”گاہک چڑچڑے ہو کر ہم پر غصہ نکال رہے ہیں۔۔‘‘

ویب ڈیسک

چھیاسی ملین پاکستانی شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک کی چالیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، تقریباً ستر فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور بیالیس فیصد پاکستانی سیورج کی مناسب سہولتوں سے محروم ہیں۔ اور اس وقت مہنگائی کے عفریت سے جوجھتے یہی پاکستانی اب اسحاق ڈار کو بھگت رہے ہیں

جن کا گزشتہ دنوں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں یکمشت پینتیس پینتیس روپے کے بڑے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا ”عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 11 فیصد تک کا اضافہ ہوا، ہمیں ان سب چیزوں کو سامنے رکھنا پڑے گا۔۔“

حالانکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے، کیونکہ اقتصادی تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے ”پيٹرول کی قیمتوں میں یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک سو تیئس ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر اَسی پچاسی ڈالر پر آ چکی ہیں۔“

پیٹرول کی نئی قیمت 249 روپے 80 پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 262 روپے 80 پیسے فی لیٹر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے

دوسری جانب ڈالر بے مہار ہو کر 260 روپے سے زائد کی حد کو چھو رہا ہے، جس کو اسحاق ڈار نے کچھ دن قبل 190 روپے تک لانے کا دعویٰ کیا تھا۔ یوں آئی ایم ایف کے دباؤ میں ڈالر، ڈیزل اور پيٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے نتيجے ميں تقريباً تمام سيکٹرز متاثر ہو رہے ہيں

مہنگائی سے تنگ عوام جو پیاز کے ساتھ سوکھی روٹی کھا کر گزارا کر رہے تھے، ان کے لیے روز بروز اس کی بڑھتی قیمت کی وجہ سے پیاز خریدنا بھی ممکن نہیں رہا، کیونکہ یہ اب ایک لگژری آئٹم بن چکی ہے۔ آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے اور اب رہی سہی کسر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے پوری کر دی ہے لیکن اسی پر اکتفا نہیں ، کیونکہ حکومت دو سو ارب کے مزید ٹیکس لگانے کی بھی تیاری کر رہی ہے

پيٹرول کی قیمتوں میں حاليہ اضافے کی وجہ سے ملک میں سبزیوں، پھلوں اور کھانے پینے کے دیگر اشیاء سمیت روز مرہ زندگی کی بہت سی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انٹر سٹی بسوں اور گڈز ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کرائے بھی فوری طور پر بڑھا دیے گئے

اکثريتی شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت عالمی قرض دہندگان کی شرائط آنکھیں بند کر کے ماننے سے گریز کرے اور سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالنے کی بجائے حکومتی اخراجات میں کمی لائے

لاہور کی رہائشی اسما نورین کہتی ہیں ”اب بچوں کو پڑھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اسکول وین، رکشوں اور اوبر یا ان ڈرائیو والوں نے بھی اپنے کرائے بڑھا دیے ہیں۔‘‘

نورين کو خوف ہے کہ اسکولوں کی فیسیں بھی بڑھا دی جائیں گی۔ ”ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اگر پيٹرول کی قیمت کم بھی کر دی جائے، تو ان چیزوں کی قیمتیں تو واپس نہیں ہوں گی‘‘

عبدالجبار نامی ایک کاشت کار بتاتے ہیں ”ڈیزل کی قیمتيں بڑھنے سے زرعی سیکٹر میں پیداواری لاگت سے پریشان کسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔“

ایوانِ صنعت و تجارت کے متعدد ممبران نے بتایا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کے ليے بھاری پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنے ایکسپورٹ آرڈرز کو عالمی منڈی میں معاشی طور پر وائبل بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے

ایک پيٹرول پمپ مالک شعيب کا کہنا تھا ”اس اقدام کے اثرات تاجروں، صارفین اور معیشت سب پر منفی طور پر پڑیں گے۔ صرف پہلے ہی دن پيٹرول کی فروخت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف گاہک چڑچڑے ہو کر ہم پر غصہ نکال رہے ہیں‘‘

اقتصادی تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں ”پيٹرول کی قیمتوں میں یہ اضافہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک سو تیئس ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر اسی پچاسی ڈالر پر آ چکی ہیں۔“ ان کے مطابق تیل چونکہ امپورٹ ہوتا ہے، اس لیے روپے کی قیمت میں شدید کمی اور آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے پيٹرول کی قيمت میں اضافہ کیا گیا۔ ان کے بقول بجٹ خسارہ پورا کرنے کے ليے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ابھی نئے ٹیکس بھی لگیں گے اور بجلی اور گیس کی قیمتیوں میں بھی جلد اضافہ ہوگا

وہ کہتے ہیں ”حکومت کا خیال ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح پچیس فیصد کے قریب ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ شرح پینتیس فیصد سے بھی اوپر جا چکی ہے‘‘

میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کے مطابق پاکستان میں نئے ٹیکسز لگانے کے ليے حکومت دو آرڈیننس لانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ یاد رہے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی شرائط پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا

حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا ہے کہ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اقتصادی بحران کو حل کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے

ممتاز اقتصادی تجزیہ کار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصلاح احوال کے ليے ضروری ہے کہ پہلے غلطیوں کو تسلیم کریں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہر جماعت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں پر ملبہ ڈالنے میں مصروف ہے اور ملکی مفاد پر ذاتی اور سیاسی مفادات غالب آ چکے ہیں۔ ”ہم سے پہلے سری لنکا اور کئی دوسرے ممالک اس صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ کرپشن، مس گوورننس اور ذاتی مفادات کی طویل تاریخ نے ہمیں آج یہ دن دکھایا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اشرافیہ کے سارے دھڑے ملک کی خاطر مل کر بیٹھیں اور اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالیں جس سے عوام کی مشکلات میں کمی لائی جا سکے۔‘‘

پولیٹیکل اکانومی کی ایک ماہر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کہتی ہیں ”بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں لبرل معیشت ہے اور حکومتیں کاروبار نہیں کرتیں۔ وہاں مارکیٹ فورسز ہی مارکیٹ کو ریگولیٹ کرتی ہیں لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں اقتصادی سرگرمیوں کو رياست ریگولیٹ کرتی ہے، وہاں جب تک ریاست کی سیاسی قوتیں سیاسی استحکام حاصل نہیں کر لیتیں، تب تک ملک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہو سکتا“

فرخ سلیم کا کہنا ہے ”میرے خیال میں اصلاح احوال کے ليے ضروری ہے کہ ریاست کاروبار سے باہر آئے، حکومت سادگی اختیار کرے اور پاکستان اسٹیل مل، ریلویز اور پی آئی اے سمیت نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close