بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل: اسلم رئیسانی کی جے یو آئی میں شمولیت اور قومپرست جماعتوں کی حکمت عملی

ویب ڈیسک

جمعیت علمائے اسلام کے امیر و پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے ”امریکہ اور یورپ سے دوستی کے لیے تیار ہیں لیکن غلامی قبول نہیں“

مولانا فضل الرحمان بدھ کو سراوان ہاؤس کوئٹہ میں چیف آف سراوان اور سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت کے موقع پر خطاب کر رہے تھے

انہوں نے اپنی جماعت میں شمولیت پر نواب اسلم رئیسانی اور ان کے ساتھیوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ تاریخی اور عظیم الشان ہے۔‘

پاکستان میں نئے انتخابات کی قبل از وقت تیاریوں کے بعد بلوچستان میں بھی سیاسی پارہ ہائی ہونے لگا۔ صوبے کی پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے نئے انتخابات کے لیے غیر معمولی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے

مبصرین کہتے ہیں اس بار ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کی اولین کوشش یہ ہے کہ انتخابات کے حوالے سے ایسی پالیسی مرتب کی جائے تاکہ مقتدر حلقے ملک میں سیاسی صورتحال پر اثرانداز نہ ہو سکیں

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں سیاسی معاملات میں جب زمینی حقائق نظر انداز کیے جاتے ہیں تو نتائج کسی بھی طور پر مثبت سامنے نہیں آ سکتے

انہوں نے کہا ”ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ یہاں جغرافیائی پس منظر بہت مختلف ہے۔ انتخابات میں ہار جیت جمہوری روایات کی عکاس ہے۔ جب تک ملک میں عوامی مفادات کی حامل پالیسیاں مرتب نہیں ہوں گی یہ سیاسی عدم استحکام سامنے اتا رہے گا۔ بلوچستان کے وسائل کو اگر حقیقی معنوں میں یہاں کی اصل قیادت کو اعتماد میں لے کر بروئے کار لایا جاتا تو آج ملک میں معاشی معاملات اتنے گھمبیر نہ ہوتے۔‘‘

ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے بغیر ملک میں جاری سیاسی محاز آرائی کی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے مذید کہا، ”میری ذاتی طورپر یہ رائے ہے کہ یہاں حکمرانوں کی طے کردہ ترجیہات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عوام آنے والے دنوں میں انتخابات کے لیے پر امید ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسی قیادت سامنے آئے جو مینڈیٹ کے مطابق ان کی نمائندگی کاحق ادا کر سکے۔‘‘

ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ ملک میں حالیہ غیر یقینی سیاسی صورتحال درپیش مالی بحران کو بھی مزید بگاڑ سکتی ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں مرکزی کردار کی حامل جماعتیں حالیہ دنوں میں ماضی کی نسبت قومی اور علاقائی نظریاتی مفادات پرذیادہ توجہ دینے لگی ہیں۔ حکمران جماعت پی ڈی ای ایم میں شامل پشتون قوم پرست جماعت پشتونخواء ملی عوامی پارٹی میں بھی حال ہی میں نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں

پی کے میپ کے ایک دھڑے نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سخت سوالات اٹھائے ہیں۔ پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی نے گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں ایک جلسے سے خطاب کے موقع پر افغانستان سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید کی تھی

پشتونخؤاء میپ نے اعلان کیا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو روان ماہ 16 دسمبر تک رہا نہ کیا گیا تو ملک بھرمیں احتجاج شروع کردیا جائے گا۔ کوئٹہ میں مقیم سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی غیر متزلزلز کثیر الجماعتی اتحاد کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے

انہوں نے کہا ”پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران سامنے آنے والے اسٹیبلشمنت مخالف بیانیے نے سیاسی جماعتوں کے لیےکئی نئی ترجیہات طے کی ہیں۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں ووٹرز کو متحرک کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت سیاسی مہم جوئی میں سب سے زیادہ فائدہ وہی جماعتیں اٹھا سکتی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے دور اندیشی پر مبنی پالیسیاں سامنے لائیں گی۔ پاکستان کی معیشت ایک ڈوبتی ہوئی کشتی بنتی جا رہی ہے۔‘‘

ندیم خان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے ملک دن بدن سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار بنتا جا رہا ہے

انہوں نے مزید کہا، ”میرے خیال میں اس وقت نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں سیاسی بے یقینی اور معاشی بد انتظامی کی وجہ سے معیشت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ریاستی حمایت کی وجہ سے چین کے ساتھ معاشی تعلقات اور حد سے زیادہ انحصار نے بھی کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کے روایتی شرکت دار سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر ممالک سے مطلوبہ معاونت نہیں مل رہی ہے۔‘‘

ندیم خان کا کہنا تھا کہ شمالی بلوچستان اور افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں آباد پشتون قبائل کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں جمعیت علمائے اسلام میں دیگر قبائلی عمائدین سمیت باقاعدہ شمولیت کا اعلان کیا

ادھر دوسری جانب بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں میں بھی مختلف سیاسی رہنماوں کی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے

نئے انتخابات کے حوالے سے سیاسی جوڑ توڑ پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ سیاسی رہنماوں کی اکثریت نئی راہوں کے تعین کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان کی مخلوط حکومتی جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی وجہ اختلافات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بی اے پی کے موجودہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو پر ناقدین نے اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر کئی متنازعہ فیصلوں کا الزام عائد کیا ہے

کچھ عرصہ قبل سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی اپنی حکومت کے خاتمے کی ذمہ دار مرکزی حکومت کو قرار دیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close