کئیف – کہا جا رہا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے دو ماہ کے اندر سینکڑوں روسی ٹینک تباہ ہوئے ہیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکا
دفاعی اُمور کے ماہر بڑی تعداد میں روسی ٹینکوں کی تباہی کی وجہ ان جدید ٹینک شکن ہتھیاروں کو قرار دے رہے ہیں جو مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کو فراہم کیے گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ روس کی جانب سے ٹینکوں کے استعمال کی حکمتِ عملی بھی بتائی جا رہی ہے
روسی ٹینک کتنی تعداد میں تباہ ہوئے ہیں؟
یوکرین کی مسلح افواج کا دعویٰ ہے کہ روس کے اب تک 680 ٹینک تباہ ہو چکے ہیں
’اورکس‘ فوجی اور انٹیلیجنس امور کے بارے میں معلومات شائع کرنے والا بلاگ ہے، جو تصویری شواہد کی بنا پر روس کو یوکرین میں ہونے والے عسکری نقصانات کے اعداد و شمار اکھٹے کرتا ہے
اس کے مطابق اب تک کی لڑائی میں روس کی تقریباً 460 ٹینک اور دو ہزار بکتر بند گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں
رینڈ کارپوریشن اور آئی آئی ایس ایس کے مطابق جنگ کے آغاز میں روس کی حملہ آور فوج کے پاس تقریباً دو ہزار سات سو جنگی ٹینک موجود تھے
ٹینک شکن ہتھیار کتنے مؤثر ثابت ہوئے ہیں؟
روس، یوکرین تنازع کے آغاز میں امریکا نے یوکرین کو دو ہزار جیولن ٹینک شکن میزائل فراہم کیے تھے۔ جبکہ جنگ کے دوران یوکرین کو مزید دو ہزار اسی نوعیت کے ہتھیار فراہم کیے ہیں
برطانیہ کی جانب سے یوکرین کو اب تک تین ہزار چھ سو ’این لا‘ میزائل فراہم کیے گئے ہیں
جیولن میزائل بنانے والی کمپنی ’لاک ہیڈ مارٹن‘ کے مطابق یہ میزائل ٹینک کے عین اوپر جا کے پھٹتے ہیں، یاد رہے کہ کسی بھی ٹینک کا سب سے اوپری حصہ ٹینک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ اور اگر ٹینک کے اوپری حصے کو نشانہ بنایا جائے تو نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے
اکثر روسی ٹینکوں میں دھماکوں اور میزائلوں سے بچنے کے لیے بھی نظام موجود ہوتا ہے، جو ان میزائلوں کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
تاہم جیولنز میں دو وارہیڈز نصب ہوتے ہیں۔ ایک اس ری ایکٹو آرمر کو تباہ کرتا ہے، جو اسے سہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسرا ٹینک کے ڈھانچے میں داخل ہو کر اسے تباہ کر دیتا ہے
اسی طرح برطانوی این لا میزائلوں میں بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہ ٹینک کے عین اوپر سے گزرتے ہوئے پھٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
اس بارے میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (آر یو ایس آئی) میں زمینی جنگ کے تحقیقی تجزیہ نگار نک رینالڈز کہتے ہیں ”جیولین اور این لا میزائل بہت طاقتور ہیں۔ اور مغربی ممالک سے ملنے والی اس مہلک امداد (ٹینک شکن میزائل) کے بغیر یوکرین کی صورتحال بہت مختلف ہوتی“
امریکا یوکرین کو ایک سو سوئچ بلیڈ ٹینک شکن ڈرون بھی فراہم کر رہا ہے
انہیں ’کامیکاز‘ ڈرون کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ آپریٹر سے میلوں دور ہدف پر منڈلا سکتے ہیں اور پھر ٹینک کے اوپر گر سکتے ہیں، اور اپنی نوک پر موجود وار ہیڈ سے ان ٹینکس کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
اس کے لیے روسی حکمت عملی کتنی قصوروار؟
آج کل روسی فوج بٹالین ٹیکٹیکل گروپس (بی ٹی جیز) کی شکل میں کام کرتی ہے، جو کہ ٹینکوں، پیادہ فوج اور توپ خانے پر مشتمل اپنے آپ میں ایک خودکفیل جنگی یونٹ ہیں
ان یونٹوں کی صحیح ساخت مختلف ہو سکتی ہے، لیکن عام طور پر ان میں بکتر بند گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے، لیکن نسبتاً کم پیدل دستے ہوتے ہیں
سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں اسٹریٹجک اسٹڈیز کے پروفیسر فلپس او برائن کا کہنا ہے ”روس کے پاس ہمہ وقت تیار نسبتاً کم فوجی ہیں، لہٰذا بی جی ٹیز بہت سے نقصانات کے ساتھ ایک لڑاکا یونٹ بنانے کا ایک طریقہ ہے“
وہ کہتے ہیں ”انہیں بہت زیادہ اسلحے کے ساتھ تیزی سے حملہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ تاہم پیدل دستوں کے لحاظ سے انہیں بہت کم تحفظ حاصل ہے کہ اگر بکتر بند کالم حملہ کی زد میں آئے تو وہ جوابی کارروائی کر سکیں“
”یہ روسی فوج کو ایک ایسے باکسر کی طرح پیش کرتا ہے، جس کے دائیں بازو میں بہت قوت ہے لیکن اُس کا جبڑا شیشے کا ہے“
پروفیسر اوبرائن کا کہنا ہے ”روسی فضائی گشت کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کے فوجیوں کے لیے روسی ٹینکوں کے کالموں پر گھات لگا کر حملہ کرنے کی پوزیشنوں میں جانا آسان ہو گیا“
وہ کہتے ہیں ”روس کو جنگ کے آغاز میں فضائی بالادستی حاصل نہیں تھی اور اس لیے وہ یوکرین کی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہوئے آسمان میں (فضائی) گشت نہیں کر سکتے تھے. اس کا مطلب ہے کہ یوکرین کے فوجی گھات لگانے کے لیے اچھی فائر پوزیشنز میں داخل ہونے میں کامیاب رہے اور اس طرح وہ (روس کو) کافی نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے“
روس کی ناقص حکمت عملی سے اسے کتنا نقصان ہوا ہے؟
اوریکس کے اعداد و شمار کے مطابق روس نے جتنے ٹینک گنوائے ہیں، ان میں سے نصف کو دشمن نے تباہ یا نقصان نہیں پہنچایا بلکہ انہیں پکڑ لیا گیا ہے یا انہیں (روسی فوجیوں کی جانب سے) چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی گئی ہے
ماہرین نے اسے لاجسٹک ناکامیوں، اور روسی فوجیوں کی نااہلی قرار دیا ہے
پروفیسر اوبرائن کہتے ہیں ”آپ نے روسی ٹینکوں کو یوکرین کے کسانوں کے ٹریکٹروں کے ذریعے گھسیٹتے ہوئے دیکھا ہے. ان میں سے کچھ ٹینکوں کو چھوڑ دیا گیا تھا کیونکہ اِن کا ایندھن ختم ہو گیا تھا۔ یہ ایک لاجسٹک ناکامی ہے۔ کچھ موسمِ بہار کے وقت کیچڑ میں پھنس گئے، کیونکہ ہائی کمان نے سال کے غلط وقت پر حملہ کیا“
روسی کے نک رینالڈز کا کہنا ہے کہ ’روس کی زمینی افواج بہت ساری جبری بھرتیوں اور معمول کی بھرتیوں پر مشتمل ہیں۔ یہ انہیں، عالمی لحاظ سے ایک کم سے درمیانے درجے کی لڑاکا فوج بناتی ہے“
انہوں نے کہا ”بہت سے ٹینک خراب ڈرائیونگ کی وجہ سے چھوڑ دیے گئے۔ کچھ پلوں کے باہر سے نکلے جبکہ باقی گڑھوں میں چلے گئے کہ ان کے ٹریک ہی اتر گئے۔ فوجیوں میں اپنے آلات کو استعمال کرنے کی صلاحیت کا فقدان رہا“
”لیکن اکثر معاملوں میں فوجی جو اپنی گاڑیاں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ان میں لڑنے کی قوت ارادی کی بھی کمی ہوتی ہے“
یہاں تک کہ یوکرین کی حکومت نے یہ ہدایات بھی جاری کی ہیں کہ شہری لاوارث فوجی گاڑیوں کو کس طرح لے جا سکتے ہیں
اور حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ جس کسی کو بھی ایسی ”جنگی ٹرافیاں“ ملی ہیں، انہیں ٹیکس کے مقاصد کے لیے ان کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے.