عمر صفدر کا تعلق گجرات سے ہے۔ وہ ایک فیکٹری چلاتے ہیں۔ مشینیں بجلی پر چلتی ہیں ۔ ڈیزل اور پیٹرول بطور خام مال استعمال ہوتا ہے
عمر صفدر کے کاروبار میں پچھلے چھ ماہ سے مسلسل نقصان ہو رہا ہے اور ملازمین کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔
اسی پریشانی کی دوران انہوں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ نئی آنے والی حکومت نے بجلی کی قیمت میں چار روپے 85 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے
بجلی ماہ فروری کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی۔ جس کی وصولی ماہ اپریل کے بلوں میں کی جائے گی۔ یہ خبر عمر کے لیے پریشان کن تھی۔ انہیں امید تھی کہ مہنگائی مکاؤ کے نعرے لگانے والی نئی حکومت مہنگائی میں کمی کرے گی، جو کہ بجلی اور تیل کی قیمتیں کم کرنے سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ لیکن حالات توقع کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں
وہ سوچ رہے ہیں کہ اگر بجلی اور تیل کی قیمتیں کم نہ ہوئیں اور مزید تین ماہ اسی طرح گزارنے پڑے تو فیکٹری کو مکمل طور پر بند کرنا پڑ جائے گا۔ انہیں اپنی گاڑی بیچنا پڑے گی اور بچوں کو بھی پرائیویٹ اسکول سے اٹھا کر سرکاری سکول میں داخل کروانا پڑے گا
انہیں اپنے ملازمین کی بھی فکر ہے کہ اگر ان کے گھر کے چولھے بند ہو گئے تو دو وقت کی روٹی کیسے کھائیں گے۔ ان کے بچے اسکول کیسے جائیں گے اور ان کے بوڑھے ماں باپ کی دوائی کا بندوبست کیسے ہوگا
اسی سب کے چلتے ایک روز قبل خبر آئی کہ اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ تجویز کیا ہے، لیکن دوسرے دن معلوم ہوا کہ فی الحال یہ تجویز منظور کرتے ہوئے نئی حکومت نے اس پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے
عمر صفدر کے لیے یہ اعلان قدرے تسلی کا باعث تو بنا لیکن سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں برقرار رکھنے اور سبسڈی کے لیے پیسے آخر کہاں سے آگئے؟
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اور عوامی ردعمل کے خوف سے نہیں بڑھا رہی، لیکن حکومت اسے زیادہ دیر تک روک نہیں پائے گی۔ ممکنہ طور پر پندرہ دن بعد اس میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔ اس وقت فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 150 روپے ہے۔ اس میں ٹیکسز شامل نہیں ہیں بلکہ قیمت خرید سے کم پر عوام کو دیا جا رہا ہے۔ اوگرا نے کل پیٹرول کی قیمت 171 روپے فی لیٹر مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔ جسے وزیراعظم کی جانب سے مسترد کر دیا گیا ہے. لیکن معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ معاشی اصولوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے
یاد رکھیں کہ یہ قیمت ٹیکسز کے علاوہ ہے۔ اگر ٹیکسز شامل کر لیے جائیں تو فی لیٹر پیٹرول 235 روپے تک مہنگا ہو جائے گا۔ اسی طرح ڈیزل کی قیمت 144 روپے ہے۔ اوگرا نے قیمت 195 روپے فی لیٹر تک اضافے کی تجویز کی تھا۔ جسے مسترد کر دیا گیا۔ اس میں ٹیکسز کی قیمت شامل نہیں ہے۔ ٹیکسز ملا کر یہ قیمت 264 روپے فی لیٹر تک جا سکتی ہے۔ وہ بھی اگر ڈالر موجودہ قیمت پر برقرار رہے۔ اگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تو پیٹرول اور ڈیزل 300 روپے فی لیٹر تک پہنچ سکتے ہیں
یہ جاننے کے بعد عمر صفدر کی پریشانی مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نئی حکومت میں تو مہنگائی کا ایک طوفان آنے والا ہے۔ فیکٹری تو بند ہوگی لیکن گھر کا کچن چلانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ وہ سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں کہ کیوں نہ مشینیں بیچ کر یورپ کا ویزا اپلائی کر دوں۔ تا کہ اپنا بڑھاپا اور بچوں کا مستقبل بہتر گزر سکے۔ کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق آنے والے دنوں میں پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے
اسی دوران وہ اپنے کاروباری شراکت دار دوست کے گھر گیا جہاں دونوں نے ظفر پراچہ صاحب کو ٹی وی پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ ایک طرف حکومت پاکستان تقریبا 20 ارب ڈالرز کے کرنٹ اکاونٹ خسارے کی طرف بڑھنے کے خدشے کا اظہار کر رہی ہے۔ بجٹ خسارہ 5600 ارب ہے۔ 800 ارب روپے کے نقصانات ان کے علاوہ ہیں۔ جس میں ہیٹرولیم سبسڈی اور ایل این جی کے نقصانات وغیرہ شامل ہیں
تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر کو چھو رہا ہے۔ شرح سود ساڑھے بارہ فیصد تک بڑھا دی گئی ہے اور اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تقریبا 10 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں تقریباً دو ارب ڈالرز یا 373 ارب روپوں کی پیٹرولیم سبسڈی کس طرح افورڈ کی جا سکتی ہے۔ پوری دنیا میں اتنی سبسڈی کون سا ملک دے رہا ہے، خاص طور پر ایسا ملک جو آئی ایم ایف کے پلان کے اندر ہو
نئی حکومت کے اس فیصلے سے وقتی طور پر عوامی سطح پر بلے بلے تو ہو گئی ہے لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم نہ کی تو پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت 373 ارب روپے کی سبسڈی کس طرح پوری کر رہی ہے۔ تقریبا ہر ہفتے 15 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ یہ رقم کہاں سے نکالی جا رہی ہے؟ یا پھر نئی حکومت کے اپنے اپوزیشن کے دور میں کیے گئے وہ دعوے گمراہ کن تھے کہ عمران خان حکومت نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے
یا پھر کیا کسی ملک نے مدد کی ہے؟ اگر ایسا ہے تو سخی ملک کون سا ہے؟ یا ایک مرتبہ پھر مہنگا قرضہ لیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ صحت، تعلیم اور خوراک کے بجٹ میں سے رقم نکال کر پیٹرولیم پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ کیونکہ ماضی میں حکومتیں ایسا کرتی آئی ہیں۔ پچھلے وزیراعظم عمران خان نے تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے کم کرتے وقت واضح طور پر یہ وجہ بتائی تھی کہ ایف بی آر کی ٹیکس آمدن بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ سبسڈی کی رقم اس میں سے نکالی گئی ہے
دوسری جانب عمر کے کاروباری دوست نے ظفر پراچہ صاحب کے موقف کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف صاحب کا ٹریک ریکارڈ اس حوالے سے اچھا نہیں ہے۔ ماضی میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے فنڈز پورے کرنے کے لیے شہباز شریف نے صحت، تعلیم اور دیگر کئی منصوبوں کو بند کر کے وسائل کا منہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی طرف موڑ دیا تھا۔ وہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ جس کے اثرات آج بھی عوام بھگت رہے ہیں
ایک اورنج ٹرین کے بجٹ میں پنجاب کے تمام پینتیس اضلاع میں شوکت خانم جیسا ایک جدید ہسپتال بن سکتا تھا۔ ابھی بھی یہ اطلاعات ہیں کہ عوامی فلاح کے بہت سے منصوبے روک کر تیل پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جو کہ تشویش ناک ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ تا کہ عوام کے سامنے پورا سچ لایا جا سکے
نئی حکومت وقتی فائدے کے لیے اپنے اس سیاسی فیصلے کو عوام کے لیے ایک احسان کے طور پر جتلا رہی ہے، لیکن سبسڈی کی یہ رقم سرکار اپنی جیب سے ادا نہیں کر رہی بلکہ یہ عوام کا پیسہ ہے، جسے ہر صورت میں عوام نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کرنا ہے
لہٰذا عوامی پیسے کو ایسے منصوبوں پر خرچ کیے جانے کی ضرورت ہے، جس کا فائدہ دیر پا ہو اور ملک کے لیے بھی معاشی طور پر بہتر ہو۔ قریب کا فائدہ دیکھنے سے پہلے دور کا نقصان دیکھنا زیادہ ضروری ہوتا ہے
اس صورتحال میں عمر صفدر کا کہنا ہے کہ ان کے پارٹنر اور ظفر پراچہ صاحب کی رائے محترم ہے۔ لیکن پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔ تاکہ مہنگائی کم ہو اور ان کا کاروبار بھی چل سکے.