کابل / اسلام آباد – ڈائریکٹر اطلاعات افغانستان کے مطابق ہفتے کو سورج طلوع ہونے سے پہلے ’پاکستان فوج نے سرحد سے افغانستان کے مشرقی صوبہ کنڑ میں راکٹوں سے حملہ کیا جس میں کم از کم پانچ بچے اور ایک خاتون ہلاک ہو گئے۔‘ بعد ازاں افغانستان حکومت نے پاکستانی سفیر کو طلب کر لیا
ڈائریکٹر اطلاعات افغانستان نے بتایا ”وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ سیشن میں نائب وزیر دفاع الحاج ملا شیرین اخوند بھی شامل تھے جہاں افغان فریق نے خوست اور کنڑ صوبوں پر حالیہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسی کارروائیوں کی روک تھام پر زور دیا۔ وزیر متقی نے کہا کہ خوست اور کنڑ سمیت تمام فوجی خلاف ورزیوں کو روکنا ضروری ہے کیونکہ اس طرح کی کارروائیوں سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوتے ہیں، جس سے مخالفین کو صورتحال کا غلط استعمال کرنے کی اجازت ملتی ہے جس کے نتیجے میں ناپسندیدہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ملاقات کے آخر میں، پاکستانی سفیر کے سامنے اس واقعے کی پرزور مذمت کی گئی۔“
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صوبائی ڈائریکٹر اطلاعات نجیب اللہ حسن ابدال کا دعویٰ تھا کہ ’کنڑ کے ضلع شیلٹن میں پاکستانی راکٹ حملوں میں پانچ بچے اور ایک خاتون ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوا۔‘
شیلٹن ضلع کے رہائشی احسان اللہ نے دعویٰ کیا کہ ’حملہ پاکستانی فوجی طیارے نے کیا تھا۔‘ انہوں نے حملے میں ہلاکتوں کی تصدیق کی
افغان دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان میں پاکستانی سفیر منصور خان کو طلب کیا گیا اور افغانستان میں مبینہ طور پر پاک فضائیہ کے حملے کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی
افغان حکومت کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ اسی طرح کا حملہ سرحد کے قریب افغانستان کے صوبہ خوست میں بھی کیا گیا۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ’پاکستانی ہیلی کاپٹروں نے صوبہ خوست میں ڈیورنڈ لائن کے قریب چار دیہات پر بمباری کی۔‘
اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ’صرف عام شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں جانی نقصان ہوا‘ اہلکار نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں
خوست کے ایک افغان قبائلی رہنما گل مرخان نے خوست میں ہونے والے حملے کی تصدیق کی
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں نے ہفتے کی صبح افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ حصوں پر گولہ باری کی جس سے بھاری جانی نقصان ہوا ہے. پاکستان میں سرکاری ذرائع نے اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی کے مطابق اسلام آباد میں افغانستان کے سفارتخانے کے ذرائع نے ان کے نامہ نگار کو بتایا کے گذشتہ روز وزیرستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد پاکستانی حکام نے افغان سفیر کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں کیا گیا تھا کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے
ذرائع کے مطابق ’یہ خط کابل بھیجا گیا اور وہاں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ لیکن بد قسمتی سے تحقیقات سے پہلے ہی پاکستانی طیاروں نے گذشتہ رات خوست اور کنٹر میں بمباری کر دی‘
پاکستان کے قومی اسمبلی میں حملوں کی گونج
شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ جیٹ طیاروں نے گذشتہ شب پاک افغان سرحدی علاقے میں بمباری کی اور اس اس واقعے کی تحقیقات کروائی جائیں
انھوں نے بتایا کہ افغانستان میں اس علاقے میں پاکستان سے گئے ہوئے آئی ڈی پیز بھی ہیں
انھوں نے کہا کہ ان افراد کی واپسی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ اسپیکر کی جانب سے پروڈکشن آڈر پر اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے جنوبی وزیرستان کے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی اس موضوع پر بات کی
علی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے بمباری کی ہے لیکن معلوم نہیں کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس موقع پر بھی محسن داوڑ نے بلند آواز میں بتایا کہ چالیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں
بعد ازاں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو میں محسن داوڑ نے بتایا کل اس علاقے میں پاکستان کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں سے بے گھر ہونے والے لوگ مقیم ہیں
انھوں نے بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول کے ساتھ کچھ وڈیوز بھی شیئر کیں، جن میں موجود کچھ لوگ زخمی ہیں اور بظاہر وہ کسی ہسپتال میں موجود ہیں اور ان کی مرہم پٹی کی گئی ہے۔ تاہم بی بی سی کو آزادانہ ذرائع سے یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ ویڈیوز کب اور کہاں کی ہیں
ایک ایسی وڈیو بھی شیئیر کی گئی، جس میں بہت سے افراد کی لاشیں ایک جگہ موجود ہیں ان میں بوڑھے جوان اور بچے بھی شامل ہیں
ایک وڈیو میں ایک زخمی شخص جس کے سر پر پٹی کی گئی ہے جو بتاتا ہے کہ رات دو سے تین بجے تھے، ہم سو رہے تھے بمباری ہوئی پھر دو بار فائر بھی ہوا
وہ زخمی شخص بتاتا ہے کہ بیس سے 3لتیس بندے ہلاک ہوئے اور وہ کچھ بندوں کو لے کر بھی گئے ہیں
حملے ہوئے کہاں؟
بی بی سی کے مطابق خوست میں مقامی ذرائع نے بتایا کہ حملے ہفتہ کی صبح سپیرا ضلع کے چار دیہاتوں میں ہوئے، جس میں متعدد خاندانوں کے کم از کم چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم اب تک ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی
ذرائع کے مطابق حملے میں ایک ہی خاندان کے چار افراد مارے گئے۔ دو دیگر خاندانوں کے پانچ سے چھ افراد ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے
بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں پاکستان کے سرحدی علاقے وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بعد نقل مکانی کرنے والے خاندان آباد ہیں۔
خوست کی صوبائی انتظامیہ نے بھی ان حملوں کی تصدیق کی لیکن مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں
خوست میں ذرائع نے بتایا کہ طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان فضائی حملوں کے بعد جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔
دریں اثناء مشرقی صوبہ کنڑ سے ملنے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ضلع شلتن کے علاقے چپری تاگہ میں فضائی حملے میں مقامی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں.