کملا داس، ہندوستانی ادب کے حوالے سے ایک منفرد نام ہے، انہوں نے جب لکھا تو روایتی مردانہ سماج کو ہلا کر رکھ دیا اور اس وقت یہ سوچا گیا کہ ایک ادیب اپنی نظموں میں اتنا بے تکلف اور ایماندار کیسے ہو سکتا ہے! اگر ہندوستانی ادب میں کملا داس جیسی ادیب نہ ہوتیں تو جدید ہندوستان کی تحریر کی وہ تصویر ابھر کر سامنے نہ آتی، جس پر آج کی خواتین فخر کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں
جب ایک عام سی گھریلو خاتون پوری طاقت اور ہمت سے اپنے جذبات کو کاغذ پر اتارتی ہے تو ادب کی دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ کملا داس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ آزادی سے تیرہ برس قبل 1934ع میں کیرالہ کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ چھ سال کی عمر میں ہی انہوں نے نظمیں لکھنا شروع کر دیں
اپنی سوانح عمری ’مائی اسٹوری‘ میں کملا داس لکھتی ہیں ”ایک دفعہ گورنر کی بیوی ماویس کیسی ہمارے اسکول آئیں. میں نے اس موقع پر ایک نظم لکھی تھی لیکن ہماری اسکول کی پرنسپل نے وہ نظم ایک انگریز لڑکی شرلی سے پڑھوائی، اس کے بعد گورنر کی بیوی نے شرلی کو اپنی گود میں بٹھا کر کہا تم کتنا اچھا لکھتی ہو! میں دروازے کے پیچھے کھڑی یہ باتیں سن رہی تھی. صرف یہی نہیں، گورنر کی بیوی نے شرلی کے دونوں گالوں پر بوسہ دیا، اور ہمارے پرنسپل نے میری آنکھوں کے سامنے اس کا ماتھا چوما۔ پچھلے سال میں نے لندن کے رائل فیسٹیول ہال میں اپنی نظمیں سنائی تھیں۔ رات آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک میں اسٹیج پر تھی۔ جب میں اسٹیج سے نیچے اتری تو کئی انگریزوں نے آگے بڑھ کر میرے گالوں کو چوما. اس وقت میں نے سوچا، شرلی، میں نے تم سے اپنا بدلہ لے لیا ہے“
کملاداس جنوبی بھارت کے ضلع تھریسور کے گاؤں پُنا یورکولام میں 31 مارچ 1934ع کو پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ بالامنی ملیالم کی مشہور شاعرہ تھیں، جب کہ والد وی ایم نائر ایک اہم اخبار ماتربھومی کے مینیجنگ ایڈیٹر تھے۔ ان کے ماموں نارایانا مینن بھی ملیالم زبان کے مشہور شاعر تھے ۔ سولہ سال کی عمر میں بیس سال بڑے مادھوداس سے ان کی شادی ہو گئی، جو ایک بینک کے افسر تھے اور بعد میں آئی ایم ایف کے سینئر مشیر بنے
بیس سال کی عمر میں انہوں نے لکھنا شروع کر دیا ، مگر وقت کب ملتا تھا؟ ان کا کہنا ہے کہ جب خاوند اور بچے سوجاتے تو لکھنا شروع کرتی اور اس وقت اٹھتی جب گوالا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ اپنی یادداشتوں میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”گھر میں صرف ایک کچن ٹیبل ہی تھی جس پر میں سبزیاں کاٹتی تھی۔ جب اس میز سے تمام تھالیاں اور دوسری اشیاء اٹھالی جاتیں تو میں وہاں بیٹھ جاتی اور ٹائپنگ شروع کر دیتی۔“
ان کی سب سے اہم کتاب ”My Story“ جو انگریزی زبان میں ہے، 1976ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 42 سال تھی ۔1984ء میں انہوں نے پارلیمنٹ کے انتخاب میں حصہ لیا، مگر ہار گئیں
ان کے چھوٹے بیٹے جے سوریا داس، جو اس وقت پونے میں رہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’میری ماں ایک عام عورت تھیں۔ اکثر ساڑھی پہنتی تھیں۔ کبھی کبھی وہ لنگی بھی پہنتی تھیں۔ انھیں زیور پہننے کا بہت شوق تھا۔ اور وہ اپنی کلائیوں میں چھتیس چوڑیاں پہنا کرتی تھیں“
ان کے بڑے بیٹے مادھو نلپت جو اس وقت ’سنڈے گارجین‘ کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر ہیں، اس سوال پر کہ کیا کملا داس آپ کے لیے سخت ماں تھیں؟
نلپت کا کہنا تھا ”ہرگز نہیں، ایک بار جب میں بارہ تیرہ سال کا تھا، میں نے ان سے کہا کہ میں سگریٹ پینا چاہتا ہوں، ماں نے فوراً مجھے سگریٹ کا ایک پیکٹ دیا میں نے اس وقت چار یا پانچ سگریٹ پیے تھے لیکن اس کے بعد میں نے ساری زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اگر میری والدہ کہتیں کہ سگریٹ نوشی بُری چیز ہے تو میں چپکے سے سگریٹ پینا چاہتا اور شاید میں اس کا عادی ہو جاتا۔ لیکن میری ماں نے مجھے صاف صاف کہا کہ سگریٹ پینے کا تجربہ تم بھی کرو اور اگر ٹھیک لگتا ہے تو اسے جاری رکھو“
کملا داس نے اپنی سوانح عمری ’مائی اسٹوری‘ میں اپنے بیٹے مادھو یعنی مونو کی نوعمر محبت کا ذکر کیا ہے
وہ لکھتی ہیں ”ایک بار میرے پندرہ سالہ بیٹے نے اچانک مجھے بتایا کہ اسے ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے۔ یہ ایک جرمن لڑکی تھی جس کا نام اینا تھا۔ وہ ہمارے گھر کی چھت پر فرانسیسی ادب اور مارکس کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار جب وہ چھٹیوں پر کولکتہ گئی تو میرے بیٹے نے بھی کہا کہ وہ بھی کولکتہ جانا چاہتا ہے۔ میرے شوہر نے کہا کہ ان کے پاس ایسی بچگانہ محبت پر ضائع کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں“
مادھو بتاتے ہیں کہ ٹرین کے کرایے کے پیسے جمع کرنے کے لیے انہوں نے اپنی تمام پرانی کامِکس بیچ دیں۔ تب بھی وہ صرف تھرڈ کلاس کا ٹکٹ ہی خرید پائے تھے
ان کے پاس نہ کوئی بستر تھا اور نہ ہی اونی کپڑے۔ راستے میں ایک مزدور کو ان پر ترس آیا جس نے انہیں ’بیڑی‘ دی تاکہ وہ تھوڑی گرمی محسوس کر سکیں
کملا داس لکھتی ہیں ”اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو کر میرا بیٹا دانشور بن گیا۔ وہ رات گئے تک پڑھتا اور بھارتی سیاست پر مضامین لکھتا. اس کے مضمون اس دور کے کچھ رسالوں نے بھی شائع کرنا شروع کر دیے۔ جب میرے شوہر کا ممبئی تبادلہ ہو گیا تو میرے بیٹے کا دل ٹوٹ گیا لیکن اس لڑکی نے اسے ہمت دی وہ اس کی زندگی کا حصہ بن گئی“
کملا داس لکھتی ہیں ’میں اور میرا بیٹا شام کو ممبئی میں ساحل سمندر پر ٹہلا کرتے تھے۔ ایک بنگالی خاندان کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ ہم پریمی ہیں۔ وہ لمبا ہو گیا تھا اور ہمیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم ماں بیٹے ہیں۔‘
اس زمانے میں کملا داس کی نظمیں مشہور ہفتہ وار میگزین ’اِلسٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا میں شائع ہوتی تھیں۔ شاعر کے نام کے نیچے ’کے داس‘ لکھا جاتا تھا کیونکہ کملا داس کو خدشہ تھا کہ اس کے ایڈیٹر شان مینڈی شاعراؤں کے خلاف متعصب ہوں گے
کملا داس نہ صرف خود ایک عظیم شاعرہ تھیں بلکہ وہ کئی ابھرتے ہوئے شاعروں کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک رندھیر کھرے تھے۔
کھرے کا کہنا تھا ’میں چوبیس پچیس سال کا ہوا کرتا تھا اور نظمیں لکھتا تھا۔ میں نے بہت سے بڑے شاعروں کے پاس جا کر مشورہ مانگا کہ میں کیسے بہتر نظمیں لکھوں کسی نے مجھے وقت نہیں دیا، کسی نے مجھے کملا کا نام تجویز کیا۔ جب میں نے انھیں فون کیا تو انھوں نے خود فون اٹھایا اور میری تمام نظموں کے ساتھ مجھے اپنے گھر مدعو کیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’وہاں انھوں نے ایک ایک کر کے میری چالیس نظمیں سنیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسی لگیں تو ان کا جواب تھا کہ میرے اچھا لگنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ نظمیں تمہیں خود کو اچھی لگنی چاہییں۔‘
’اس کے بعد انھوں نے مجھے اپنے گھر ہونے والی شاعروں کی ہفتہ وار بیٹھک میں مدعو کیا تب سے لے کر جب تک وہ حیات رہیں وہ میری گرو تھیں۔‘
ان دنوں کملا داس کے گھر ہر ہفتے ایک ادبی محفل سجتی تھی، جس میں شہر کے مشہور ادیب، شاعر، رقاص اور تھیٹر سے وابستہ لوگ جمع ہوتے تھے۔ رندھیر کھرے کہتے ہیں ان کا ایک بڑا سا کمرہ تھا، جس میں وہ ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھا کرتی تھی
وہاں نسیم ازکیل آتے تھے، پریتش نندی موجود ہوتے تھے اور بہت بزرگ ہریندر ناتھ چٹوپادھیائے بھی حاضری دیتے تھے وہاں شاعروں میں جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ یہ محفل سہ پہر تین سے چار بجے تک شروع ہوتی اور رات گئے تک جاری رہتی، جو لوگ وہاں آتے تھے سب کو لگتا تھا کہ وہ اپنے گھر آ رہے ہیں
خودنوشت لکھنے کی مشکلات کے حوالے سے کملا داس کا خیال تھا کہ پوری ایمانداری کے ساتھ خود نوشت لکھنا اور کچھ نہ چھپانا، ایک ایک کر کے کپڑے اتارنے کے مترادف ہے
انہوں نے ایک بار لکھا تھا کہ ’میں پہلے اپنے کپڑے اور زیورات اتار کر رکھ دوں گی، پھر میری خواہش ہے کہ میں اس ہلکے بھورے رنگ کی جلد کے چھلکے اتار کر رکھوں دوں اور پھر اپنی ہڈیوں کو چکنا چور کر ڈالوں آخر میں تم میری بے گھر، یتیم اور بہت خوبصورت روح کو دیکھ سکو گے جو ہڈیوں، گوشت اور خون کے اندر کہیں گہرائی میں دفن ہے۔‘
کچھ ایسے ہی جذبات کو کملا داس کی ایک نظم میں پِرویا گیا تھا۔
جب بھی مایوسی کی کشتی،
آپ کو تاریکی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔
تو ان کناروں پر تعینات پہرے دار
پہلے آپ کو جلاوطن کرنے کا حکم دیں
تم اپنے کپڑے اتار دیتے ہو
تو کہتے ہیں اپنا گوشت بھی نوچ ڈالو
تو اپنی تمام جلد کے ساتھ اپنا گوشت بھی نوچ ڈالتے ہو
پھر کہتے ہیں کہ ہڈیاں بھی اکھاڑ دو
اور پھر تم اپنا گوشت نوچ نوچ کر پھینکنا شروع کر دیتے ہو
جب تک ہڈیاں مکمل طور پر ننگی نہ ہوں
اس جنون کا واحد اصول آزادی ہے
اور آزاد ہو، نہ صرف آپ کا جسم
بلکہ روح بھی کتر کتر کر کھا جاتے ہو
اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے دہلی میں حیرت زدہ کر دینے والی یادداشتیں سنائیں
انہوں نے بتایا کہ شوہر کی موت کے بعد تین بیٹوں کے باوجود وہ تنہائی کا شکار رہیں۔ جب ان کے دل میں مرنے کی خواہش پیدا ہوئی تو وہ برقعہ پہن کر ایک پیشہ ور قاتل کے پاس پہنچ گئیں۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم پیسے لے کر لوگوں کو مارنے کا کام کرتے ہو؟
غنڈے نے پوچھا کس کو مارنا ہے؟ کملا نے کہا ”مجھے، کیونکہ میں زندگی سے تھک چکی ہوں لیکن اپنے ہاتھوں سے خود کو مارنے کی ہمت نہیں کر پا رہی“
غنڈہ حیرت سے کملا داس کو دیکھتا رہا اور پھر انہیں سمجھا بجھا کر گھر واپس چھوڑ گیا
جب ان کی سوانح عمری پر کافی ہنگامہ ہوا، تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ سچی کہانی نہیں ہے
رندھیر کھرے، جو کملا داس کو قریب سے جانتے تھے، سے جب اس بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کے خیال میں ’مائی اسٹوری‘ ایک حقیقی کہانی تھی یا محض تخیل کی پرواز؟
رندھیر کھرے نے جواب دیا، ”میں واڈیا کالج، پونے میں ایم اے کے طالب علموں کو پڑھاتا تھا۔ ایک بار انہوں نے بھی مجھ سے یہی سوال کیا۔ میں تمام چالیس طالب علموں کو ان کے بیٹے جے سوریا داس کے پاس لے گیا، جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھیں۔ اس کے جواب میں کملا داس نے کہا کہ ہم جو کچھ بھی لکھتے ہیں، اس میں تخلیقی پہلو ہوتا ہے، کہاں حقیقت آتی ہے اور کہاں تخیل آتا ہے، اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ بات ہمیں چھوتی ہے یا نہیں، ہمیں اس سے ترغیب ملتی ہے یا نہیں؟ یہ ہمیں ہِلا رہا ہے یا نہیں۔ باقی سب کچھ بے معنی ہے۔“
کملا داس سے کملا ثریا
کملا داس نے 1999ع میں اچانک اسلام قبول کیا۔ بعد ازاں اظہار رائے کے مطالبے پر ان کی جنونی اور قدامت پسند مذہبی حلقوں سے جھڑپ بھی ہوئی
اسلام قبول کرنے کے بعد کملا نے بتایا: ” میں نے اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد اس مذہب کو قبول کیا ہے ، یہ محبت اور امن وسلامتی کا مذہب ہے ، عورت کو تحفظ دیتا ہے، جس کی مجھے ضرورت ہے. ہندو دیوتا انسانوں کو سزائیں دیتے ہیں، جب کہ الله تعالیٰ کرم فرماتا ہے ، وہ رحمٰن و رحیم ہے اورکریم ہے ۔ اس کا رحم، محبت، شفقت اور فضل و کرم اس کے غصے اور سزا پر حاوی ہے ۔ بس وہی میرا الله اور محمد صلی الله علیہ وسلم میرے رسول ہیں۔ ماضی میں میرا کوئی مذہب نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ انسان کا کوئی عقیدہ تو ہونا چاہیے ، آخر میں کب تک اس لفافے کی صورت میں رہوں گی، جس پر کوئی پتہ درج نہ ہو، الله تعالیٰ مجھے معاف فرما دے میں ہر انسان سے محبت کرتی ہوں“
بعد میں ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو انٹریو دیتے ہوئے کملا نے بتایا: ” اسلام قبول کرنے پر مجھے کسی کی تنقید کی کوئی پروا نہیں، یہ میرا اپنا فیصلہ ہے. “ انہوں نے بتایا: ”ہندوؤں نے مجھے صرف دکھ ہی دیے ہیں اور میرے اسیکنڈل ہی بنائے ہیں، اب اسلام قبول کرکے میں نے نیا جنم لیا ہے ۔ میں نے کچھ قرآن سیکھ لیا اور اس پر تین نظمیں بھی لکھی ہیں، اب میں اپنے گاؤں نالاپت میں ایک مسجد بنواؤں گی۔ اس مسجد میں گونجنے والی اذان کی آواز سے میرے آبائی ہندووانہ گھر کی تصویر بدل جائے گی۔“
کملاداس کے قبول اسلام کی داستان کا آغاز سینتیس برس قبل ہوتا ہے، جب انہوں نے امتیاز اور ارشاد نامی دو مسلمان بچوں کو گود لیا اور انہیں ہندو بنانے کے بجائے ان کی تعلیم وتربیت اسلام کے مطابق کی۔ اس طرح ان کا اسلامی تعلیمات سے واسطہ پڑا اور آہستہ آہستہ اسلام ان کے دل میں گھر بناتا چلاگیا۔ مسلمان گھرانوں سے تعلقات نے بھی دین اسلام کی حقانیت سے ان کے ذہن کو روشن کیا۔ کملا داس نے اپنے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے اپنے شوہر کو آگاہ کیا ، شوہر ایک آزاد خیال انسان تھا، اس نے آنے والی تبدیلیوں میں رکاوٹ بننے کے بجائے بیوی کو اسلام کے مزید مطالعہ کی اجازت دے دی ۔ اسلام کے مطالعہ سے ان کے قلب وذہن میں روشنی پھیلنے لگی اور تاریکی دور ہونا شروع ہو گئی۔ اور پھر 11 دسمبر 1999ء کو اس روشنی کی کرنوں نے رام مندر کی تاریکی میں شگاف ڈال دیے۔
کملا ثریا کا کہنا تھا: ”اسلام عورت کو مکمل آزادی اور مرد کے برابر کا مقام ومرتبہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہے ۔ پابندیاں صرف ان معاشروں میں ہیں جہاں اسلامی احکام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ اسلام خواتین کے حقوق غصب نہیں کرتا، یہ سماجی ناہمواریاں ہیں جن کے باعث خواتین کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ شوہر اور بزرگوں کی اطاعت گزاری کو میں آزادی سے محرومی تصور نہیں کرتی۔ میرے پاس کافی آزادی ہے، مجھے مزید اس کی کوئی ضرورت نہیں ، آزادی تو میرے لیے ایک بوجھ بن چکی ہے ۔ میں تو اپنی زندگی میں نظم وضبط کے لیے رہنمائی چاہتی ہوں۔ میں تحفظ چاہتی ہوں، آزادی نہیں ، میں تو الله کی اطاعت وبندگی کرنا چاہتی ہوں ، میں تو اپنے آپ کو مکمل طور پر الله کی اطاعت میں دے چکی ہوں، میں الله کے احکام اور اس کی مقررہ حدد و قیود پر مطمئن اور خوش ہوں۔“
خلیج ٹائمز اور دیگر کئی جرائد کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ”اسلام قبول کرنے کے بعد میں، جن خوشیوں کے تجربات سے گزری ہوں، لوگوں کو ان میں شریک کرنا چاہوں گی۔ قبول اسلام کے بعد میں جو اطمینان قلب محسوس کرتی ہیں ، اس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔“
ڈاکٹر کملا ثریا کا قبول اسلام کئی لحاظ سے منفرد تھا، مثلاً یہ کہ:
وہ بھارت کی پہلی عالمی شہرت اور ایوارڈ یافتہ ہندو مصنفہ تھی، جس نے اسلام قبول کیا۔
اس نے ایک ایسے وقت اسلام قبل کیا جب بھارت میں تبدیلی مذہب کے خلاف انتہا پسند ہندو بھرپور سرگرم عمل تھے.
اسے کسی مسلمان مذہبی یا سیاسی لیڈر یا کسی دعوتی تنظیم نے اسلام قبول کرنے کی دعوت نہیں دی ، اس کا قبول اسلام خالصتاً اس کی اسلام کے متعلق تحقیق کے باعث تھا.
