سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا سے، حیران کن ایجادات اور تحقیقات

ویب ڈیسک

کروڑوں سال قدیم جانور کی بصارت پر مبنی انقلابی کیمرا

ہم انسانوں نے لاتعداد ایجادات جانوروں سے متاثر ہوکر تخلیق کی ہیں ۔ اب کروڑوں سال قبل سمندری مخلوق کو دیکھتے ہوئے انقلابی کیمرے بنائے جاسکتے ہیں

اب سے پچاس کروڑ سال قبل سمندروں پر ٹرائلوبائٹس کا راج تھا، جو اب ختم ہوچکے ہیں۔ یہ جانور اپنی مرکب (کمپاؤنڈ) آنکھوں کی وجہ سے وسیع رقبے پر دیکھ سکتے تھے۔ یعنی ایک آنکھ میں دس سے لے کر ہزاروں انفرادی یونٹ تھے جن میں سے ہر گوشے کا اپنا قرنیہ، اپنا لینس اور روشنی محسوس کرنے والے مخصوص خلیات ہوتے تھے

لیکن ٹرائلوبائٹ کی ایک قسم ’ڈالمنٹینا سوشائلس‘ اس ضمن میں قدرے مختلف ہے۔ اس کی آنکھوں میں قریب اور دور دکھانے والے دوطرح کے بائی فوکل لینس تھے۔ یہ لینس کیلسائٹ پرمبنی تھے جو روشنی کو مختلف زاویوں سے دکھاتے تھے۔ اس طرح یہ کیڑا نہ صرف قریب تیرنے والے شکار کو دیکھ سکتا تھا بلکہ اسی عمدگی سے دور سے آنے والے شکار کو بھی نظر میں رکھتا تھا

اسی بنا پر نیشنل انسٹیٹیوٹ اف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی (این آئی ایس ٹی) کے ماہرین نے ایک چھوٹا کیمرہ بنایا ہے بائی فوکل لینس پر مبنی ہے اور فیلڈ کی گہرائی کی غیرمعمولی انداز میں تصویر لیتا ہے۔ اس طرح بہت دوری سے بھی شاندار تصویر لی جاسکتی ہے۔ یوں ایک ہی کیمرے سے تین سینٹی میٹر قربت سے لے کر پونے دو کلومیٹر دوری تک کی فوٹو کھینچی جاتی ہے

اس کے لئے عین ٹرائلوبائٹ کی آنکھ کی نقل کی گئی ہے۔ یعنی بہت سارے لینس ایک جگہ پر رکھے گئے ہیں۔ تمام لینس کے گچھے کو میٹا لینس کہا گیا ہے۔ ہر لینس روشنی کو اپنے اپنے انداز اور زاویئے سے وصول کرتا ہے۔ میٹا لینس کی تیاری کمیں دسیوں لاکھوں مستطیل نما چھوٹے چھوٹے لینس بنائے گئے ہیں۔ نینوپیمانے کے یہ لینس ٹائٹانیئم آکسائیڈ سے بنے ننھے ستون پر ٹکے ہیں۔ ہر ستون کچھ اسطرح مرتب کیا گیا ہے کہ وہ ایک جانب مائیکرولینس بن جاتا ہے تو دوسری جانب دور دیکھنے والے ٹیلی فوٹو لینس بھی بن جاتا ہے

اب حاصل شدہ روشنی کو ایک جدید کمپیوٹر سافٹ ویئر سے گزارا جئیگا۔ اس طرح ایک بہترین اور واضح تصویر سامنے آتی ہے جو ایک جانب تو قریب کی شے دکھاتی ہے تو دوسری جانب دو کلومیٹر دور کے منظر کو بھی واضح کرتی ہے۔ یوں بہت جلد ہم ایک ہی تصویر میں دور اور قریب دونوں کے عکس لے سکتے ہیں

دنیا کا سب سے چھوٹا اور تیزرفتار پاوربینک

ماچس کی ڈبیا سے کچھ بڑا یہ آلہ دنیا کا طاقتور ترین اور تیزرفتار پاوربینک ہے جو کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ انڈی گوگو سے سرمایہ کاری کے تمام مراحل عبور کرچکا ہے

اس کا نام ’ایئربینک‘ رکھا گیا ہے جومقناطیس کے بغیر کسی بھی فون کی پشت سے جڑسکتا ہے۔ اس کے اندر ایک طرح کا سکشن (چپکنے والا) نظام ہے جو اسے کسی بھی سطح سے چپکنے میں مدد دیتا ہے اور اسی بنا پر یہ 5500 ایم اے ایچ قوت سے فون کو برق رفتار چارجنگ فراہم کرتا ہے

اسے دنیا کا سب سے چھوٹا وائرلیس پاور بینک کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہےکہ دورانِ چارجنگ اس کے سہارے بھاری اسمارٹ فون بھی ٹک سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایئربینک کے بدولت اب بھاری بھرکم اور بڑے پاوربینک کی ضرورت نہیں رہتی۔ پھر تاروں سے جوڑنے کی ضرورت بھی ختم کردی گئی ہے

