یوکرین پر روس کے حملے سے ایک ایسا منظر نامہ کُھل کے سامنے آیا ہے جسے ’نئے آہنی پردے‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، ایک ایسا آہنی پردہ جو روس کو مغرب سے الگ کرتا ہے۔ عالمی منظرنامے کی اس تبدیلی پر ماہرین خوراک کا عالمی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں
بدھ کو عالمی بینک کے ڈائریکٹر ڈیوڈ مالپاس نے برطانوی نشریاتی ادرارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا ”یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوراک کے بحران کی وجہ سے دنیا کو ایک ’انسانی المیے‘ کا سامنا ہے“
انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر مشرقی یورپ میں جنگ جاری رہتی ہے تو خوراک کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کروڑوں لوگوں کو غربت اور ناقص غذائیت کی طرف دھکیل دے گا
عالمی بینک کو خدشہ ہے کہ عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 37 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے خاص طور پر غریب ممالک متاثر ہوں گے
اگرچہ یہ سچ ہے کہ حالیہ دہائیوں میں دوسری بڑی جنگیں بھی ہوئی ہیں، لیکن اس سے قبل کسی اور مضبوط معیشت پر اتنی شدید پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں جتنی کہ مغرب نے روس پر لگائی ہیں
ایسے میں تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں اس ’بےتحاشہ‘ اضافے سے دنیا کے کم و بیش تمام ممالک متاثر ہوں گے
یونیورسٹی آف کیمبرج کے ماحولیات، توانائی اور قدرتی وسائل کے مطالعہ کے مرکز سے منسلک، پروفیسر کرسٹین ڈیرانی کا کہنا ہے ’جنگیں خوراک کا بحران پیدا کرتی ہیں۔ شام، ایران، عراق۔۔۔ یہ تمام ممالک خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ لیکن مغرب اس (یوکرین) جنگ کے نتائج کے بارے میں خاص طور پر حساس ہے، اس میں ملوث کرداروں کی اہمیت کی وجہ سے۔‘
یہ خدشہ محض ایک تصوراتی اور خیالی موشگافیوں پر مبنی اندازہ نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں. اسے سمجھنے کے لیے کہ ہمیں خود کو باہمی انحصار کے اس پیچیدہ نظام کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جو سرد جنگ کے دور میں اُبھرا تھا اور اس نے روس کو عالمی معیشت کا ایک کلیدی کھلاڑی بنا دیا
دنیا میں خوراک کی ترسیل و تقسیم کی ’عالمی فوڈ چین‘ میں مغرب اور روس کے درمیان اتحاد اس معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوا تھا جب امریکی صدر رچرڈ نکسن سرکاری دورے پر چین گئے تھے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے اس دور کو ’پِنگ پونگ ڈپلومیسی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
یہ بات ہے سنہ 1972 کی، جب ایک طویل عرصے کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے درمیان شدید کشیدگی میں کمی کے آثار دکھائی دینے لگے
پروفیسر کرسٹین ڈیرانی کہتی ہیں کہ تب سویت یونین اور امریکہ نے ’یو ایس، سوویت گرین ایگرمینٹ‘ کے نام سے اجناس کے تبادلے کا پہلا معاہدہ کیا جس سے خوراک کے عالمی نظام میں مغربی ممالک اور روس کے درمیان باہمی انحصار کے دور کا آغاز ہوا اور یہ اب بھی قائم ہے
یہ معاہدہ سوویت یونین کی طرف سے امریکہ سے اٹھارہ ملین میٹرک ٹن گندم اور مکئی کی ’خفیہ‘ خریداری کے بعد ہوا تھا۔ ان میں کچھ اجناس امریکی حکومت کی طرف رعایتی قیمتوں پر فروخت کی گئی تھیں
اس واقعے کو تاریخ میں ’اناج کی عظیم ڈکیتی‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے
اس متنازع سودے سے امریکہ میں خوراک کی قیمتوں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، جس کے بعد سنہ 1972 میں ایک اور معاہدہ کیا گیا جس کے تحت واشنگٹن کو 80 لاکھ ٹن سے زیادہ اناج کی فروخت کرنے کے لیے پیشگی اجازت دینا ضروری ہو گیا
یہ اس زمانے کی بات ہے، جب خراب فصلوں کی وجہ سے ممکنہ قحط جیسے بحرانوں سے بچنے کے لیے سویت یونین بیرونِ ملک سے اناج درآمد کرنے پر مجبور ہو چکا تھا
روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق چند ہی برس بعد، سنہ 1979 میں امریکی انتظامیہ نے سویت یونین اتنی بڑی مقدار میں اجناس خریدنے کی اجازت دی کہ اخبار نے اسے ’تاریخ میں اجناس کی سب سے بڑی خریداری‘ کا نام دیا
اس سودے کے تحت سویت یونین نے بارہ ماہ میں دو کروڑ پچاس لاکھ میٹرک ٹن گندم اور مکئی خریدی تھی جو، اس سال میں امریکہ کی متوقع زرعی پیداوار کے دس فیصد کے برابر تھی
یہ وہ وقت تھا جب صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ امریکہ میں اجناس اور دیگر خودنی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نبرد آزما تھی
اس کے کچھ ہی عرصہ بعد، جمی کارٹر نے افغانستان پر چڑھائی کے تناظر میں سویت یونین کو اجناس کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی اور سوویت یونین نے یہ اجناس کینیڈا، ارجنٹائن اور آسٹریلیا سے خریدنا شروع کر دی تھیں
اگرچہ سنہ 1970ع کا عشرہ سویت یونین اور مغرب کے درمیان معاشی تعلقات کی بحالی کا دور تھا، تاہم یہ دور اختلافات کا شکار رہا۔
زرعی جریدے ’امیرکن جرنل آف ایگریکلچرل اکنامکس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’سنہ 1970ع کے عشرے میں سویت یونین دنیا میں اجناس کا بڑا خریدار بن چکا تھا، جس سے ان خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا کہ سویت یونین کے سرکاری تجارتی ادارے اپنے خفیہ معاہدوں کی وجہ سے مشرق و مغرب کی اس تجارت سے ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھا لیں گے۔‘
اور پھر جب سنہ 1991ع میں سویت یونین ٹوٹ گیا تو روس اور یوکرین دونوں کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی
لیکن بعد کے برسوں میں دونوں ممالک نئے معاہدوں اور سرمایہ کاری کی بدولت اپنی معیشت میں بہتری لانے میں کامیاب ہو گئے، جس کے بعد یہ دونوں بڑے برآمدگان کی بجائے دنیا میں اجناس برآمد کرنے والے ممالک بن گئے
’باہمی مفاد‘ پر استوار رشتے
یورپی پارلیمنٹ کی ایک حالیہ روپرٹ کے مطابق ’فروری 2022ع میں یوکرین پر روسی حملے تک، یورپی یونین اور روس زرعی اجناس سمیت دیگر اشیا کی بہت سی اقسام کے بڑے تجارتی شراکت دار بن چکے تھے۔‘
’سنہ 2020ع میں روس یورپی یونین کی مصنوعات کا پانچواں سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا۔۔۔ اس کے علاوہ، روس سورج مکھی کے تیل، گندم اور جُو سمیت متعدد اشیا کا ایک بڑا عالمی برآمد کنندہ ہے۔‘
یورپ اور روس کے درمیان یہ تجارتی تعاون ایک دو طرفہ شراکت داری اور تعاون کے معاہدے، پی سی اے، سے ممکن ہوا ہے جس پر روس نے سنہ 1997ع میں یورپی یونین کے ساتھ دستخط کیے تھے تاکہ دونوں فریق ایسے اقتصادی تعلقات کو فروغ دے سکیں جو باہمی مفاد میں ہوں
سنہ 2014ع میں باہمی تجارتی تعلقات کو مزید فروغ ملا، اس بار یورپی یونین کی توجہ کا مرکز سابق سویت یونین کے پڑوسی ممالک تھے، لیکن سنہ 2008ع میں یورپی یونین اور روس کے درمیان تجارتی معاہدے پر جاری بات چیت اس وقت معطل ہو گئی جب کرائمیا کا بحران شروع ہوا
کرسٹین ڈیرانی بتاتی ہیں کہ اس برس کے بعد ’روس نے خوراک میں خود انحصاری اور سابق سویت ریاستوں کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھانے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری شروع کر دی اور آنے والے وقت میں یہ ممالک اجناس کی تجارت میں اس کے سب سے بڑے ساتھی بن گئے۔ ‘
ان تمام معاہدوں اور سرمایہ کاری سے روس کو بہت فائدہ ہوا
