اسلام آباد – اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا کے ترجمان ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر اتوار کی صبح چھاپہ مارا گیا ہے
اتوار کو پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پی ٹی آئی آفیشل نے واقعے کے بارے میں ٹویٹ کیا کہ ’لاہور میں چھاپے کے دوران ڈاکٹر ارسلان خالد کے خاندان کو ہراساں کیا گیا اور ان کے خاندان کے افراد سے موبائل فونز بھی چھینے گئے۔‘
پنجاب میں ڈیجیٹل میڈیا کے سابق فوکل پرسن اظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ سبکدوش وزیر اعظم عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر پر مبینہ طور پر 11 نامعلوم افراد کی جانب سے چھاپہ مارا گیا۔
اظہر مشوانی نے کہا کہ لاہور کے علاقے واپڈا ٹاؤن میں واقع ارسلان خالد کے گھر مبینہ چھاپہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد مارا گیا، جسے پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے رپورٹ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سحری کے اوقات میں 11 افراد نے ارسلان خالد کے گھر پر دھاوا بولا اور ملزمان تمام تر فونز اور لیپ ٹاپس اپنے ساتھ لے گئے، ملزمان نے ان کی 80 سالہ والدہ سمیت اہل خانہ کو دھمکیاں بھی دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں گزشتہ چار ہفتوں سے ایسے افراد سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جو عوام کے آن لائن فیڈ بیک کو پسند نہیں کرتے‘
پی ٹی آئی نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ٹوئٹر پر (وی اسٹینڈ ود ڈاکٹر ارسلان خالد) کا ہیش ٹیگ چل رہا ہے
دریں اثنا اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر ارسلان خالد سے رابطہ نہیں کر پارہے ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ارسلان خالد کے گھر پر مبینہ چھاپے کی مذمت کی ہے
سابق وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل نے ٹویٹ کیا کہ ان کو چھاپے کی امید تھی اس لیے انہوں نے ڈاکٹر ارسلان سے بات کر کے کسی اور جگہ منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا
انہوں نے کہا کہ ’مجھے آپ سے صرف اتنا کہنا ہے کہ ارسلان خالد محب وطن ہیں اور انہیں اسی ملک میں رہنا ہے، ہمیں توقع تھی کہ آپ ایسا ہی کریں گے تو گزشتہ رات میں نے ان سے کہا اور انہیں ان کے گھر سے کہیں اور منتقل کردیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے جو موبائل اور لیپ ٹاپس لیے ہیں اس میں پیشہ ورانہ کام کے علاو کچھ نہیں ہے‘
سابق وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ یہ چھاپہ غیر متوقع نہیں تھا ’کیونکہ تنقید کے لیے گہری عدم برداشت غصے کی طرف لے جاتی ہے، تاہم سوشل میڈیا پر بے ساختہ تنقید بغاوت کے برعکس ہے‘
سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے ٹویٹ کیا کہ ڈاکٹر ارسلان کے گھر پر چھاپا انتہائی قابل مذمت ہے۔ ’ڈاکٹر ارسلان جیسے محب وطن نوجوان قوم کا اثاثہ ہیں۔‘
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے ڈاکٹر ارسلان کے گھر پر چھاپے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ پوری تحریک انصاف ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
’ ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر پر حملے کی خبروں پر انتہائی تشویش ہے، ارسلان انتہائی باصلاحیت، زیرک اور مخلص نوجوان ہے، پوری تحریک انصاف ارسلان خالد کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہوگی۔‘
مذکورہ چھاپے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر اسد عمر نے اسے ’قابل مذمت‘ اور ڈاکٹر ارسلان خالد کو ’قوم کا ایک اثاثہ‘ قرار دیا۔
سابق وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر ارسلان کے گھر میں چھاپے اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے کا سُن کر افسوس ہوا‘۔
واقعے کے مقدمے کے اندراج سے متعلق تاحال کوئی بات واضح نہیں ہوئی
ڈاکٹر ارسلان خالد نے رات گئے ٹویٹ کی تھی کہ عمران خان نے آخری بال تک مقابلہ کرنے کا وعدہ نبھایا۔ انہوں نے لکھا،”کل نیا دن، نئی جدوجہد۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔“
یاد رہے کہ ڈاکٹر ارسلان کے گھر چھاپے کی خبر اس وقت سامنے آئی جب مشترکہ حزب اختلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول کرچکی تھی
جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے اپنی اس ٹویٹ میں ڈاکٹر ارسلان کے گھر پر چھاپے کا الزام کسی سیاسی پارٹی یا ادارے پر عائد نہیں کیا گیا بلکہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس مسئلے کو دیکھیں
دوسری جانب ڈاکٹر ارسلان کے گھر پر چھاپوں کے حوالے سے سوشل میڈیا صارفین سحری کے بعد سے سرگرم ہیں اور ان صارفین کی ملی جلی رائے اور تبصرے سامنے آرہے ہیں
پاکستان تحریک انصاف کی آفیشل ویب سائٹ پر دیے گئے پروفائل کے مطابق ڈاکٹر ارسلان خالد کو فروری 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈیجیٹل میڈیا کا فوکل پرسن مقرر کیا گیا تھا
2018 میں ڈاکٹر ارسلان خالد بطور سیکرٹری سوشل میڈیا کام کر رہے تھے جب کہ ارسلان نے 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی ڈیجیٹل میڈٰیا کمپین بھی چلائی تھی۔ اس سے پہلے ارسلان تحریک انصاف لاہور کی سوشل میڈٰیا ٹیم کی سربراہی بھی کرتے رہے ہیں
ڈاکٹر ارسلان نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، جب کہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کا سفر دس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے.