تخت و تاج سے اب بچے کھیلتے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ

فرانسس بیکن Francis Bacon کہتا ہے ”پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو، باقی چیزیں یا تو مل جائیں گی یا ان کی کمی کا احساس بھی نہ ہوگا“ افلاطون کہتا ہے کہ انسانی عمل کے بڑے بڑے ماخذ تین ہیں: خواہش، جذبہ اور علم۔ خواہش کا مرکز جسم ہے، جذبے کا مرکز دل ہے، اور علم کی مسند دماغ ہے۔ یہ قوتیں اور اوصاف سبھی انسانوں میں ہوتے ہیں، اختلاف مدارج کا ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں ان کی بے قرار اور آرزو مند روحیں ہر وقت تعیش اور نام و نمود کی آرزو کی بھٹی میں جلتی رہتی ہیں۔

اس لیے انہیں جو کچھ بھی حاصل ہوتا ہے، اس پر کبھی خوش نہیں ہوتیں، ہمیشہ اور کی خواہش مند رہتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جو جذبے اور شجاعت سے لبریز ہوتے ہیں۔ دنیا کی بری فوجوں اور بحری بیڑوں کے سپاہی ان ہی لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سب سے آخر میں تھوڑے سے آدمی وہ بھی ہوتے ہیں، جو سوچ و بچار میں خوش رہتے ہیں۔ ان کو نہ تو متاعِ دنیاوی کی ضرورت ہوتی ہے نہ میدانِ جنگ میں فتح کی، یہ صداقت کی جنت میں رہتے ہیں۔ انسانی تاریخ ہمیشہ ہی سے خواہشات کے ہاتھوں زخمی ہوتے آ رہی ہے۔ انسانی تاریخ کا ہر صفحہ خواہشات کے ہاتھوں لہو لہان ہے۔

آئیں! تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو لہو سے رنگتے ہیں۔ یورپ میں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک شخصی تسلط اور مذہب کے نام پر انسانوں پر کون سا ایسا ظلم ہے، جو روا نہ رکھا گیا لیکن آج وہ تمام اذیت گاہیں عجائب گھروں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ وہ محلات، وہ جیلیں، وہ قید خانے، وہ عبادت گاہیں، جہاں ہزاروں انسانوں کو چند انسان ذلیل و خوار کرتے پھرتے تھے، جہاں چند انسان اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے، آج ان کی ویرانیاں دیکھ کر وحشت ہونے لگتی ہے اور ان خداؤں کی اب صرف ہڈیاں ہی صحیح سلامت ہیں باقی جسموں سے لے کر تخت و تاج، جاہ و جلال اور شان و شوکت سب کے سب فنا ہو چکے ہیں اور صرف ان کی نشانیاں باقی ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے جب آج کا آزاد، بااختیار، خود مختار، خوشحال انسان چند سو کا ٹکٹ خرید کر ان محلات، ان قید خانوں، ان عبادت گاہوں میں داخل ہوتا ہے تو تصویروں میں موجود بادشاہوں، پجاریوں کے سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتے ہیں. در و دیوار کانپنے لگ جاتے ہیں۔

ایک وہ وقت تھا جب ان جگہوں پر عام انسانوں کا داخلہ حرام تھا کیونکہ ان جگہوں میں انسان نہیں بلکہ ’خدا‘ رہتے تھے۔ آج وہ سب تخت و تاج خداؤں سے خالی پڑے ہیں، وہ سب تخت و تاج آج عام انسانوں کو دیکھ دیکھ کر خوف سے لزرتے رہتے ہیں۔ وہ جھوٹی شان و عظمت اور جاہ و جلال کی نشانیوں سے آج بچے اور بڑے کھیلتے پھرتے ہیں، انہیں پہنتے پھرتے ہیں، انہیں اچھالتے پھرتے ہیں۔ وہ عیش و عشرت کی خواب گاہیں جہاں معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا، آج ویران پڑی ہوئی ہیں۔۔ وہ اذیت گاہیں اور قید خانے، جہاں سے سارا وقت انسانی چیخوں کی آواز آتی رہتی تھیں، جہاں معصوم اور بے گناہ انسان بلک بلک کر روتے تھے، آج ان اذیت گاہوں اور قید خانوں کے در و دیوار کی چیخیں آپ کو صاف سنائی دیتی ہیں۔ ان کے رونے کی آوازیں آپ صاف سن سکتے ہیں ان کی معافیاں آپ کو ہلا دیتی ہیں اور آپ کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ چاروں طرف سے ہوا آنا بند ہو گئی ہے اور آپ گھبرا کر وہاں سے باہر نکل آتے ہیں اور کھلی فضا میں آجاتے ہیں، اس احساس کے ساتھ کہ ہم جیت گئے ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں گئی۔ ہماری تکلیفیں اور ہماری اذیتیں بے نام نہیں رہیں، ہم سب جیت گئے آج ہم سب آزاد ہیں، آج ہمیں تمام زمینی خداؤں سے نجات مل چکی ہے۔

دوسری طرف جب ہم آج پاکستان کو دیکھتے ہیں تو حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ ہی سب کچھ جو صدیوں پہلے یورپ میں ہورہا تھا، وہ ہی سب کچھ آج یہاں ہو رہا ہے۔ بس صرف فرق اتنا سا ہے کہ وہ تو سب کے سب کردار اصلی تھے، اصلی بادشاہ، اصلی ملکہ، اصلی شہزادیاں، اصلی شہزادے، اصلی نوکر چاکر، اصلی مشیر اور وزیر اعلیٰ، پجاری۔ لیکن ہمارے ہاں تو سب کے سب نقلی ہیں، سب کے سب اداکار ہیں، سب کے سب بہروپیے ہیں، کوئی بادشاہ بننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے تو کوئی وزیر اور مشیر کی۔۔ کوئی شہزادہ بنا ہوا ہے تو کوئی شہزادی۔ ان ہی کی طرح سے رہنا، کھانا، بیٹھنا، اٹھنا، لوٹ مار کرنا، دورے کرنا، فیصلے اور حکم صادر کرنا، رعایا پر ظلم و ستم کرنا لوگوں کو ذلیل وخوار کرنا، لوگوں کو تکلیفیں اور اذیت پہنچانا۔۔ یہ سب کچھ ان ہی کی طرح کرنے کی ایکٹنگ میں مصروف ہیں۔ وہ ہی جھوٹی شان و شوکت، وہی جاہ و جلال، وہی عیش و عشرت، وہی لوٹ مار، سب کچھ وہی اور ویسا ہی کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ وہ سب اصلی تھے اور ہمارے سار ے کردار نقلی ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو تاریخ کے شاگرد ہیں، وہ ہمارے سب کرداروں کی ایکٹنگ دیکھ دیکھ کر مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔۔ وہ کہتے ہیں نمبر دو تو پھر بھی ٹھیک ہوتے ہیں، یہ تو دس، بیس، تیس، چالیس نمبری ہیں۔۔ نقلی، ڈھونگی، بہروپیے، اصلیوں کے انجام سے بے خبر، عقل کے اندھے، تاریخ کے جاہل آپ اپنے آپ کو اصلی ثابت کرتے نقلی کردار۔۔

ہنری برگساں نے کہا ہے ”کسی انسان کے لیے اس چیز کو جاننا ناممکن ہے، جس کے متعلق سوچتا ہو کہ وہ اسے پہلے سے معلوم ہے“ جبکہ ولیم شیکسپیئر کہتا ہے ”آنکھ وہ ہی کچھ دیکھتی ہے جسے سمجھنے کے لیے ذہن تیار ہو“ اس لیے آؤ اس سے پہلے وقت گذر جائے، بیکن کی اس بات پر کہ ”پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو“ پر عمل کر لیتے ہیں اور اگر ہو سکے تو اس سے پہلے گزرے اصل کرداروں کی اجڑی قبروں کا مشاہدہ ضرور کر لیں اور ان کے انجام پر ضرور نظریں ڈال لیں۔

ارواح پر کڑا ایمان رکھنے والے عظیم یونانی مفکر ایمپی ڈوکلیز نے اعلان کیا تھا ”گناہ گاروں کو تیس ہزار موسموں تک مختلف جسموں میں جنم لینا ہوگا اس سزا سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔“ اب ہمارے کرتا دھرتاؤں پر منحصر ہے کہ انہوں نے اپنے لیے کیا سوچ رکھا ہے۔ ذہن میں رہے خواہشیں مرنے کے بعد مر جاتی ہیں اس کے بعد نہ تو آپ کے عہدے کسی کام کے رہتے ہیں نہ شان و شوکت اور نہ ہی خزانے کام آتے ہیں، پھر صرف اور صرف آپ کے اعمال کے مطابق آپ کا حساب کتاب ہوتا ہے۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close