انگلینڈ میں آباد جنوبی ایشیا کے تارکین وطن کی تنہائیوں، دکھوں اور کامیابیوں کی کہانی

ویب ڈیسک

لندن – کرنسی کے سخت کنٹرول کے باعث جنگ کے بعد برصغیر ہند و پاک سے برطانیہ آنے والی پہلی نسل اپنی جیبوں میں کم از کم تین پاؤنڈ لے کر یہاں پہنچی. اب مجموعی طور پر لاکھوں کی تعداد میں ان کی اولادیں آج کے برطانیہ کا حصہ ہیں، لیکن ان کی بہت سی کہانیاں ابھی تک سنائی جانی باقی ہیں، جن میں ہجرت کے درد چھپے ہوئے ہیں

محمد عجیب سنہ 1957 میں ٹوٹے پھوٹے سوٹ کیس کے ساتھ پاکستان سے برطانیہ پہنچے تھے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میرپور کے اٹھائیس دیگر مردوں کے ساتھ ان کا پہلا پڑاؤ نوٹنگھم تھا۔ وہ پاکستان میں پیشے کے اعتبار سے کلرک تھے، لیکن برطانیہ میں انہیں صرف ایک فیکٹری میں ہی کام مل سکتا تھا

محمد عجیب بتاتے ہیں ”میں رات کو اپنے بستر پر روتا تھا۔ میں واپس جانا چاہتا تھا لیکن میں ناکام شخص کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا کہ ‘میں ایک پرعزم نوجوان ہوں، اس ملک میں مجھے کسی صورت بھی کامیاب ہونا ہے’ اور یہی بات مجھے لے کر چلتی رہی“

آنے والے برسوں کے دوران اس نے مساوی تنخواہ کے لیے اور نسل پرستی کے خلاف بہت سی لڑائیاں لڑیں، لیکن وہ ڈٹے رہے.. یہاں تک کہ بریڈ فورڈ کے میئر بنے

سنہ 1948ع کے برٹش شہریت کے قانون کا مطلب تھا کہ سابق کالونیوں یا سلطنت سے آنے والے لوگ خود بخود ہی برطانوی شہری ہوتے تھے۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو ملک کی تعمیر نو کے لیے مزدوروں کی ضرورت تھی

ابتدائی برسوں میں برصغیر پاک و ہند سے آنے والوں میں بہت سے لوگ نوجوان اور غیر شادی شدہ تھے۔ انہوں نے زیادہ تر برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مغربی لندن جیسی جگہوں پر فیکٹریوں، فاؤنڈریوں اور ٹیکسٹائل ملوں میں مشکل شفٹوں میں کام کیا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ صرف چند سالوں کے لیے آ رہے ہیں: انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کے خاندان اور ان کی نسلیں ایک دن یہاں رہیں گی

مسلسل کرب ناک تنہائی اور اہل خانہ کی یاد، ان پہلے پہل برطانیہ آنے والوں کی زندگی کا حصہ تھا، جسے ”تین پاؤنڈ نسل“ کہا گیا۔ بہت سے لوگ اپنے خاندان کو نیلے ایروگرام خطوط پر لکھا کرتے تھے

اسی طرح گنونت گریوال سنہ 1965ع میں بھارتی پنجاب کے شہر لدھیانہ سے آئیں۔ یہاں زندگی ان کے تصور کے بلکل برعکس تھی۔ وہ بھارت میں ٹیچر رہ چکی تھی، لیکن جب وہ یہاں پہنچی تو فیکٹری میں ہی کام مل سکتا تھا

وہ ویسٹ لندن کے ساؤتھ ہال میں ایک کمرے میں اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ ایک مشترکہ گھر میں رہتی تھیں، جو کہ بھارت میں ان کے وسیع و عریض گھر سے بہت مختلف رہائش تھی۔ وہ اپنے والد کو شدت سے یاد کرتیں اور انہیں باقاعدگی سے خطوط لکھتیں

گڻونت کہتی ہیں ”جب میں خط لکھتی تو میرے آنسو میرے خط پر ہوتے تھے۔ میرے والد کہتے کہ ‘تمہارا خط نم کیوں تھا؟’ تو کہتی کہ ‘اوہ میں چائے پی رہی تھی،’ جبکہ وہ واقعی آنسو ہوتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ سب بہتر ہوتا گیا“

ایک بار بس اسٹاپ سے گزرتے ہوئے انہوں نے ایک بزرگ سکھ آدمی کو دیکھا، جو انہیں ان کے والد کی یاد دلا گیا۔ انہوں نے بے ساختہ اس شخص کو گلے لگا لیا

یہ وہ دور تھا جب کسی عزیز کی آواز سننے کے لیے فون کال کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ روی پٹیل سنہ 1967ع میں ایک پاؤنڈ لے کر انگلینڈ پہنچے، باقی رقم برطانیہ کے سفر میں خرچ ہو گئی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ اس وقت بھارت میں فون کرنے کی قیمت ایک پاؤنڈ چالیس پینس فی منٹ تھی، جو کہ اس وقت بہت بڑی رقم تھی۔ چنانچہ روی نے فون پر بات کرنے کے لیے اپنے خاندان کو ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں سال میں دو بار بلایا: ایک بار دیوالی پر اور ایک بار اپنے والد کی سالگرہ پر

سنہ 2000ع کی دہائی کے اوائل تک معاملہ اسی طرح رہا کیونکہ اس کے بعد لیبارا جیسی کمپنیوں نے مواصلات میں انقلاب برپا کیا اور اسے تین برطانوی سری لنکن کاروباریوں نے شروع کیا اور سستے ٹیلی فون کالنگ کارڈز پیش کیے

اب برصغیر پاک و ہند میں ایک پیسہ یا پینی فی منٹ کے حساب سے فون کیا جا سکتا تھا۔ روی کے بھارت چھوڑنے کے کئی دہائیوں بعد، اب وہ جب چاہیں اپنے بہترین دوست سے بات کر سکتے تھے

ان پہلے پہل انگلینڈ آنے والوں کے ساتھ ایسی کہانیاں جڑی ہیں، جن میں زندگی کا ہر رنگ موجود ہے. یہ لوگ، جو سابق برطانوی سلطنت سے آئے اور اپنے نوآبادیاتی حکمران کی نگری کو اپنا گھر بنایا۔ اور اس نسل کی مساوات اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی باتیں اب زیادہ مشہور ہیں

ہر نسل کو چھوڑی ہوئی جگہ اور اس جگہ سے الگ لگاؤ ہوتا ہے، جہاں وہ اب رہتے ہیں لیکن والدین اور بچوں کے درمیان یہ نجی، اور بعض اوقات نازک، کشمکش شاذ و نادر ہی ریکارڈ کیے جاتے ہیں

ان ہی میں فرح سعید اور ان کی والدہ رونی کے درمیان تعلقات کے نشیب و فراز کی بھی ایک کہانی ہے۔ رونی سنہ 1968ع میں ڈھاکہ (مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش) سے ایک نوجوان دلہن کے طور پر آئی تھیں۔ فرح ایک سال بعد پیدا ہوئیں۔ رونی کی نسل نے اکثر اپنے بچوں کو اکیلے ہی جنم دیا اور ان کی پرورش کی، ان کی اپنی ماؤں یا کسی وسیع خاندان کے تعاون کے بغیر۔ جبکہ آنے والی نسل کے لیے یہ مختلف تھا

سنہ 2001ع کے اواخر میں فرح لیورپول میں تھیں، جب انہوں نے لندن میں اپنی والدہ کو فون کرکے بتایا کہ وہ بچے کو جنم دینے والی ہیں۔ رونی کہتی ہیں ”میں کانپنے اور چیخنے لگی کیونکہ میں اس کی ماں تھی اور مجھے قریب ہونا چاہیے“ وہ فوری طور پر گاڑی میں لیورپول کے لیے روانہ ہو گئیں۔ جب وہ پہنچی تو انییں بتایا گیا کہ ان کے ہاں نواسے کی پیدائش ہوئی ہے۔ رونی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”وہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا“

ہسپتال کے کوریڈور میں انتظار کرتے ہوئے وہ اس لمحے کو یاد کرنے لگیں جب انہوں نے فرح کو جنم دیا تھا اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں اپنی والدہ کو ایک خط لکھا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا ”اب مجھے احساس ہوا کہ ماں ہونے کا کیا مطلب ہے۔“

رونی نے یاد کیا کہ کس طرح اپنے نوزائیدہ بچی کے ساتھ وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے درد میں تھیں، اور وہ اپنی ماں کو یاد کررہی تھیں جو ان سے اس وقت بہت دور تھیں۔ وہ بھوکی تھی اور اپنی ماں کے ہاتھ کا بنا کھانا کھانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ جب کئی دہائیوں بعد، وہ فرح کے کمرے میں گئیں اور اپنے نواسے سے ملیں، تو انہیں وہ بھوک اور تکلیف یاد آئی

