فون کے دوسرے سِرے پر سارہ تھی۔ دنیا کے دوسرے سِرے پر موجود میری یہ بیٹی عمران خان کی صرف سو فی صد پکی سپورٹر ہی نہیں، اس کی پروموٹر بھی ہے۔ خاندان کے سارے بچوں کو پی ٹی آئی کی جاگ اسی نے لگائی تھی۔ میرے چاروں بچوں میں ایک وہی ہے جو سیاسی طور سب سے زیادہ متحرک ہے۔ بڑی والی تو ایسی لا علم کہ پانچ سال کراچی میں آغا خان میڈیکل یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہی اور اسے یہ تک علم نہیں تھا کہ سندھ کا گورنر کون ہے اور وزیر اعلیٰ کا کیا نام ہے۔ بھلا ایسے بچے سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں کہ اسے پاکستان کی سیاست کا کتنا علم ہو گا اور سیاست سے دلچسپی کس حد تک ہو گی؟ باقی دو چھوٹے والوں کا بھی یہی حال ہے لیکن اس منجھلی والی بیٹی کے طفیل ان کا سیاست سے اتنا تعلق ضرور بن گیا ہے کہ سارے بہن بھائی اب عمران خان والے معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔ سیاست پر وہ کبھی کبھار کوئی سوال کر لیں تو اور بات لیکن تازہ ترین سیاسی پیش رفت پر گفتگو اور مختلف موضوعات پر بحث صرف اور صرف سارہ کا مزاج ہے۔ آسٹریلیا میں رہتے ہوئے بھی وہ پاکستانی سیاست پر پوری نظر رکھتی ہے اور وقتاً فوقتاً اس سلسلے میں اپنے موقف کے مطابق بحث کرتی ہے اور میرے کالموں کے حوالے سے مجھ سے اختلاف بھی۔ میں اس کے اختلاف پر ہنستا رہتا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ میرے کالموں کا بھلا کسی اور پر خاک اثر ہوتا ہوگا جبکہ خود میری بیٹی اسی اندھی سیاسی تقلید میں گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی ہے، جس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے مجھے ایک عرصہ گزر گیا ہے، لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوتا
گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے سے میری جب بھی اس سے بات ہوئی، وہ صرف اور صرف پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور عمران خان کی حکومت کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتی رہی ہے۔ پچھلے پانچ سات دن سے تو باقاعدہ پریشان تھی اور مجھ سے بات کرتے ہوئے جہاں صورت حال پر میرے نقطہ نظر سے مایوس ہوتی، وہیں یہ بھی کہتی کہ اگر عمران خان کو اس کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے سے پہلے وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا گیا تو یاد رکھیں کہ عمران خان ان سب کا خانہ خراب کر کے رکھ دے گا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں کم از کم اس کی اس بات سے بہرحال سو فیصد متفق تھا کہ اگر عمران خان کو قبل از وقت چلتا کر دیا گیا تو وہ آنے والوں کے لیے لوہے کا ایسا چنا ثابت ہوگا کہ کسی کو شاید ابھی اس کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے۔ میرے کانوں میں عمران خان کو سب سے زیادہ جاننے اور سمجھنے والے اس کے کزن اور گئے دنوں کے سیاسی اتالیق حفیظ اللہ خان نیازی کی باتیں گونج جاتی تھیں۔ اس گفتگو کے بارے میں پھر کبھی سہی۔
نو اور دس اپریل کی درمیانی شب سارہ کا تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد فون آ جاتا تھا۔ پاکستان میں رات کے نو بجے تھے، ملبورن میں رات کے دو بجے تھے مگر سارہ کی نیند اڑی ہوئی تھی اور وہ مسلسل ساری صورت حال کا جائزہ لے رہی تھی۔ پوچھنے لگی کہ بابا جان! یہ بتائیں، پارلیمنٹ سپریم ہے یا سپریم کورٹ سپریم ہے؟
میں نے کہا: تم یہ سوال آسٹریلیا میں بیٹھ کر بڑے مزے سے پوچھ سکتی ہو لیکن میں پاکستان میں بیٹھ کر اس کا جواب نہیں دے سکتا؛ تاہم تمہاری طرح میں بھی سنتا تو یہی آیا ہوں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔
سارہ پوچھنے لگی: کیا عدالت پارلیمنٹ کو پابند کر سکتی ہے کہ وہ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہر حالت میں رات بارہ بجے سے پہلے کروائے اور اپنے اس حکم پر عمل نہ ہونے کے اندیشے کو مد نظر رکھتے ہوئے رات بارہ بجے سے پہلے پیشگی عدالت لگا کر بیٹھ جائے کہ جونہی بارہ بجے کلاک کی گھنٹی ٹن کرے، وہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دے؟
میں نے کہا: مجھ کم علم سے اس قسم کے پیچیدہ سوالات کرنے سے تمہیں کیا مل جائے گا؟ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ توہین عدالت کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اس کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے رات گئے عدالت کھولنے کا اس سے پہلے کوئی واقعہ ممکن ہے ہوا ہو، مگر بہرحال مجھے یاد نہیں آ رہا
سارہ پھر پوچھنے لگی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا چل رہا ہے؟
میں نے پوچھا: کیا چل رہا ہے؟
وہ کہنے لگی: کیا کسی واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے قبل اور اس بات کا جائزہ لیے بغیر کہ یہ حکم نامہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جاری کیا گیا ہے یا آئین و قانون سے تجاوز کیا گیا ہے اور یہ جانے بغیر کہ مجاز شخص کو اس حکم نامے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں، صرف ایک متوقع عمل کے بارے میں دی جانے والی درخواست پر رات گئے عدالت کھول کر بیٹھنے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
میں نے کہا: اس سلسلے میں میرا جواب محفوظ ہے۔
سارہ کہنے لگی: محفوظ کیوں ہے؟
میں نے کہا: چونکہ بات عدالتوں کی ہو رہی ہے تو جس طرح عدالتیں فیصلہ محفوظ کر لیتی ہیں، میرا جواب بھی محفوظ ہے۔
تھوڑی دیر بعد دوبارہ سارہ کا فون آ گیا۔ پوچھنے لگی: یہ اقبال حیدر صاحب کون ہیں؟
میں نے کہا: یہ صاحب ایک درخواست گزار ہیں، لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو؟
کہنے لگی: اسلام آباد ہائی کورٹ میں انہی صاحب نے درخواست دی ہے۔ پوچھنے لگی کہ ان کا درخواست دینے کا کیا مقصد ہے؟
میں نے کہا: جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے، اس کو شاید ایک دو بار عدالت سے اس قسم کی درخواستیں دینے کی پاداش میں جرمانہ بھی ہو چکا ہے؛ تاہم موصوف نے بڑی ترقی کی ہے کہ آدھی رات کو ہائی کورٹ کھلوا لی ہے۔ فون بند ہو گیا اور میں سو گیا۔
رات گئے ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجی۔ نمبر دیکھا، دوسری طرف سارہ تھی۔ پوچھنے لگی: یہ قیدیوں والی وین کیوں اسمبلی کے باہر پہنچ چکی ہے؟
میں نے کہا: ممکن ہے اسپیکر قومی اسمبلی رات بارہ بجے تک عدم اعتماد پر گنتی نہ کروائے تو توہین عدالت کی کارروائی کر کے گرفتاریاں کی جائیں۔
سارہ کہنے لگی: کیا قبل از وقت اس قسم کی جھلکیاں کروانا خوفزدہ کرنے کے زمرے میں نہیں آتا؟
میں نے کہا: میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
پھر وہ پوچھنے لگی: ایک طرف رات بارہ بجے سے پہلے سپریم کورٹ کھل جاتی ہے، ہائیکورٹ کھل جاتی ہے۔ اتوار کے دن سوموٹو کے لئے عدالت لگ جاتی ہے اور دوسری طرف نظرثانی کی ایک درخواست عدالت کا وقت ختم ہونے کے اعتراض کے ساتھ وصول کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
میں نے کہا: پتر! جہاں حاضر سروس وزیر اعظم توہین عدالت پر فارغ ہو جائے، وہاں مجھ جیسے بے وسیلہ اور لا وارث آدمی کو خاموش رہنا چاہئے… اور نہ صرف خاموش رہنا چاہئے، بلکہ کالم لکھتے ہوئے بھی ڈرا ہوا اور سہما ہوا کالم لکھنا چاہئے۔
لہٰذا قارئین! یہ بھی ایک ایسا ہی ڈرا اور سہما ہوا کالم ہے.
بشکریہ : روزنامہ دنیا