وزیرستان سے تعلق رکھنے والے افراد خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں احتجاجی دھرنا دے رہے ہیں اور اس احتجاج میں شامل لوگوں کا مطالبہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان سے افغانستان میں کیے گئے حملے کے واقعہ کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رحمت غلام کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کے سرحدی علاقے میں وزیرستان کے لوگوں پر جس طرح بمباری کی گئی ہے وہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے، اس میں خواتین بچے اور بزرگ مارے گئے ہیں، ہم اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں‘
اس دھرنے میں شامل مقامی رہنما رحمت غلام نے بتایا کہ وہ انصاف چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ایک کمیشن قائم کیا جائے جو اس واقعہ کی تحقیقات کرے اور اس کے علاوہ افغانستان میں جو لوگ نقل مکانی کر کے چلے گئے تھے، انہیں عزت کے ساتھ واپس لایا جائے اور انہیں اپنے علاقوں میں آباد کیا جائے
ان کا کہنا تھا کہ انہیں احتجاج کرتے ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہوگیا ہے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی اور نا ہی حکومت نے ان کے ساتھ کوئی رابطہ کیا ہے
معاملہ کیا ہے؟
وزیرستان میں موجود ایک شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے خاندان کے آدھے لوگ افغانستان کے علاقے خوست میں آباد ہیں جبکہ کچھ یہاں پاکستان میں رہتے ہیں۔ اسی مہینے کی 16 تاریخ کو رات تقریباً دو اور تین بجے کے درمیان اچانک افغان دبئی کے مقام پر فضائی طیارے نے بمباری کی اور وہاں مکانات کو نشانہ بنایا
شہری کے بقول، انھیں ان کے رشتہ داروں نے بتایا کہ جس مکان پر حملہ کیا گیا وہاں تقریباً 27 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد وہاں موجود لوگ مدد کو پہنچے تاکہ زخمیوں اور لاشوں کو نکالا جا سکے۔ ابھی یہ عمل جاری تھا کہ دوبارہ ان پر بمباری کی گئی جس میں مزید 14 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ شہری نے بتایا کہ افغانستان میں جس علاقے میں وزیرستان کے یہ لوگ مقیم ہیں یہ شہر سے دور ہے اور یہاں موبائل فون کے سگنل کام نہیں کرتے اور انھیں یہ اطلاع ان کے رشتہ داروں نے بعد میں دی ہے
انھوں نے بتایا کہ مرنے والوں اور زخمیوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں جنھیں فوری طور اپنی مدد آپ کے تحت خوست ہسپتال لے جایا گیا تھا ۔ زخمیوں میں تین افراد نے ہسپتال میں دم توڑ دیا تھا
اس واقعہ میں ہلاکتوں کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس واقعہ سے متاثر ہونے والے افراد کے رشتہ داروں کے مطابق اس حملے میں 51 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ یہاں مقامی سطح پر وزیرستان کے افراد کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 47 ہے جبکہ 20 سے زیادہ زخمی ہیں
ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان نے یہ ہوائی بمباری افغانستان کے علاقے خوست اور کنڑ کے علاقوں میں کی ہے اور بظاہر اس کارروائی کا نشانہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مراکز تھے
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس حملے میں تنظیم کے کچھ افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے میں پاکستانی طالبان کے کچھ گروہ وہاں موجود تھے جنھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا
افغان میڈیا کے مطابق پاکستان طیاروں نے مختلف مقامات پر بمباری کی تھی اور جس میں شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ پاکستان میں مقیم شہری جن کے رشتہ دار وہاں مقام ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں طالبان نہیں ہیں نہ تو ہی ٹی ٹی پی ہے اور نہ ہی حافظ گل بہادر گروپ کے لوگ یہاں رہتے ہیں، اس علاقے میں عام شہری ہیں جو نقل مکانی کرکے وہاں پہنچے ہیں
یاد رہے اس واقعہ کے بعد یونیسف کے افغانستان میں سربراہ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں بمباری سے 20 بچے ہلاک ہوئے ہیں
وزیرستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں، جہاں ان لوگوں کا جانی نقصان ہوا ہے وہاں ان کی املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے، ان لوگوں نے نقل مکانی کی اور در بدر زندگی گزاری لیکن عاقے میں حالات پھر بھی بہتر نہیں ہوئے
وزیرستان کے لوگ افغانستان میں کیسے؟
پاکستان حکومت کی جانب سے شمالی وزیرستان میں سال 2014 میں جب فوجی آپریشن شروع کیا جا رہا تھا تو علاقہ خالی کرایا گیا تھا۔ اس عمل کے دوران تقریباً دس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے اور بڑی تعداد پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پزیر ہو گئی تھی ۔ ان دنوں کچھ لوگ جو افغانستان کی سرحد کے قریب آباد تھے وہ افغانستان کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے
اس خاندان کے ایک رکن محمد وزیر(فرضی نام) نے بتایا کہ دراصل دونوں ممالک کی سرحد وزیر قبیلے کی زمین کو بھی تقسیم کرتی ہے۔ اسی قبیلے کے افراد سرحد کی دونوں جانب آباد ہیں۔ اگر ان کے مستقل مکان پاکستان میں ہیں تو ان کے عارضی مکان افغانستان میں بھی ہیں کیونکہ ان کی زمین اور چلغوزے کے باغات ادھر افغانستان میں ہیں
یہ لوگ ماضی میں عام طور پر بھی فصلوں کی کٹائی اور دیگر کاروبار کے لیے افغانستان جایا کرتے تھے جہاں کچھ خاندانوں نے اپنے عارضی مکان بھی رکھے ہوئے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے جب نقل مکانی شروع ہوئی تو یہ لوگ افغانستان کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے
حکومت پاکستان نے ان افراد کی واپسی کا آغاز گزشتہ سال دسمبر میں شروع کر دیا تھا اور سرکاری حکام کے مطابق اب تک تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار خاندان واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ ان میں ایسے خاندان جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے انھیں امداد فراہم کی جا رہی ہے
ان افراد کی واپسی کا عمل گزشتہ چار پانچ روز سے رک گیا ہے اور غلام خان کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی بند ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اب تک یہ معلوم نہیں ہے کہ افغانستان میں مزید کتنے پاکستانی آئی ڈی پیز موجود ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد سات سے آٹھ ہزار خاندان ہو سکتی ہے
سرحد پر کشیدگی
خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں بیشتر واقعات میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں سرحد کے قریبی علاقے جیسے شمالی وزیرستان کے دتہ خیل کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے سات اہلکاروں کی ہلاکت کے علاوہ سرحد پر کیپٹن اور دیگر اہلکاروں پر حملے کے واقعات شامل ہیں
شمالی وزیرستان میں دو روز پہلے بھی سرحد پر سے پاکستان کی حدود میں حملے سے سیکیورٹی فورسز کے تین اہلکار ہلاک ہو گئے تھے اسی طرح ان علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں شدت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہتی ہیں