بھارت میں زیادہ تر نچلی ذات کے ہندو اسلام قبول کرتے ہیں اور کملا ثریا کا تعلق اونچی ذات کے ہندوؤں سے تھا۔
باوجود کہ کملا ثریا سنگھ پر یوار کی زبردست حامی رہی تھیں، ہندوؤں کو ان کا فیصلہ ہضم نہ ہو پایا اور انتہا پسندوں نے انہیں جان سے مارنے تک کی دھمکیاں دیں۔ کملا ثریا نے ان دھمکیوں کی کوئی پروا نہ کی اور کہا: ”میں اپنا ہر معاملہ الله پر چھوڑ چکی ہوں، وہ زندگی کے آخری سانس تک میری حفاظت کرے گا۔“
ہندوؤں نے ان پر گوروایورمندر سے دیوتا ”کرشنا“ کابت چرانے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ وہ اس مورتی کو ”محمد“ بنانا چاہتی ہیں
ثریا کے بچوں کا کہنا ہے ”امی کملاداس ہوں یا ثریا وہ ہر رنگ میں ہماری ماں ہیں ، ہمیں ان کے فیصلے پر کوئی تعجب نہیں ، ان کے مسلمان ہونے کے باوجود ہم ان کے ساتھ ہیں اور ارشاد اور امتیاز ہمارے بھائی ہیں۔“
ان کے پرورش کردہ مسلم لڑکے ارشاد اور امتیاز کے بارے میں انہوں کا کہنا تھا ”دونوں نابینا ہیں۔ دونوں کو میں نے اچھی طرح تعلیم دلائی ہے۔ ان میں سے ایک کا نام پروفیسر ارشاد احمد ہے۔ دوسرے کو میں نے لندن میں تعلیم دلوائی ہے ، اس کانام بیرسٹر امتیاز احمد ہے۔ یہ سارے اپنے فارغ اوقات میں میرے پاس آتے جاتے ہیں، باوجودیکہ وہ ہندوستان کے مختلف خطوں میں مصروف زندگی بسر کر رہے ہیں“
اپنی ادبی خدمات کے حوالے سے انہوں نے بتایا ”میں نے بچپن ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ 1952ء میں میری پہلی کتاب ملیالم میں شائع ہوئی۔1964ء میں اپنے انگریزی اشعار کے مجموعہ پر مجھے ایشین پوٹری ایوارڈ (Asian Poetry Award) ملا، 1965ء میں ایک دوسری تصنیف پر کینٹ (Kent) ایوارڈ ملا، جو ایشیائی ملکوں میں لکھی جانے والی انگریزی کتابوں پر دیا جاتا ہے ۔ میری اس کتاب کا نام (Summer in Calcutta) تھا۔ اسی سال آسیان ولرڈ پرائز اینڈ اکیڈمی ایوارڈ بھی ملا۔1969ء میں کیرالا ساھتیہ اکیڈمی (Sahitya Academy) ایوارڈ ملا۔ ان کے علاوہ میں السٹریٹڈ ویکلی کی پوئٹری ایڈیٹر، کیرالا چلڈرنز فلم سوسائٹی کی صدر، کیرالا فارسٹری کی چیئرپرسن او رانگریزی رسالہ پوئٹ کی ایڈیٹر رہ چکی ہوں۔ اس کے علاوہ میری ایک تصنیف ”میرا قصہ“ ہے، جو ہندوستانی زبانوں کے علاوہ پندرہ غیر ملکی زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔“ (ڈاکٹر ثریا کے انگریزی اشعار دنیا کی کئی مشہور یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہیں۔)
آپ کے قبول اسلام پر مخالفین اسلام کا رد عمل کیسا رہا ؟“ کے جواب میں انہوں نے بتایا:” بے شمار خطوط اور فون ایسے آتے رہے ہیں جن میں ہندوقوم میں واپسی کے لیے نصیحت ہی نہیں بلکہ دھمکی بھی دی گئی تھی۔ شیوسینا کے لوگوں نے وقت اور دن متعین کرکے دھمکی دی کہ اگر دیے گئے وقت سے پہلے اسلام کو ترک نہ کیا تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ شہر کی دیواروں پر میرے خلاف پوسٹر چپکائے گئے۔ ایک مرتبہ ایک شخص میرے گھر میں داخل ہوا اور مجھے اذیت پہنچانا چاہی، اس وقت گھر پر میرا لڑکا موجود تھا، اس نے اسے بھگا دیا۔ ایک اور موقع پر ایک گروہ نے میرے گھر کے دروازے پر پہنچ کر رات کے وقت شور و ہنگامہ کیا۔ میں نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا اور ان سے کہا کہ جس کو اپنی جان عزیز ہو وہ واپس چلا جائے، چناں چہ سبھی خاموشی کے ساتھ لوٹ گئے۔“
کملا ثریا 75 سال کی عمر میں 31 مئی 2009ء بروز اتوار 1:55 بجے دن بھارت کے شہر پونا کے جہانگیر ہسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملیں
کوچی سے ٹرائیون ڈرم تک ان کے جسد خاکی پرمنوں کے حساب سے پھول نچھاور کیے گئے۔ پالایام مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مسجد کے گراؤنڈ میں درختوں کے ایک جھنڈ میں انہیں دفن کیا گیا۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے ان کی قبر کے دونوں اطراف دو پودے لگا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ان کی آخری رسومات میں ہر مذہب کے لوگوں نے شرکت کی اور اہل دانش نے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.