کراچی کلائمیٹ مارچ 2023 جیسے اقدام کتنے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں؟

محمد توحید

سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی تنظیموں اور سرگرم ماحولیاتی کارکنوں کی جانب سے 16 جولائی بروز اتوار کراچی کلائمیٹ مارچ کا انعقاد کیا گیا ہے، جو فریئر ہال سے سہ پہر 3 بجے شروع ہوا۔ کراچی اربن لیب ایک تحقیقی ادارے کی حیثیت سے ماحول، فطرت، دریاؤں، شہروں اور برادریوں کے تحفظ کے لیے کراچی کلائمیٹ مارچ کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ ماحولیاتی مارچ کیوں کیا گیا ہے؟ اس مارچ کا مقصد عوام کو ماحولیاتی خطرات سے آگاہ کرنا ہے، جیسے پینے کے صاف پانی کا نہ ہونا، شہری سیلاب، بجلی کی طویل بندشیں، شدید گرمی اور ہیٹ ویوز، آلودہ ہوا، صحت عامہ کے مسائل، حبس زدہ ماحول، موسم کی شدت، ممکنہ طوفان، سطح سمندر کا بلند ہونا، شدید بارشیں، دریائے سندھ کی تباہی، سندھ کے ڈیلٹا کا خشک ہونا، زرعی زمین کا کم ہونا، سیلاب اور فصلوں کا نقصان اور شہروں کی جانب نقل مکانی۔ پھر ترقی کے نام پر کی جانے والی ماحول دشمن تعمیرات جیسے بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی، ملیر ایکسپریس وے۔ ساتھ ہی ماحولیاتی تباہی کے اثرات اور اس ضمن میں حکومتی اداروں کی نااہلی اور بے حسی کو اجاگر کرنا بھی ماحولیاتی مارچ کا مقصد تھا۔

اگر ہم ایسا نظام چاہتے ہیں، جو ماحولیاتی اور حرارتی انصاف پر مبنی ہو اور جس میں ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی، منصفانہ توانائی، صاف ہوا، پانی، دریا اور جینے کا محفوظ ماحول میسر ہو تو ہمیں اس جیسے مارچ کی حمایت کرنی چاہئیے۔ کراچی اور سندھ کے رہائشی کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی ماحولیاتی تباہی پر اپنی آواز اٹھائیں کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہر کراچی دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہونے کے باوجود اب گندے ترین شہروں میں سے بھی ایک ہو گیا ہے، جہاں زندگی اور صحت تک محفوظ نہیں کیونکہ ہمارے بلدیاتی ادارے صاف پانی فراہم نہیں کر سکتے، ہوا کے معیار کو بہتر نہیں رکھ سکتے اور سیلاب، شدید بارش، شہری سیلاب یا گرمی سمیت ہمیں کسی بھی موسمیاتی آفت سے بچانے سے قاصر ہیں۔ شدید گرمی، ہیٹ ویوز اور دائمی گرمی کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں۔

کراچی کے جزیرے بھٹ کے رہائشی 18 گھنٹے بجلی کے بغیر گزارنے پر مجبور ہیں۔ کراچی کے علاقے لیاری میں 14 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے جبکہ مجموعی طور پر 50 فیصد کراچی کو 12 گھنٹے کی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔

پھر اگر شہری سیلاب کی بات کی جائے تو پچھلے 5 سالوں سے مون سون کی بارشوں میں شہر کا ڈوبنا ایک معمول کی بات بن چکی ہے اور سال بہ سال حالات بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کے شہری سیلاب کا مسئلہ اس کی پیچیدہ نوعیت کو اجاگر کرتا ہے جو کہ ناقص انفراسٹرکچر، ٹوٹی ہوئی شہری حکمرانی، موسمیاتی تبدیلی اور ناکافی منصوبہ بندی اور انتظام جیسے عوامل سے متاثر ہے۔ کراچی کے شہری سیلاب کی وجہ سے صرف بنیادی ڈھانچے کے مسائل ہی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی متاثر ہیں۔