سرمایہ کاروں نے روس آنا شروع کر دیا جو وسائل اور مشینری کے بہتر استعمال کے ساتھ ساتھ خطے میں پیداواری صلاحیت کو ریکارڈ سطح تک بڑھانے میں کامیاب رہے۔ اس دوران مارکیٹ اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں بھی اضافہ ہوا
اس حوالے سے انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سینیئر محقق جو گلابر کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں ’باقی دنیا کے ساتھ روس اور یوکرین کی تجارت میں نمایاں بہتری آئی۔‘
’یہ ایک بہت ہی بنیادی تبدیلی تھی جو بنیادی طور پر صرف دو دہائیوں میں رونما ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارکیٹ کس قدر متحرک رہی ہے۔‘
گذشتہ بیس برسوں میں روس اپنی آدھی خوراک درآمد کرنے والے سے ملک سے گندم جیسی مصنوعات کا بہت بڑا برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ آج روس ہر سال 35 ملین ٹن سے زیادہ گندم برآمد کرتا ہے، یوں وہ دنیا میں گندم جیسی اجناس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے
اقوام متحدہ کے تجارتی ڈیٹا بیس (کامٹریڈ) کے 2020ع کے اعداد و شمار کے مطابق یوکرین گندم عالمی برآمد کنندگان میں روس، امریکہ، کینیڈا اور فرانس کے بعد پانچویں نمبر پر پہنچ چکا ہے
شمالی افریقہ کے کچھ ممالک، خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کے ممالک، اپنی گندم کی فراہمی کے لیے روس اور یوکرین دونوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں
یوکرین تنازع کے بعد ان ممالک نے پہلے ہی گندم کے سپلائرز کی تلاش شروع کر دی ہے اور اب ان کا رُخ فرانس، امریکہ، ارجنٹائن اور انڈیا کی جانب ہو چکا ہے جو دنیا کے ’اناج کے بڑے اور نئے ذخیرے بن سکتے ہیں۔‘
جو گلابر کے بقول ’یورپی یونین نے لاطینی امریکہ سے اناج درآمد کرنے کے لیے ضوابط میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں، جس کے ارجنٹائن اور برازیل جیسے اجناس پیدا کرنے والے بڑے ممالک پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں
اس کے علاوہ، روس عالمی توانائی کی منڈیوں میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے نتیجے میں خام مال کی لاگت، نقل و حمل اور ذخیرہ کرنے پر اثر پڑتا ہے
بھوک کے خلاف سرگرم دنیا سب سے بڑی انسانی تنظیم، ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے کے مطابق ’دنیا کی گندم کی برآمدات کا 30 فیصد، مکئی کا 20 فیصد اور سورج مکھی کے تیل کا 75 فیصد حصہ‘ روس اور یوکرین پیدا کرتے ہیں، جس میں یوکرین کا حصہ 50 فیصد اور روس کا 25 فیصد ہے
زرعی اجناس کی پیداوار اور برآمد میں کیمیائی کھادوں کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ کھادوں کی کمی سے خوراک کی عالمی منڈی میں بحران بڑھ سکتا ہے
روس کھاد کی تین اہم اقسام برآمد کرتا ہے، نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ نائٹروجن والی کھادوں کی عالمی تجارت کا 15 فیصد بنتا ہے
کینیڈا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ، روس لاطینی امریکہ کے تمام ممالک کو کھادیں فروخت کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہے
کھادوں کی کمی کے عالمی مضمرات ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کھادوں کے استعمال میں نمایاں کمی آ سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں خراب فصلوں کی وجہ سے عالمی منڈی میں اجناس کی فراہمی اور قیمتیں بُری طرح متاثر ہو سکتی ہیں
جوں جوں یوکرین کی جنگ آگے بڑھ رہی ہے، روس اور یوکرین سے برآمد کی جانے والی اجناس اور کھادوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اس سے خوراک کی فراہمی یا فوڈ سیفٹی کے حوالے سے خدشات بڑھ سکتے ہیں
یوکرین پر روس کے حملے کے فوراً بعد یورپ بھر میں گندم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں
جو گلابر کہتے ہیں کہ ’یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ ہم عالمی منڈیوں کی بات کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ممالک بھی جو یوکرین یا روس سے اجناس اور کھادیں برآمد نہیں کرتے، وہاں بھی گندم اور سورج مکھی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگلے اٹھارہ ماہ میں (دنیا کے لیے) اس بحران کے معاشی اثرات کی قیمت ادا کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘
’خوراک کی پیداوار کے حوالے سے عالمی صورت حال بہت مشکل ہو جائے گی۔ اس سے نمٹنے کے لیے ممالک نئے راستے اور نئے خریدار تلاش کر لیں گے، لیکن اس دوران خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔‘
’مستقل قریب میں مسائل ضرور ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خوراک کی کمی کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ ہم تاریخ بتاتی ہے کہ خوراک کی عالمی منڈی دباؤ برداشت کر لیتی ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ امیر ممالک دنیا کے غریب ملکوں کی مدد کرتے ہیں یا نہیں۔‘
لیکن دوسری جانب عالمی ادارہ خواراک نے یوکرین کی جنگ سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور سنہ 2021ع میں یہ قیمتیں گذشتہ دس برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھیں
عالمی منڈیوں میں اس رجحان میں افراط زر اور کورونا کی وبا کی وجہ سے پہلے ہی تیزی آ چکی تھی
پابندیوں کے دو پہلو
بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں بلند قیمتوں اور گندم جیسی غذائی مصنوعات کے ذخیرے میں تیزی سے کمی کے اس تناظر میں، روس پر اقتصادی پابندیوں کا نفاذ تشویشناک جہت اختیار کر چکا ہے
کرسٹین ڈیرانی کے مطابق ’پابندیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق لگائی جاتی ہیں، لیکن اگر پابندیاں خوراک کے عدم تحفظ اور یہاں تک کہ عالمی بھوک کا باعث بنتی ہیں، تو وہ انسانی حقوق کے خلاف ہوں گی اور اس لیے انھیں غیر قانونی سمجھا جا سکتا ہے۔‘
اگرچہ ’روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں سے خوراک کے عدم تحفظ کا امکان نہیں ہے، لیکن مالی اور تجارتی پابندیاں، جو پوری عالمی فوڈ چین میں پیداوار اور کھپت کو متاثر کرتی ہیں، وہ پہلے سے ہی کمزور توازن کو شدید نقصان پہنچائیں گی۔‘
کرسٹین ڈیرانی کہتی ہیں کہ پابندیوں اور انسانی حقوق کے درمیان ربط قائم کرنا ضروری ہے۔ ہم ان پابندیوں کے ساتھ کہاں تک جا سکتے ہیں؟ انسانی حقوق کی خلاف ورزی جنگ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ انسانی حقوق کے اثرات انسانی نسل کی موجودہ اور مستقبل کی توقعات کو تباہ کر دیتے ہیں۔‘
جو گلابر بھی اقتصادی پابنیدوں، خوراک کی کمی اور انسانی بحران کے درمیان توازن قائم رکھنے کے حق میں ہیں
ان کے بقول ’پابندیاں ایک پیچیدہ معاملہ ہیں کیونکہ آپ ایسے تمام راستوں کو بند نہیں کر سکتے جن سے متاثرہ ممالک کوئی راستہ نہ ڈھونڈ سکیں، یوں پابندیوں کے اثرات کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب، ان پابندیوں سے ایسے اثرات بھی نہیں پڑنے چاہییں جو ہم نہیں چاہتے۔ مثلاً پابندیاں ایسی نہیں ہونی چاہییں کہ کوئی ملک خوراک جیسی بنیادی چیز بھی برآمد نہ کر سکے۔‘
جو گلابر کہتے ہیں ”لیکن فکرمندی کی بات یہ ہے کہ اگر مختلف ممالک برآمدات پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں، جیسا کہ ہم نے سنہ 2007 تا 2008 اور پھر 2010 تا 2011 میں دیکھا تھا، تو صورت حال بہت خراب ہو سکتی ہے“