کیا پاکستان میں پام آئل کی قیمتوں کو بھی آگ لگنے والی ہے؟

ویب ڈیسک

سلیم احمد اسلام آباد کے ایک علاقے میں سموسوں اور دیگر تلی ہوئی اشیا کی دکان چلاتے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے پاکستان میں آنے والی مہنگائی کی لہر میں جہاں آٹا اور دیگر اشیا مہنگی ہوئی ہیں وہیں خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اب اُن کے لیے تلی ہوئی چیزوں کی کم قیمتیں برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے

واضح رہے کہ دنیا میں پام آئل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ملک انڈونیشیا نے پام آئل کی برآمد پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے مقامی طور پر خوردنی تیل کی کمی پوری کرنی ہے، اس لیے وہ فی الوقت پام آئل کی برآمد پر پابندی عائد کر رہا ہے جس میں خام اور ریفائن شدہ تمام اقسام شامل ہیں

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے کہا کہ وہ اس پالیسی پر تب تک عمل درآمد کروائیں گے جب تک کہ مقامی مارکیٹ میں خوردنی تیل کی رسد بہتر اور قیمت کم نہیں ہو جاتی

اس کی وجہ سے خوردنی تیل کی پہلے سے بڑھتی قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور تیل درآمد کرنے والے ممالک متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں

دوسری جانب یوکرین میں جاری جنگ اور کینیڈا میں کینولا کی خراب فصل کی وجہ سے عالمی طور پر خوردنی تیل کی فراہمی پہلے ہی متاثر ہے

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق یوکرین میں جاری جنگ کے باعث مارچ میں عالمی سطح پر خوراک بشمول اجناس اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد یہ ریکارڈ سطحوں کو چھو رہی ہیں

پام آئل کہاں استعمال ہوتا ہے؟

تیل اور گھی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں شہری علاقوں کے صارفین عام طور خوردنی تیل استعمال کرتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں بناسپتی گھی کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے

ایوا کوکنگ آئل بنانے والی شجاع آباد ایگرو انڈسٹریز میں مینیجر کارپوریٹ سیلز عثمان اکبر بتاتے ہیں کہ بناسپتی گھی کی تیاری میں بنیادی طور پر پام آئل کا استعمال ہوتا ہے

عثمان اکبر مزید بتاتے ہیں کہ تلی ہوئی اشیا میں پام آئل کی ایک ریفائنڈ قسم ’پام اولین‘ کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے چنانچہ سنیکس اور ریسٹورنٹ انڈسٹری، حلوائیوں کی دکانیں اور اسی قبیل کے دیگر کاروبار پام آئل پر بڑی حد تک منحصر ہیں

اگر آپ مارکیٹ میں دستیاب مشہور برانڈز کے چپس میں اجزا کی فہرست پڑھیں تو اُن میں پام آئل آپ کو سرِ فہرست لکھا نظر آئے گا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تیل نیوٹیلا نامی چاکلیٹ سپریڈز، مشہور چاکلیٹس اور بیکنگ مصنوعات میں عام پایا جانے والا جزو ہے

کیمیا دان اور آئل سیکٹر سمیت دیگر متعلقہ شعبوں کا تجربہ رکھنے والے فراز احمد مصطفائی کہتے ہیں کہ پام آئل سے نکلنے والی دیگر مصنوعات کا استعمال موم، صابن، شیمپو، سرف، کاسمیٹکس، بچوں کی مالش کے تیل، فرنیچر پالش، اور روز مرّہ کے استعمال کی کئی دیگر اشیا میں ہوتا ہے

اُنھوں نے بتایا کہ پام آئل سے حاصل ہونے والے اجزا مثلاً سوڈیم پامیٹ، پام ایسڈ اور سٹیئرک ایسڈ وغیرہ مارکیٹ میں دستیاب کئی مشہور برانڈڈ اور بغیر برانڈ کی چیزوں میں استعمال ہوتے ہیں اور چونکہ پاکستان میں یہ تیل تقریباً مکمل طور پر باہر سے آتا ہے اس لیے ان چیزوں کی رسد اور قیمتوں پر دباؤ آ سکتا ہے

کون سا ملک کون سا تیل پیدا کرتا ہے؟

تجارتی اعداد و شمار اکٹھا کرنے والی تنظیم آبزرویٹری آف اکنامک کمپلیکسیٹی (او ای سی) کے مطابق کینیڈا دنیا میں کینولا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اسی طرح سورج مکھی کے بڑے برآمد کنندگان میں یوکرین اور روس سرِ فہرست ہیں

روئٹرز کے مطابق اکتوبر 2021 میں کینیڈا کی کینولا کی فصل تیرہ سال میں سب سے کم ہوئی نتیجتاً اس پر منحصر ممالک نے پام اور سویا بین کی خریداری بڑھائی۔ عثمان اکبر کہتے ہیں کہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے سورج مکھی کے تیل کی سپلائی پہلے ہی متاثر تھی اور اس پر کینیڈا میں کینولا کی فصل خراب ہونے کے باعث پام آئل کی قیمتوں پر دباؤ بڑھا ہے

امریکی محکمہ زراعت کے مطابق سنہ 2021 میں انڈونیشیا نے پام آئل کی عالمی پیداوار کا 59 فیصد اور ملائیشیا نے 25 فیصد پیدا کیا جبکہ او ای سی کے 2020 تک کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان نے 2.15 ارب ڈالر کا پام آئل درآمد کیا جس میں سے 1.6 ارب ڈالر مالیت کا تیل انڈونیشیا سے آیا

پاکستان کریڈٹ ریٹنگز ایجنسی (پارکا) کے مطابق سنہ 2021ع میں پاکستان نے کُل ساڑھے چونتیس لاکھ میٹرک ٹن پام آئل درآمد کیا۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق پاکستان دنیا میں پام آئل کی درآمد کا چوتھا بڑا ملک ہے جبکہ پہلے نمبر پر بالترتیب بھارت ، چین اور یورپی ممالک ہیں

اسی طرح پارکا کے مطابق پاکستان اپنی مقامی ضروریات کا صرف تقریباً 26 فیصد خوردنی تیل خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی سارا تیل دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے

پارکا کے مطابق پام آئل کی تقریباً تمام ضرورت بیرونِ ملک سے پوری کی جاتی ہے

کیا خوردنی تیل مزید مہنگا ہوگا؟

عثمان اکبر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان اپنی پام آئل کی ضروریات سب سے زیادہ انڈونیشیا اور پھر ملائیشیا سے پوری کرتا ہے، اس لیے انڈونیشیا کی جانب سے اگر یہ پابندی نہ اٹھائی گئی تو اس کے اثرات اب سے بہت جلد مارکیٹ میں نظر آنے شروع ہو جائیں گے

اسی طرح پاکستان آئل ملز میں مینیجر بلک اینڈ کنزیومر سیلز دانش حامد کہتے ہیں کہ ایسے میں پاکستان میں بناسپتی یعنی ویجیٹیبل گھی اور تلنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے تیل کا مہنگا ہونا لازمی امر ہے، جس سے بازار میں ملنے والی کھانے کی اشیا مہنگی ہو سکتی ہیں

اُنھوں نے بتایا کہ جہاں اس وقت عمومی کھلا تیل جس میں مختلف اقسام کے تیل مکس ہوتے ہیں، مارکیٹ میں 470 روپے فی لیٹر تک دستیاب ہے وہیں پام آئل 410 روپے فی لیٹر تک مل جاتا ہے چنانچہ اسے بڑے پیمانے پر استعمال کے لیے ترجیح دی جاتی ہے، تاہم شاید اب یہ صورتحال زیادہ دن تک برقرار نہ رہے

خریداری کے رجحان کے حوالے سے اُنہوں نے بتایا کہ خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات عام صارفین پر پہلے ہی اس انداز میں نظر آ رہے ہیں کہ ایک کلو تیل یا گھی خریدنے والے لوگوں نے اب اپنی خریداری نصف کلو تک کر دی ہے

صورتحال کب تک بہتر ہونے کی توقع ہے؟

اس حوالے سے عثمان اکبر کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں کینولا کی اگلی فصل اکتوبر تک تیار ہوگی اور اگر یہ اس بار اچھی ہوئی تو خوردنی تیل کی قیمتوں پر دباؤ میں کچھ کمی کی توقع ہے

اسی طرح انڈونیشیا نے کہا ہے کہ وہ خوردنی تیل کی مقامی قیمتوں میں کمی کے بعد پام آئل کی برآمد پر پابندی ہٹانے کا ارادہ رکھتا ہے تاہم اس کے باوجود ممکن ہے کہ دیگر اقسام کے تیل بالخصوص سورج مکھی کی قیمتیں روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث فوری طور پر نیچے نہ آئیں

کیا پاکستان اپنی دیگر ضروریات ملائیشیا سے پوری کر سکتا ہے، اس سوال پر ماہرِ اقتصادیات عمار خان کہتے ہیں کہ چونکہ انڈونیشیا سب سے بڑا سپلائر ہے اس لیے اس کے مارکیٹ سے نکل جانے کا اثر بہرحال اپنی جگہ موجود رہے گا

دانش حامد اور عثمان اکبر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فوری طور پر ملائیشیا سے ملکی ضروریات شاید نہ پوری کی جا سکیں کیونکہ مارکیٹ میں دیگر خریدار بھی موجود ہیں، جن میں سرِ فہرست بھارت ہے

عمار خان کہتے ہیں ”چونکہ پاکستان خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے اس لیے حکومت کو اس صورتحال کو غذائی تحفظ کے لیے ایک سنگین مسئلہ تصور کرتے ہوئے خوردنی تیل کی مقامی پیداوار پر توجہ دینی چاہیے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close