کاغذ پر کام شروع کیا۔ اس کی تیاری عین صابن سازی کی ہی طرح ہے جس میں پوٹاشیئم ہائیڈروآکسائیڈ استعمال کی گئی ہے جو سورج مکھی زردانے کے بیرونی سخت خول کو گھلادیتی ہے
اب تبدیل شدہ زردانوں کا نرم اندرونی حصہ باقی رہتا ہے سے ڈی آئیونائزڈ پانی سے دھوکر مزید صاف اور خالص بنایا جاتا ہے۔ اب زردانوں سے ایک نیم مائع جل بنایا گیا۔ اس کے بعد تبدیل شدہ زردانے والے جیل کو ایک سانچے میں رکھ کر خشک کرکے دبایا گیا تو صرف 0.03 ملی میٹر پتلا کاغذ ڈھالا گیا اور اس پر اسیٹک ایسڈ گزار کر نمی سے پاک کیا گیا
اس طرح ہموار، پتلا اور نیم شفاف کاغذ ہاتھ آیا جو لیزرپرنٹرسے گزر کر پرنٹنگ کے قابل ہے اور روایتی ٹونر اس پر تصاویر اور الفاظ چھاپے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد کاغذ گیلا بھی ہوجائے تب بھی اس کی پرنٹنگ غائب نہیں ہوتی
اب کاغذ کو دوبارہ لکھنے کے قابل بنانے کے لیے اسے الکلائن محلول میں دو منٹ رکھ کر ہلایا جائے تو سارا لکھا چھپا غائب ہوجاتا ہے۔ اسے خشک کرکے اب دوسری، تیسری اور کئی بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں کاغذ بار بار استعمال ہوسکتا ہے لیکن اس کے معیار پر کوئی فرق نہیں پڑتا
دلچسپ بات یہ ہے کہ درخت ضائع کئے بغیر سورج مکھی کے فالتو زردانوں سے انقلابی کاغذ کا پورا کارخانہ لگانا ممکن ہے۔ جبکہ کنول اور کامیلیا کے زردانوں سے بھی یہ کاغذ بنایا جاسکتا ہے
اس اہم ایجاد کی تفصیل جرنل آف اینڈوانسڈ مٹیریئل میں شائع ہوئی ہیں
نئے شمسی پینل، جو رات کے وقت بھی بجلی بناسکتے ہیں
شمسی سیلوں پر مشتمل پینل عموماً دن کی روشنی میں اسی وقت بجلی بناتے ہیں، جب دھوپ پڑ رہی ہوتی ہے۔ اب ایک خاص قسم کے شمسی سیل سے رات کے وقت بھی بجلی حاصل ہو سکتی ہے، تاہم توانائی کی قلیل مقدار سے ایک اسمارٹ فون ضرور چارج کیا جا سکتا ہے
دن بھر حرارت اور روشنی جذب کرنے کے بعد شمسی سیل رات کے وقت دھیرے دھیرے کچھ نہ کچھ توانائی خارج کرتے ہیں۔ اگر زمینی فضا سے باہر دور خلا میں شمسی پینل کسی خلائی جہاز پر نصب ہوں تو بیرونی خلا کا درجہ حرارت تین کیلون ہوسکتا ہے اور یوں شمسی پینل اور بیرونی درجہ حرارت کا فرق بڑھنے سے زیادہ بجلی بن سکتی ہے۔ تاہم اب زمین پر بھی یہ عمل ممکن ہوسکتا ہے
اس ضمن میں اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر شان ہوئی اور ان کے ساتھیوں نے عام استعمال ہونے والے شمسی سیلوں اور ان پرمشتمل سولر پینل پر تھرموالیکٹرک جنریٹر لگایا ہے۔ یہ نظام بالخصوص رات کے وقت درجہ حرارت کے فرق کو استعمال میں لاکر تھوڑی مقدار میں بجلی بناسکتا ہے
پوفیسر شان ہوئی کہتے ہیں کہ سولر پینل حرارت خارج کرنے کی بنا پر بہت مؤثر تھرمل ریڈی ایٹر ہوتے ہیں۔ رات کے وقت ان کا درجہ حرارت اطراف کی ہوا کی گرمی سے بھی کم ہوجاتا ہے اور یہی موقع ہے جب ہم اس سے توانائی حاصل کرسکتے ہیں
جب رات کے وقت تبدیل شدہ سولر پینل کا رخ آسمان کی جانب کیا گیا تو درجہ حرارت کے فرق سے تبدیل شدہ شمسی سیل کے پینل نے 50 ملی واٹ فی مربع میٹر بجلی بنائی۔ لیکن یہ اصل شمسی پینل سے حاصل شدہ بجلی سے بہت بہت کم ہے یعنی دن کے مقابلے میں جو بجلی بنتی ہے اس کی 0.04 فیصد بجلی ہی بن پاتی ہے۔ لیکن ایک مربع میٹر سے حاصل شدہ بجلی بھی چھوٹے آلات کی چارجنگ میں استعمال ہوسکتی ہے ۔ اسے اسمارٹ فون اور ایل ای ڈی روشنیوں کو چارج کیا جاسکتا ہے
رات کو براہِ راست بجلی حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے کسی اضافی بیٹری کی ضرورت نہیں رہتی۔ بجلی کے مرکزی نظام سے دور رہ کر بھی بجلی کی اچھی مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم اس تجربے کو بڑھا کر اس سے حاصل شدہ بجلی کی مقدار بڑھائی جاسکتی ہے
اگلے مرحلے میں اس پورے نظام کو تجارتی پیمانے پر تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی.