کراچی – پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی کے قبرستان بھر جا رہے ہیں اور مرنے والوں کی تدفین کے لیے جگہ تیزی سے ختم ہو رہی ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صحیح قیمت وصول کرکے آپ کے کسی پیارے کی تدفین کے لیے پرانی قبروں پر ایک نیا ’پلاٹ‘ تیار کر کے فراہم کر سکتے ہیں
کراچی کے قبرستانوں میں قبریں نایاب ہیں اور تقریباً پورے کراچی میں تدفین کی کوئی جگہ نہیں بچی ہے، اور ہے بھی تو نجی انجمنوں اور برادریوں کے زیر انتظام ہیں۔ لیکن سرکاری قبرستان میں البتہ منہ مانگی قیمتوں پر قبریں دستیاب ہوجاتی ہیں اور آئے دن خبریں ملتی رہتی ہیں کہ لوگ جب اپنے عزیزوں کی قبر پر جاتے ہیں تو وہ مسمار ہوچکی ہوتی ہیں، کیونکہ مافیا نے ان سے پوچھے بغیر قبر کو مسمار کر دیا ہوتا ہے اور اس کی جگہ نئی قبر بن چکی ہوتی ہے۔ یہ شہر کے ہر قبرستان کا المیہ ہے۔
لگ بھگ دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل اس شہر میں 1953ع میں قائم ہونے والا ’پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی‘ (پی ای سی ایچ ایس) کا قبرستان یوں تو پانچ سالوں سے سرکاری طور پر بھر چکا ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں آئے روز نئی قبریں نظر آتی ہیں، جو عملے کی مٹھی گرم کرکے ٹوٹی پھوٹی قبروں پر دوبارہ کھڑی کی جاتی ہیں
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک گورکنوں کی ایک ٹیم کو یہاں پرانی قبروں پر نئی قبریں کھودتے ہوئے دیکھا
خلیل احمد نامی گورکن نے بتایا: ’پورے کراچی میں تدفین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسی بھی قبرستان میں نئی قبر کے لیے جگہ نہیں ہے‘
ان کا مزید کہنا تھا ’اگر ہم نئی قبریں بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پرانی قبروں کو توڑنا ہوگا‘
کراچی کے اس ضلع میں تدفین کی سرکاری طور پر فیس سات ہزار نو سو روپے مقرر ہے، لیکن دو مقامی افراد نے بتایا کہ گذشتہ سال پی ای سی ایچ ایس قبرستان میں اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرنے کے لیے انہیں پچپن ہزار اور ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے ادا کرنا پڑے
خلیل احمد نے کہا ”فیسیں عملے کے چالیس ارکان کے درمیان تقسیم کی گئی ہیں، جو کام نہ ہونے پر قبرستان میں سایہ دار جگہوں پر لیٹ کر اپنا وقت گزارتے ہیں“
گورکن مافیا
خلیل احمد اور ان کے ساتھی اس عملے کا حصہ ہیں، جسے سیاست دان اور میڈیا ’گورکن مافیا‘ کہتے ہیں
ٹینکر مافیا، دودھ مافیا، شوگر مافیا اور لینڈ مافیا کے بعد شہر کو اس گورکن مافیا کا بھی سامنا ہے، لیکن ”فری لانس“ قبر کھودنے والے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مرنے کا بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے، جس میں بائیس کروڑ افراد آباد ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں چالیس لاکھ سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے
جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے اسی طرح دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف لوگوں کی نقل مکانی بڑھ رہی ہے
محمد اسلم نے کراچی کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی گورکن مافیا کو پھلتے پھولتے دیکھا ہے
72 سالہ اسلم نے کہا کہ جب وہ 1953ع میں یہاں منتقل ہوئے تو پی ای سی ایچ ایس قبرستان ایک ویران جگہ تھی لیکن اب یہ جگہ تیزی سے سکڑ رہی ہے کیونکہ گذشتہ سالوں کے دوران صرف ان کے خاندان کے چودہ افراد کی یہاں تدفین کی گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ قبروں کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی
1967ع میں اسلم کے دادا کی یہاں تدفین کے لیے پچاس روپے ادا کیے گئے تھے، لیکن 2020 میں مافیا نے ان کے ایک رشتہ دار کی تدفین کے لیے تینتیس ہزار وصول کیے
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے ترجمان علی حسن ساجد نے کہا کہ ’بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے۔‘
کے ایم سی شہر بھر میں تقریباً ڈھائی سو قبرستانوں میں سے انتالیس کا انتظام کرتی ہے، جن میں پی ای سی ایچ ایس سکس کا قبرستان بند کر دیا گیا ہے، جبکہ باقی تقریباً بھر چکے ہیں
ساجد نے مزید بتایا ’شہر کے کچھ حصوں میں اب تک وہی بنیادی ڈھانچہ ہے، جو پاکستان کے قیام کے وقت موجود تھا۔‘
انہوں نے کھلے عام گورکنوں کے مافیاز کے وجود کو تسلیم کیا، جو بند قبرستانوں پر تدفین کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں نکالنے کی کوششیں جاری ہیں
اس مافیا کی راولپنڈی، پشاور اور لاہور میں بھی پنپنے کی اطلاعات ہیں
ایک گمشدہ یادگار
ساجد نے کہا کہ پچھلی نسلوں کے ساتھ رشتہ داروں کو ایک ہی جگہ دفن کرنے کے خواہشمند خاندان زیادہ قیمتوں کی پیشکش کرتے ہیں، جس سے گورکنوں کا لالچ مزید بڑھ جاتا ہے
گورکن خلیل احمد کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے شہر میں ایک بنیادی خدمات فراہم کرتے ہیں جو خود کو چلانے کے قابل نہیں ہے
کچھ مقامی لوگ اس عمل کو ایک بھرے ہوئے شہر میں زندگی کے ناقص نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ دیگر کے لیے یہ غم و غصے کا باعث ہے
محمد عبداللہ سیف کے والد کو کئی دہائیوں قبل پی ای سی ایچ ایس کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا لیکن آج ان کی قبر سیمنٹ کی خالی بوریوں اور مقبروں کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ مافیا عام طور پر مسمار کرنے کے لیے بے نام قبروں کا انتخاب کرتے ہیں
بتیس سالہ عبداللہ نے کہا: ’ہمیں باقاعدگی سے یہاں آنا پڑا ہے ورنہ یہ قبر بھی گرادی جائے گی۔‘
مزمل آصف کی نوعمر بہن کی قبر بھی یہیں موجود ہے، جن کو گذشتہ موسم گرما میں یہاں دفن کیا گیا تھا
اکیس سالہ مزمل نے شکایت کی کہ ’جب کوئی ان کے اوپر سے گزرتا ہے تو قبروں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔‘
اور قریبی کورنگی قبرستان میں محمد منیر کو انتہائی افسوسناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ ہر سال اس قبرستان میں دعا کے لیے آتے ہیں، جہاں ان کے والد کو دفن کیا گیا لیکن یہ قبر کافی عرصے سے غائب ہو چکی ہے
یہ بیس سال سے زیادہ عرصہ پہلے منہدم ہو گئی اور اس کی جگہ دوسری قبر بنائی گئی تھی، لیکن وہ متبادل قبر بھی ختم گئی ہے، جس پر کسی اور کو دفن کر دیا گیا ہے
کچھ سالوں سے جب منیر وہاں جاتے ہیں تو انہیں غیر مانوس ناموں والی سمینٹ سے بنائی گئی نئی نئی قبریں دیکھنے کو ملتی ہیں
اب انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کے والد کی اصل قبر کہاں ہے۔ وہ کہتے ہیں ”یہ تکلیف دہ ہے۔ قبر ان کی آخری نشانی تھی“
دیگر قبرستانوں کا حال
شہر کا ایک اہم قبرستان پاپوش نگر کا ہے، جہاں سلیم احمد، دلاور فگار، ابن صفی، ملا واحدی، بھی مدفون ہیں. یہاں بھی فروری 2017 سے بلدیہ عظمیٰ نے جگہ کی عدم فراہمی کے باعث تدفین پر پابندی عائد کردی تھی۔ لیکن پابندی کے باوجود یہاں بھی مکمل طور پر گورکن مافیا کا راج ہے، اور ان کے تعاون سے ہی غیر قانونی طور تدفین کی جارہی ہے۔ یہاں قبر پینتیس ہزار سے پچاس ہزار تک فروخت کی جاتی ہیں
سخی حسن قبرستان میں بھی 30 ہزار سے 60 ہزار تک قبر نیلام کی جاتی ہے۔ یاسین آباد، عظیم پورہ، شاہ فیصل اور کورنگی نمبر چھ کے قبرستان قبروں کی گنجائش مکمل طور پر ختم ہوجانے کے بعد تدفین کے لیے بند کیے جا چکے ہیں لیکن تدفین ہورہی ہے
قدیم اور تاریخی میوہ شاہ اور مواچھ گوٹھ قبرستانوں میں بیس سے چالیس ہزار تک قبر فروخت ہو رہی ہے
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی طرف سے قبر کی الاٹمنٹ کی فیس رکھی جاتی ہے لیکن اس مقررہ فیس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس شہر میں رہنے والے جانتے ہیں کہ مقررہ فیس کا کوئی فائدہ نہیں ہے. لوگ اپنے مرنے والوں کی قبر کے لیے فیس یا ’’قبرستان بھتا‘‘ قبرستانوں میں قابض گورکن مافیا کی ڈیمانڈ کے مطابق ہی دیتے ہیں
قبروں کی خریدو فروخت کا کاروبار تو دھڑلے سے جاری ہے ہی لیکن اس کے ساتھ بد انتظامی اور مافیا کے جرائم پیشہ افراد سے گٹھ جوڑ کی وجہ سے قبرستان جرائم پیشہ اور نشئیوں کی پناہ گاہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ قبرستانوں میں منشیات کی خرید وفروخت و دیگر غیراخلاقی سرگرمیوں کا اعتراف خود بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذمے دار ماضی میں بارہا کر چکے ہیں.