ڈینٹسٹ صدر عارف علوی موجودہ حکومت کے دانت کیسے کھٹے کر سکتے ہیں؟

ویب ڈیسک

اسلام آباد – اس وقت پاکستان کے صدر کے عہدے پر براجمان عارف علوی کے جسم میں ایک گولی آج بھی پیوست ہے، جو ایوب خان کی آمریت کے دنوں میں احتجاج کے دوران انہیں لگی تھی۔ یہ سنہ 1969ع کی بات ہے جب عارف علوی ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف مال روڈ پر احتجاج کر رہے تھے۔ ان دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی سے منسلک ڈینٹل کالج میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ طلبہ یونین کے صدر بھی تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں جمہوریت کی بحالی کی اس تحریک میں دو گولیاں لگیں، جس میں ایک آج بھی ان کے جسم میں موجود ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی کی پیدائش کراچی میں ڈاکٹر حبیب الرحمان علوی کے گھرانے میں ہوئی۔ تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ڈاکٹر علوی کا گھرانہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے والد انڈیا میں ڈینٹسٹ تھے جو قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہو گئے تھے

ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ان کے والد جواہر لال نہرو کے بھی ڈاکٹر تھے اور ان کی نہرو سے خط و کتابت ان کے پاس موجود ہے، جبکہ فاطمہ جناح نے انھیں مھتاپیلس کا ٹرسٹی مقرر کیا تھا

عارف علوی نے طالب علمی کے زمانے میں سیاست کے بعد سنہ 1979 میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا وہ جماعت اسلامی کے امیدوار تھے لیکن یہ انتخابات نہ ہو سکے اور ملک میں جنرل ضیا الحق کی آمریت آ گئی جس کے بعد وہ اپنے پیشے کی جانب آ گئے۔ اسی دوران انھوں نے امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

وہ پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر بنے اس کے بعد ایشیا پیسفک ڈینٹل فیڈریشن کے صدر کے منصب تک پہنچے اور اس وقت وہ پاکستان کے صدر ہیں. ملک میں ان کی جماعت کی حکومت نہیں رہی اور اس کی جگہ گیارہ جماعتوں کی مشترکہ حکومت آ چکی ہے، لیکن ان کی آئینی حیثیت انہیں اب بھی نئی حکومت کے دانت کھٹے کرنے کی پوزیشن میں رکھے ہوئے ہے

پاکستان کی قومی اسمبلی کے آج (پیر) ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق پارلیمان کے ایوان زیریں میں صدر کے پارلیمان کے مشرکہ اجلاس سے خطاب پر اظہار تشکر کی قرارداد پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ ایک پارلیمانی روایت ہے جس کے تحت ہر سال صدر مملکت کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں خطاب سے قبل گذشتہ سال کے خطاب پر اظہار تشکر کی قرارداد پیش کی جاتی ہے

اس بار بھی اس پارلیمانی روایت پر عمل ہو رہا ہے مگر بظاہر ایسا ہی معلوم ہو رہا ہے کہ اتحادی جماعتوں پر مشتمل موجودہ حکومت کے اراکین اس قرارداد پر بحث کرتے ہوئے ان دعوؤں کو دہرائیں گے کہ صدر مملکت ’اپنی ذمہ داریاں اپنے حلف کے تحت آئینی طریقوں سے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔‘

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے ایک سو تیئیس ارکان نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے رکھا ہے یعنی اب وہ اس قرارد پر ہونے والی بحث میں حصہ نہیں لیں گے اور اس قراردار میں جو لکھنا یہ کہنا ہو گا وہ ایوان میں موجود جماعتوں نے ہی کرنا ہے جن کی صدر عارف علوی سے متعلق رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے

صدر عارف علوی نے موجودہ حکومت کو جو سب سے پہلا سرپرائز دیا تھا، وہ عین اس دن دیا جب شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انھیں صدر پاکستان سے حلف لینا تھا مگر ایوان صدر سے یہ خبر آئی کی صدر عارف علوی کی ”اچانک طبیعت خراب ہو گئی ہے“ جس کی وجہ سے وہ مختصر رخصت پر جا رہے ہیں

صدر کی غیر موجودگی میں وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حلف لیا

مگر یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صدر عارف علوی موجودہ حکومت کے لیے کس قسم کی مشکلات اور رکاوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں؟ اور اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کے لیے صدر کو ان کے عہدے سے ہٹانا کس قدر مشکل ہوگا؟

جنرل ایڈوائس میں تاخیر

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس سیاسی بحران کا کوئی بہتر حل نہیں نکلتا تو ایسے میں ایوان صدر موجودہ حکومت کے لیے درد سر بنا رہے گا

سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ اس کی تازہ مثال تو یہ ہے کہ اس وقت صدر پاکستان کی وجہ سے پنجاب کے نئے منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز حلف بھی نہیں اٹھا سکے ہیں، جو وزیراعظم کے صاحبزادے ہیں

ان کے مطابق جب وزیراعظم نے گورنر پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی ایڈوائس صدر کو بھیجی تو انھوں نے اس پر فوری عمل نہیں کیا

خیال رہے کہ پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے اور اس وجہ سے انھوں نے اپنے اختیارات بھی کسی کو تفویض نہیں کیے ہیں، جس کی وجہ سے پنجاب کے نو منتخب وزیراعلیٰ ابھی اپنے حلف کے انتظار میں ہیں

پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کے مطابق شہباز شریف کے لیے یہ صورتحال اس وجہ سے بھی زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ ان کی بار تو صدر چیئرمین سینیٹ سے حلف لینے میں رکاوٹ نہیں بنے مگر اب ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی معاملے میں گورنر کو کسی کو حلف لینے کی اجازت بھی نہیں دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر فوری عمل کر دیتے تو یہ مشکل آسان ہو سکتی تھی

سلمان اکرم راجہ کے مطابق ویسے عام تاثر تو یہ ہے کہ صدر کا عہدہ محض ایک ’ڈاکخانہ‘ ہے لیکن ان کو حاصل آئینی اختیارات پر اگر نظر دوڑائی جاتے تو وہ حکومت کے کئی ضروری معاملات کو مختصر مدت کے لیے لٹکا سکتے ہیں اور اہم فیصلوں میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں

ان کے مطابق جب صدر کو وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے کوئی سمری منظوری کے لیے ارسال کی جاتی ہے تو صدر پاکستان کے آفس کو آئینی طور پر اس پر فیصلے کے لیے پندرہ دن کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد صدر مملکت اس سمری کو از سر نو جائزے کے لیے واپس دوبارہ وزیراعظم یا کابینہ کو بھیج سکتے ہیں

ان کے مطابق دوبارہ جائزے میں کم از کم ایک دن تو لگ جاتا ہے اور اگر پھر بھی وزیراعظم اور کابینہ کی سمری وہی ہو تو بھی صدر مزید دس دن تک اس پر سوچ و بچار کر سکتے ہیں

سلمان اکرم راجہ کے مطابق یوں صدر کسی بھی معاملے کو تقریباً ایک ماہ تک تاخیر کا شکار بنا سکتے ہیں۔ ’یہ نظام میں ایک بڑا تضاد ہے۔‘

قانون سازی میں تاخیر

سلمان اکرم راجہ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب صدر کے پاس منظوری کے لیے کوئی بل بھیجا جاتا ہے تو وہ دس دن تک اس پر اپنی رائے دینے کا اختیار رکھتے ہیں، اور منی بل (بجٹ) کے علاوہ دس دن بعد بھی صدر پاکستان اس بل کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں قانون سازی کی منظوری کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانا ضروری ہو جاتا ہے

ان کے مطابق مشترکہ اجلاس بلانے میں بھی کم از کم دس سے بارہ دن لگ جاتے ہیں

سلمان اکرم راجہ کے مطابق تحریک انصاف کے سینیٹ میں ارکان مشترکہ اجلاس میں مزید تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگر سیشن منعقد ہو بھی جائے تو ایسی صورت میں بل کی سادہ اکثریت سے منظوری سے قبل وہ طویل تقریروں کے ذریعے ایسے اجلاس کو مزید طوالت دے سکتے ہیں

یوں ایک قانون کو عملی شکل دینے میں کم از کم ایک ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگر حکومت کسی اور جماعت کی ہی ہو تو پھر صدر کا عہدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا ہوتا ہے

احمد بلال محبوب کے مطابق بظاہر تحریک انصاف کی مجموعی حکمت عملی یہی ہے کہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جائے اور جس حد تک ممکن ہو نئی حکومت کے کام میں رکاوٹ ڈالی جائے

حکومت کیا سوچ رہی ہے؟

نواز لیگ کے سینیئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صدر عارف علوی نے ایک متوازی انتظامیہ بنا رکھی ہے

اُنہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کی خدمات نئے وزیراعظم کو درکار نہیں ہیں مگر پھر بھی صدر غیرآئینی طور پر گورنر کو کام جاری رکھنے کی ہدایات جاری کر رہے ہیں

ان کے مطابق اس وقت جو صورتحال ہے، اس میں صدرعارف علوی سمیت ان کے ساتھیوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ حالات کو لاقانونیت کی طرف لے جائیں

اس سوال پر کہ، کیا موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت صدر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اب مواخذے کا طریقہ کار باقی رہ جاتا ہے اور اس کے لیے ابھی حکومتی اتحاد کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے

صدر کو ان کے عہدے سے ہٹانا کتنا مشکل ہوگا؟

قانونی ماہرین کے مطابق صدر کو آسانی سے گھر نہیں بھیجا جا سکتا ہے اور موجودہ پارٹی پوزیشنز کو دیکھتے ہوئے حکومتی جماعتوں کا صدر کا مواخذہ کرنا تقریباً ‘ناممکن’ نظر آتا ہے

ان کے مطابق صدر کے مواخذے کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ) کے کل ممبران کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اگر نمبر گیم پر نظر دوڑائی جائے تو پھر ایسے میں صدر کو حکومت سے کوئی خطرہ نہیں ہے

اس وقت قومی اسمبلی میں کل 342 نشستیں ہیں جبکہ 100 سینیٹرز ہیں، جن میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی تعداد 26 بنتی ہے

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل 442 کے ارکان میں سے صدر کے مواخذے کے لیے تقریباً 296 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس وقت حکومت کے پاس تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ملا کر بھی قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 197 تک ہی بنتی ہے

احمد بلال محبوب کے مطابق یہ صدر کے آفس کو حاصل آئینی تحفظ ہے جو انہیں اپنے امور کی انجام دہی کرنے میں مدد دیتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close