1. لمحے بھر کی زندگی
مکڑی کا جالا، ذرا سا ہٹا۔
”دنیا دیکھنا چاہتا ہوں“ مکڑی کے بچے نے سوچا
چھپکلی نے فوراً اسے کھا لیا..
”جالا ہی میری دنیا تھی“ مکڑی کے بچے نے چھپکلی کے منہ میں سوچا
دکان کی چھت پر لگے جالے میں کہانی ختم
”چاچا گرمی ہے کوئی ٹھنڈا پانی ہی پلادو“ ایک کچرا چننے والے بچے نے دکان دار سے کہا
”ٹھنڈا پانی تو نہیں ہے“ دکاندار نے بُرا سا منہ بناکر جھوٹ بولا، حالانکہ پانی کا کولر موجود تھا مگر وہ اپنا گلاس خراب نہیں کرنا چاہتا تھا
”گرمی ہے، میں پانی پینا چاہتا ہوں۔“
”کہا تو ہے نہیں ہے!“
لڑکے نے کولر کو حریصانہ نظروں سے گھورا اور چل پڑا
ایک تیز رفتار ٹرک نے سڑک پار کرتے ہوئے اس بچے کو کچرے کے تھیلے سمیت کچل دیا۔ بچے نے آنکھیں بند ہونے سے پہلے کہا ”میرا تھیلا“
2. بیچارا مکان
اس نے ڈوبتے ہوئے اسے دیکھا تھا، وہ کنارے پر کھڑا ہنس رہا تھا اور وہ ڈوبنے والی لڑکی کا شوہر تھا
وہ ڈوب رہی تھی، وہ ہنس رہا تھا
وہ ہنس رہا تھا کہ وہ ڈوب رہی تھی
ڈوبتے ہوئے رونا زیادہ اذیت ناک ہے اور وہ اس کرب سے گزر رہی تھی، وہ چیخنا چاہتی تھی مگر ہر طرف اس کے شوہر کی مکروہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ بہت سے دانت اسے پانی کی تہہ میں کھینچنے لگے
”بچاؤ، بچاؤ۔۔۔ آہ! میری بیوی ڈوب رہی ہے۔ کوئی تو بچا لے“ شوہر نے چلانا شروع کردیا
ایک مچھیرے نے کشتی سے چھلانگ لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس کی بیوی کو باہر نکال لایا۔ وہ بے ہوش تھی، پیٹ دباکر پانی نکالا گیا، آہستہ آہستہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس کا شوہر حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
وہ ہنس رہی تھی۔ وہ رو رہا تھا
وہ رو رہا تھا کہ وہ ہنس رہی تھی
پھر وہ زندگی بھر مخالف سمتوں میں چلنے لگے اور ایک دوسرے کی جانب مُڑ کر نہیں دیکھا حالانکہ وہ اس واقعے کے پچاس برس بعد تک ایک ہی مکان میں رہے، جو گھر نہ بن سکا۔ آہ بیچارا مکان….
3. دھمکی
مجھے ایک خط آیا ہے کہ دو دن بعد مجھے قتل کردیا جائے گا۔ ممکن ہے یہ خط میرے لیے نہ ہو بلکہ مجھ سے پہلے یہاں رہائش پذیر کرائے دار کے لیے ہو، جس کی پانچ بیٹیاں تھیں اور گھر کے باہر نوجوانوں کا ہجوم جمع رہتا تھا۔ ہوسکتا ہے انہی عاشقوں میں سے کسی نے لڑکی کے باپ کو دھمکی دی ہو مگر خط وصول کرنے سے پہلے ہی وہ یہاں سے چلے گئے ہیں
مجھے اس مکان میں آئے دس روز ہوئے ہیں۔ عجب اتفاق کہ ان لڑکیوں کے باپ کا نام بھی اشفاق تھا اور وہ لنگڑا کر چلتا تھا
”اشفاق تمہیں پرسوں قتل کردیا جائے گا“
خط پر مزید کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ ممکن ہے یہ ‘پرسوں’ آج ہو، یا گزرا ہوا کل خط کے حساب سے ‘پرسوں’ ہو لیکن تب کیا ہوگا، اگر آنے والا کل قاتل کے حساب سے ‘پرسوں’ ہوا تو؟
دھمکی دینے والے نے کوئی تاریخ نہ لکھ کر دنوں کے حساب میں بہت زیادہ ابہام رکھ دیا ہے
اگرچہ کہ مجھے اسے محض دھمکی سمجھنا چاہیے تھا مگر کہیں نہ کہیں ایک خوف میرے اندر سرایت کر گیا۔ شہر میں اندھے قتل کی وارداتوں میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ میں نے اگلے تین دن دفتر سے چھٹی کی کہ زندگی سے بڑھ کر تو کچھ نہیں ہے، کچھ ہوگیا تو ان باقی رہ جانے والی چھٹیوں کا کیا فائدہ؟
خط کو آئے پندرہ دن ہوگئے۔ میں دفتر جاتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیتا رہا ہوں، رات ہر آہٹ پر چونک جاتا ہوں کہ شاید آج وہی ‘پرسوں’ آگیا ہو
چار ماہ بعد جب میں اس خط کو مکمل طور پر بھول چکا تھا تو چوک میں بس کا انتظار کرتے ہوئے مجھے کسی نے گولی مار دی۔ بند ہوتی آنکھوں سے میں نے جو آخری منظر دیکھا، اس میں میرا قاتل لنگڑا کر چل رہا تھا۔ بالکل پرانے کرائے دار کی طرح، جس کی ایک بیٹی کا میں شوہر تھا
4. ایک دیوہیکل بلا
ایک دیوہیکل بلا میرے کمرے میں گھس آئی ہے اور میں اسے کوشش کے باوجود یہاں سے نکال نہیں سکتا۔ ایک بار میں نے اسے زور لگا کر باہر دھکیل دیا اور کمرے کا دروازہ مضبوطی سے بند کردیا، مگر اس قدر موٹی ہونے کے باجود یہ ایسی لچکدار ہے کہ دروازے کی جھریوں سے ہوا کی مانند داخل ہوکر میرے سامنے منہ چڑانے لگی
شروع شروع میں اس کی جسامت ایسی نہیں تھی بلکہ یہ تو ایک چھوٹی سے چھپکلی کی طرح میرے کمرے کی دیوار پر موجود تھی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس نے بڑھنا شروع کردیا
کئی سال پہلے، جب میں اس شہر میں نیا نیا آیا اور ایک پارک کی بنچ پر بیٹھا تھا تو مجھے اپنے سامنے کی جیب میں عین دل کے مقام پر کچھ کُھسر پُھسر محسوس ہوئی۔ میرے ہاتھ اس قدر سُن ہوگئے کہ میں اپنی جیب الٹنے سے قاصر تھا۔ زبان گنگ تھی، کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ براہِ مہربانی میرے پاس بیٹھیں، میرے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں یہاں کیا ہے۔ میں ڈر کر بھاگا اور کمرے میں آکر پناہ لے لی
کمرے میں پہنچتے ہی اس نے میری جیب سے چھلانگ لگائی اور دیوار پر چپک گئی۔ اب کئی سال بعد مجھے اس کی ایسی عادت ہوگئی ہے کہ بعض اوقات جب اونچی آواز میں ٹی وی لگاتا ہوں تو یہ چھپ جاتی ہے، اور میں فوراً اسے الماری یا بیڈ کے نیچے سے ڈھونڈ نکالتا ہوں۔ وہ ٹُکر ٹُکر مجھے گھور رہی ہوتی ہے۔ مجھے اب اس سے خوف نہیں آتا، مجھے معلوم ہے یہ بڑھتی جائے گی، بڑھتی جائے گی…. یہاں تک کہ ایک دن یہ مجھے نگل جائے گی اور اس کمرے میں بالکل میری طرح تنہا راج کرے گی
5. ناچتا ہوا ہجوم
وہ بادشاہ تھا، جو صرف بولنا جانتا تھا۔ اس کے عوام تھے، جو صرف سننا چاہتے تھے۔ وہ بھوکے تھے مگر ان کے کان اپنی تعریفیں سننے کو بے چین رہتے تھے۔ بھوک کی شدت کے ان لمحوں میں جب صدائے احتجاج کے لیے ہاتھ بلند ہونے لگتے، بادشاہ فوراً عوام سے خطاب کرلیتا کہ ”دیکھو تمہیں بھوک کی چنداں پروا نہیں ہونی چاہیے کہ تم عظیم لوگ ہو، تم پر ماضی میں بہت ظلم ہوتا رہا مگر بس چند ہی دنوں میں تمہاری قسمت تم پر مہربان ہوجائے گی۔ تم کھاؤ گے، پیو گے اور تمہارے گھروں کے سامنے فقیروں کی قطار ہوگی، بس صبر کرو کہ تم عظیم ہو“
احتجاج میں اُٹھتے ہاتھ جھک جاتے، وہ اپنے پیٹوں کی بھوک بھول جاتے اور خوشی سے ناچنے لگتے۔ ایسے میں اگر کوئی ان کے دگرگوں حالات کی نشاندہی کرتا تو وہ اسے گالیاں بکنے لگتے اور بادشاہ محل کی کھڑکی سے انہیں ناچتا ہوا دیکھتا رہتا
وہ عوام کو ہمیشہ کہتا کہ مجھے تمہارے درد کا اندازہ ہے حالانکہ زندگی میں کبھی بھی اس کی انتڑیوں میں بھوک سے اُٹھنے والا درد پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ حتٰی کہ اس کے کتے بھی اس درد سے ناواقف تھے۔ مگر یہ بات ناچتے ہوئے ہجوم کو نہیں سمجھائی جاسکتی تھی..
6. بھوک
اس شہر میں سبھی لوگ بھوکے تھے، ازل سے بھوکے۔ ان کے پیٹ ہر وقت کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے۔ حرام کما کر وہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک حلال کھانا تلاش کرتے مگر کھا کر بھی ان کی بھوک نہ مٹتی۔ بڑے سے بڑا حادثہ ان کی بھوک مٹانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا تھا۔ وہ دھرتی پر صرف اور صرف اپنی بھوک مٹانے کے لیے پیدا ہوئے تھے
بھوکوں کے شہر کی ایک شادی کا منظر:
پانچ سو لوگ ایک شادی میں مدعو ہیں، جس میں ایک پاپڑ بیچنے والے کو محض پچاس روپے کی خاطر مار دیا گیا ہے۔ لاش ایک کونے میں پڑی ہے، اس سے پہلے کہ کوئی اسے اٹھائے، کھانا کھل گیا ہے اور لوگ اندھے بہروں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے ہیں کہ وہ ازل سے بھوکے ہیں اور وہ پیدا ہی بھوک مٹانے کے لیے ہوئے ہیں
بھوکوں کے شہر کا ایک قاتل:
ایک سنسان گلی میں ڈاکو نے پرس چھینتے ہوئے شہری کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ سڑک پر پہنچ کر ڈاکو نے اپنی بیوی کو فون کیا اور کہا ”آج کھانے میں کیا بنا ہے؟“
”اوہ ہو۔ پھر بھنڈیاں؟ اچھا چلو میں آج پیزا لا رہا ہوں۔ لَو یو، اور وہ۔۔۔ بس ٹھیک ہے۔“
بھوکوں کے شہر کا الیکشن:
آج بھوکوں کے شہر میں الیکشن ہے، بریانی کی دیگیں پک رہی ہیں۔ ایک، ایک پلیٹ پر ووٹ دیا جا رہا ہے۔ ایک شہری نے کہا ”میں اس لیے ووٹ دینا چاہتا ہوں تاکہ میری بھوک مٹ سکے، اور اس کے لیے صرف بریانی کافی نہیں۔ مجھے آٹا، گھی اور چاول بھی چاہئیں“