کراچی کا سیوریج لیاری اور ملیر ندیوں میں جاتا ہے، جن میں 80 کی دہائی تک صاف پانی موجود تھا، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سربراہ کے مطابق ان کے پاس ان دونوں ندیوں کی صفائی کا کوئی انتظام موجود نہیں اور ان ندیوں کا پانی استعمال کے لیے محفوظ نہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہم 2023 میں سیوریج کے دریا میں ڈوب رہے ہیں اور لوگ ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور ڈائریا جیسے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔

شہر میں 64 بڑے اور 510 چھوٹے نالے ہیں جن میں یا تو کچرا بھرا ہوا نظر آتا ہے یا پھر ان پر تعمیرات ہیں اور یہ تعمیرات کچی آبادیاں نہیں بلکہ ایلیٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز بھی ہیں۔ نالوں کے اخراج پر ان کی چوڑائی کو کم کر دیا گیا جس سے پانی کو نکاس کا راستہ نہیں ملتا اور شہر ڈوب جاتا ہے۔ مجموعی طور پر شہر کا قدرتی نکاسی آب کا نظام شہری بستیوں اور ترقیاتی سرگرمیوں سے بری طرح متاثر ہوا ہے، جس سے یہ سیلاب کا زیادہ شکار ہو گیا ہے جبکہ دوسری جانب پلاسٹک کے کچرے اور سیوریج کی صفائی کے ناقص منصوبے کے نام پر اورنگی اور گجر نالوں کے ساتھ آباد 20 ہزار خاندانوں کا دیوالیہ نکال دیا گیا ہے۔ نالوں کی صفائی کے نام پر انہیں بے گھر کر دیا گیا۔

یہ سب کچھ محنت کش طبقے کے لوگوں کے مفادات پر حملوں کے ایک طویل عمل کا تسلسل ہے، جس سے گجر نالہ اور اورنگی جیسے نالوں کے کنارے رہنے والا غریب ترین طبقہ بے گھر ہو گیا ہے جبکہ اشرافیہ کی آبادیاں نالوں کے اخراج پر موجود ہیں۔

شہری سیلاب میں کردار ادا کرنے والے عوامل میں سڑکوں کا ناقص انتظام، شدید بارش، ناکافی اور فرسودہ نکاسی آب کا نظام، شجر کاری، زمین کی بحالی، کچرے کا ناقص انتظام اور حکومت کی محدود صلاحیت شامل ہیں۔ پیچیدہ شہری سیاست اور طویل المدتی منصوبہ بندی اور تیاری کی کمی کی وجہ سے کراچی میں سیلاب کا ردعمل چیلنجنگ ہے۔ سیلاب غیر متناسب طور پر شہر کے غریبوں کو متاثر کرتا ہے جو کمزور غیر رسمی بستیوں میں رہتے ہیں۔ اس سے نقل و حمل کے نظام اور ضروری خدمات تک رسائی میں بھی خلل پڑتا ہے۔ یہ سب باتیں لوگوں کی تکلیفوں میں اضافہ کرتی ہیں اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کس قسم کی دنیا اپنے بچوں کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں۔

بلدیاتی ناکامیوں کے نتائج کے علاوہ وقت سے پہلے اموات، خراب صحت اور موسمیات آفات ایسی خرابیاں ہیں جو عوام کو ماحول دوستی سے عاری حکومتی ترقیاتی منصوبوں کے باعث بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ تعمیرات جن کی بنیاد قدرتی وسائل کے اندھے لالچ پر ہوتی ہے، بے لگام ‘ترقی’ کے مترادف ہو گئی ہیں اور یہ ہمارے ماحول، ماحولی اثاثوں، گروہوں اور لوگوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

ترقی کی نام پر شہر کو ماحولیاتی تباہی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کے 45 دیہاتوں پر بنایا گیا ہے جہاں کے صدیوں سے آباد رہائشی غیر قانونی طور پر زبردستی ہٹائے گئے جبکہ کیرتھر نیشنل پارک کے اندر پہاڑوں کی تباہی کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ جبکہ ڈی ایچ اے کو ڈی ایچ اے سٹی سے ملانے والا ملیر ایکسپریس وے لوگوں، خواتین و بچوں کو روڈ پر لے آیا ہے۔ اس منصوبے نے چھوٹے کسانوں کو دربدر اور ثقافتی مراکز جیسے سید ہاشمی لائبریری کو سخت متاثر کیا ہے۔ اس نے گھروں، زرعی زمینوں، قبرستانوں اور ملیر ندی کو تباہ کر دیا ہے جبکہ ملیر ندی صاف پانی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھی اور اس کے ارد گرد شہر کا واحد سبزہ تھا، جو اب ملیر ایکسپریس وے کی نذر ہونے سے جہاں خوراک کی کمی کا سامنا ممکن ہے، وہیں شہر کے درجہ حرارت میں شدید اضافہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ کراچی کی غذائی سپلائی لائن مانا جانے والا ملیر کا زرعی علاقہ شہر کی غذائی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو گیا ہے۔

یہ مارچ صرف سندھ اور کراچی کے ماحول کے تحفظ کے لئے نہیں تھا بلکہ پورے پاکستان کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے اور لوگوں میں اس کے بدترین اثرات سے آگاہی اور حکومتی اداروں کی توجہ اس جانب دلانے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو دوبارہ بحالی کے لیے حکومت کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ انہیں اموات پر معاوضہ، محفوظ پناہ گاہیں، صحت کی دیکھ بھال، متبادل ذریعہ معاش فراہم کیا جائے۔ ان کے رہن سہن میں آب و ہوا کے مطابق لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ استحصال زدہ اور پسماندہ طبقے کا معیار زندگی بہتر ہو

ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زمین کے اندر سے جو وسائل آتے ہیں، ان کے ماحولیاتی اور انسانی اثرات بھی ہوتے ہیں اور پاکستان میں اس کا اثر غیر ضروری طور پر ماحول و انسان مخالف ہے۔ اس میں زراعت، کان کنی، ماہی گیری، گیس اور دیگر قدرتی وسائل شامل ہیں۔ اگر سی پیک کو جاری رکھنا ہے تو اسے انسانوں کی بہتری کو مقدم رکھتے ہوئے ماحول کے تحفظ پر مرکوز ہونا چاہئیے۔ ہمیں فوسل ایندھن سے چھٹکارے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کوئلہ اور دیگر فوسل فیول کو قصہ پارینہ بنانا ہوگا۔ مزید کوئلے کی تو اب بالکل گنجائش نہیں۔ ہمیں شمسی توانائی اور صرف قابل تجدید ذرائع کو اپنانا ہوگا۔

کلائمیٹ مارچ کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے ماحولیاتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ‘ہم اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ ہم ایسے نظام کو نہیں مانتے جو ماحول کے تحفظ اور لوگوں کے فائدے کی بجائے سرمایہ داروں کے منافع کو ترجیح دے۔ ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی، منصفانہ توانائی، صاف ہوا، پانی، دریا اور جینے کا محفوظ ماحول میسر ہو‘

کراچی سمیت سندھ کے ماحول کو بچانے کے لیے نکاسی آب کے نظام کی جامع تشخیص اور صفائی، مقامی حکومت کو بااختیار بنانے، نئے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، انجینئرنگ کے اچھے طریقوں کے ساتھ موجودہ انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے، منصوبہ بندی کے عمل میں کمیونٹی کی شرکت، سستی رہائش فراہم کرنا، سیوریج اور ٹھوس فضلہ کے انتظام کی منصوبہ بندی اور جامع اور پائیدار حل کو یقینی بنانا ہی وہ راستے ہیں جن سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرسکتے ہیں۔

بشکریہ: نیا دور

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close