پشاور _ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی رہائش گاہ پر اپنی جماعت کے ساتھیوں اور ورکروں سے خطاب میں کہا کہ موجودہ نئی حکومت زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لیے بنی ہے اوراس حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی جے یوآئی کا اپنا ایک موقف اور الگ تشخص ہے ۔
فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگرچہ ہم نے عمران خان کو تو رخصت کردیاہے لیکن قوم کو وہ امانت واپس کرنا ہماری ذمہ داری ہے جس کے لیے ہم نے جدوجہد کی ہے ،اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انتخابی نظام میں خامیاں ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابات میں پھر سے دھاندلی کی جاسکتی ہے تو وقتی طور پر موجودہ اسمبلیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابی اصلاحات کرلی جائیں جبکہ دیگر ناگزیر اصلاحات بھی کی جاسکتی ہیں جن کی وجہ سے مسائل بنے ہوئے ہیں تاکہ ہم گدلے پانی سے تو نکلیں اورشفاف پانی میں اتریں ۔
انہوں نے کہا کہ مصلحت کی بھی حد ہوتی ہے ،اقتدار کو طوالت دینا اور غیر ضروری طور پر طوالت دینا کسی بھی طور جے یوآئی کی پالیسی نہیں ہوسکتی ،یہ ہماری رائے ہے جو ہم اپنے اتحادیوں کے سامنے رکھیں گے تاکہ ان پر بھی صورت حال واضح ہو ۔
فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی ایک پریس کانفرنس آگئی تو اب جلسہ میں امریکہ کا نام نہیں لیاجاتا نہ ہی خط کا تذکرہ کیاجاتا ہے ،وہ خط جھوٹا تھا کیونکہ جو سفید کاغذ لہرایا جاتا ہے یہ اس کاغذ کا رنگ ہی نہیں جو سفارتی خط وکتابت کے لیے استعمال کیاجاتاہے ،اس خط کے الفاظ بھی انہوں نے تبدیل کیے اور خواہ مخواہ اس سے ہوا بنایاگیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے خفیہ راز افشاءکیے اور پھر جھوٹ بھی بولا ،ایسے لوگ نہ تو ریاست کی ضروریات کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی مفادات کو ۔انہوں نے کہا کہ مجھے کہاگیا کہ وہ تو جلسے کررہا ہے تو میں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ جب کوئی مرجاتاہے تو رونے دھونے والے تو جمع ہوتے ہیں اور ماتم تو ہوتا ہے ،یہ اب مردہ ہوچکے اور مردے کے اوپر دس کروڑ لوگ بھی اکٹھے ہوجائیں تو وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا ،ہم نے چوکس رہنا ہے تاکہ حالات پر کنٹرول رکھا جاسکے