پاور بینک کی پشت پر نرم ربر کے گول سکشن پمپ لگائے گئے ہیں جن سے وہ فون پر چپک جاتا ہے۔ اس کے دو فائدے ہیں کہ اول تو مقناطیس ہر فون پر چپک نہیں سکتا اور دوم اس عمل میں چارجنگ بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ جبکہ ایئربینک میں یہ عمل نہ ہونے کے برابر ہے

اس طرح یہ کسی بھی فون سے منسلک ہوکر اسے تیزی سے چارج کرسکتا ہے جبکہ دیگر فون کے لیے اس میں تار بھی شامل کیا گیا ہے۔ دنیا کے سب سے چھوٹے پاوربینک سے بھی 30 فیصد چھوٹا ہے لیکن اس کی کارکردگی دوگنا ہے۔ اسے بنانے والی کمپنی اومارکو کا کہنا ہے کہ ایئربینک کو ہرطرح کی سخت آزمائش سے باربار گزارا گیاہے

اسی طرح تجربہ گاہ اور حقیقی زندگی میں اسے کئی لوگوں نے ایک عرصے تک ٹیسٹ کیا ہے اور اس کے بعد ہی مصنوعات کی فروخت شروع کی گئی ہے

ایئربینک کی قیمت 78 امریکی ڈالر رکھی گئی ہے.

ہلدی سے ماحول دوست فیول سیل بنانے میں پیشرفت

ہمارے باورچی خانے میں عام پائی جانے والی ہلدی سے مؤثر ایندھنی سیل اور بیٹریاں بنانے کی راہ ہموار ہوئی ہیں

بھارت میں سری ساتھیا سائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائرلرننگ اور کلیمسن نینومٹیریئل انسٹی ٹیوٹ ( سی این آئی) نے ہلدی میں موجود ایک جزو کرکیومِن کو جب سونے کے نینوذرات سے ملایا تو انہیں نے اس سے ایک ایسا الیکٹروڈ بنایا جو ایتھانول کو بہت تیزی سے بجلی میں بدلتا ہے اور اس میں روایتی طریقوں سے 100 درجے کم توانائی لگتی ہے

اس اہم پیشرفت سے ہائیڈروجن فیول سیل کی منزل اور قریب آگئی ہے تاہم تجارتی پیمانے پر تیاری کے لئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ سی این آئی کے سربراہ ڈاکٹر اپارو راؤ نے کہا کہ الکحل کی آکسیڈیشن کے لیے جو عمل انگیز (کیٹے لسٹ) درکار ہوتے ہیں ان میں سے کرکیومن والے نینوذرات سب سے مؤثر ثابت ہوئے ہیں

ہم جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن جیسے فیول سیل میں احتراق (کمبسشن) کی بجائے کیمیائی تعاملات سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ اس سے بالخصوص کاریں، دیگر آلات اور بیک اپ پاور نظام بنایا جاتا ہے۔ اس فہرست میں ہائیڈروجن ایندھی (فیول) سیل کم خرچ اور ماحول دوست ثابت ہوئے ہیں

قدرتی طور پر ہائیڈروجن ایک مرکب کی صورت میں ملتا ہے اور اسی وجہ سے اسے قدرتی گیس اور ایندھن سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اب روایتی طریقوں سے ہائیڈروجن بنانے کی قیمت ماحولیاتی اثرات کی صورت میں ادا کی جاتی ہے

پھر ہائیڈروجن کو سیلنڈر میں بھرکر رکھنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس کے مقابلے میں مکئی، گنے اور دیگر اجناس سے الکحل کی ایک قسم ایتھانول سے ہائیڈروجن کشید کرنا قدرے آسان عمل ہے کیونکہ اس سے مائع ہائیڈروجن ملتی ہے۔ لیکن اس میں بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس الیکٹروڈ (برقیرے) بہت مؤثر ہوں اور اس میں ہلدی کا بہترین کردار سامنے آیا ہے۔ یہ الیکٹروڈ کم خرچ اور ماحول دوست ہیں

اس سے قبل برقیروں میں پلاٹینم بھی استعمال کیا گیا ہے لیکن وہ پورے عمل میں آکسیڈیشن کے دوران زہریلے مرکبات کی وجہ بنتا ہے اور ایک طرح سے کاربن مونوآکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ اب سونے کے انتہائی باریک ذرات میں ہلدی کا کیمیکل کرکیومن ملایا گیا ہے اور وہ ایک بہترین الیکٹروڈ ثابت ہوا ہے۔ اس عمل میں نینوذرات سے ایک برقیرہ بنایا گیا اور اس پر کرکیومِن کی چادر چڑھائی گئی ہے

توقع ہے کہ اس کم خرچ عمل سے ماحول دوست اور ارزاں ایندھنی سیل بنائے جاسکیں گے۔ دوسری جانب ایندھنی سیل کے علاوہ بھی ان سے حساس سینسر بنائے جاسکتے ہیں جو طبی استعمال میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ایک تجربے میں اس سے دماغ میں ڈوپامائن کی کمی بیشی کو نوٹ کرنے کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close