انہوں نے فرح سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا چاہتی ہے۔ فرح نے جواب میں چکن بریانی کہا۔ رونی نے لیورپول کی حلال دکانیں تلاش کیں اور اپنی بیٹی کے لیے چکن بریانی بنائی

فرح نے اپنے بیٹے کو جنم دینے کے بعد خود ہی انکشاف کیا ”ماں بننے کے چند سیکنڈوں کے اندر ہی میں نے اس بات کی بالکل مختلف تعریف کی کہ میری ماں کے ساتھ کیا گزری ہوگی“

پانچ سال بعد سنہ 2006ع میں فرح کے ہاں ایک اور بچے کی ولادت ہوئی، انہوں نے اپنی ماں کے قریب رہنے کے لیے لندن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ 1988ع میں اپنے والدین کی امیدوں کے بوجھ سے نکلنے کی خواہش کے ساتھ، اپنی زندگی، اپنے طریقے سے گزارنے کی تڑپ کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں

اپنے والدین کے قریب واپس آنے کا فیصلہ کرنے کے پس پشت ان کی وہ خواہش کارفرما تھی کہ وہ اپنے بچوں کو وہ کچھ دینا چاہتی ہیں، جو ان کے پاس کبھی نہیں تھا.. یعنی ان کے دادا دادی، نانا نانی ان کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ بنگلہ دیش میں رہتے تھے اور فرح نے انہیں بمشکل دیکھا تھا

فرح کی بات سن کر احساس ہوتا ہے کہ برطانیہ میں پیدا ہونے والی دوسری نسل میں ہزاروں ایسے ہوں گے، جو اپنے دادا دادی اور نانا نانی کے بغیر پلے بڑھے ہیں۔ بچوں اور ان کے دادا دادی کے درمیان یہ رشتہ بہت معنی رکھتا ہے، کیونکہ یہ وہ چیز ہے، جس سے ایک نسل محروم رہی

فرح کے لیے زندگی نے اپنا ایک پورا دائرہ مکمل کیا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچے بنگالی کھانوں، ثقافت اور زبان میں ڈوب جائیں اور یہ وہ چیزیں ہیں، جو ان کے والدین کے گھر کا حصہ تھیں۔ یہ وہی گھر ہے، جہاں سے فرح سنہ 1980ع کی دہائی کے آخر میں فرار ہونا چاہتی تھی

وہ کہتی ہیں ”جب آپ جوان ہوتے ہیں، تو آپ اس (معاشرے) میں فِٹ ہونا چاہتے ہیں، اور جب آپ مزید بڑے ہوتے ہیں، تو آپ پراعتماد ہوتے ہیں اور فِٹ ہونا سے زیادہ آپ کے لیے یہ اہمیت رکھتا ہے کہ آپ کون ہیں“

اس طرح کی شہادتیں ہجرت اور برطانیہ کی کہانی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ایک سلطنت کے طور پر جو شروع ہوا وہ راج کے سابق رعایا کے بطور شہری آباد ہونے پر ختم ہوا، جن کی نسلیں اب یہاں آباد ہیں۔ ہر فرد یہ انتخاب کرتا ہے کہ پیچھے چھوڑی ہوئی جگہ سے کیا چھوڑنا ہے اور وہاں کی کون سی چیز کو برطانیہ میں رکھنا ہے

رونی کے شوہر کا گذشتہ سال انتقال ہو گیا ۔ ان کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا گلا بھر آتا ہے۔ ”ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک گھر بناتے ہیں اور آپ ایک اینٹ سے شروع کرتے ہیں۔ میں نے اس کے ساتھ مل کر برسوں میں بھرا پرا بڑا سا گھر بنایا۔ ہم لڑے، ہم نے بحث کی۔ لیکن ہم وہ گھر بنانا چاہتے تھے، اور ہم نے کیا“

وہ لندن میں ان کے گھر کے قریب دفن ہیں۔ نوجوانی میں وہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر اپنی خاندانی زمیں میں دفن ہونا چاہتے تھے

لیکن بعد میں انھیں احساس ہوا کہ ان کا گھر وہیں ہے، جہاں ان کے بچے اور نواسے ہیں۔ ان کی کشش کا مرکز بدل گیا تھا

کئی مشکل اور تنہائی والے وقت آئے لیکن اب برطانیہ میں ان مہاجروں کی تین نسلیں کامیابی سے آباد ہو چکی ہیں

رونی نے بتایا ”میں نے اپنے شوہر کے بغل میں ایک پلاٹ ریزرو کر رکھا ہے. مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بڑا درخت ہے، جو مضبوطی سے زمین میں کھڑا ہے، اور اسے اکھاڑا نہیں جا سکتا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close