کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار نے کہا ہے کہ خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ کا کراچی یونیورسٹی میں کوئی تعلیمی رکارڈ نہیں
انہوں نے کہا کہ ہم نے سب ریکارڈ چھان لیا، اس نام کی ایک اور خاتون فزکس ڈپارٹمنٹ میں تھیں، جو پاس آؤٹ ہو چکی ہیں
دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ صوبہ سندھ میں منگل کو ایک بڑے تعلیمی ادارے کراچی یونیورسٹی میں چینی لینگویج سینٹر کے باہر خودکش دھماکہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ کے خاندان کے زیادہ تر افراد یا تو سرکاری ملازم ہیں یا ماضی میں رہ چکے ہیں
سکیورٹی ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویز کے مطابق شاری بلوچ کا آبائی تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے ہے اور ان کے والد تربت یونیورسٹی میں 2018ع اور 2019ع میں رجسٹرار کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں
تیس سالہ خاتون خودکش حملہ آور کے شوہر ہیبتان بلوچ پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں اور مکران میڈیکل ڈینٹل کالج میں بحیثیت پروفیسر خدمات سرانجام دے رہے تھے
تحقیقاتی ادارے شاری بلوچ کے شوہر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں اب تک انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے
واقعے کے بعد تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کا آغاز کیا اور دو افراد کو حراست میں لیکر تفتیش شروع کی تھی۔
تحقیقات میں اب تک مبینہ خودکش حملہ آور خاتون کے تین گھروں میں ٹھرنے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں
واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو کراچی کے دورے کے موقع پر سندھ کی وزارت داخلہ کے حکام اور تفتیشی محکموں کے اعلیٰ افسران نے دھماکے کی تحقیقات پر تفصیلی بریفنگ دی تھی
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں خاتون خودکش بمبار کے شوہر کی گرفتاری کی تصدیق یا تردید سے گریز کیا تھا
تفتیش سے منسلک ایک پولیس افسر نے بتایا کہ مبینہ خودکش حملہ آور خاتون کو جامعہ کراچی لانے والے رکشا ڈرائیور سے بھی پوچھ گچھ کی گئی
سکیورٹی ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویز کے مطابق شاری بلوچ کے تین بھائی اور چار بہنیں سرکاری اداروں میں ملازمتیں کر رہی ہیں
ان کا ایک بھائی بلوچستان میں سیندک پروجیکٹ کا ڈپٹی ڈائریکٹر ہے، دوسرا تحصیل دار اور تیسرا بلوچستان کے علاقے تمپ میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے
ان کی ایک بہن تربت یونیورسٹی میں انگلش کی لیکچرار ہیں جبکہ ان کے شوہر بلوچستان حکومت کے ملازم ہیں۔ شاری بلوچ کی دوسری بہن اپنے آبائی علاقے تمپ میں نادرا سینٹر کی انچارج ہیں
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاری بلوچ کی ایک اور بہن تمپ میں لیویز سکیورٹی فورس میں ملازم ہیں
جبکہ خود شاری بلوچ کے متعلق بھی ان کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا تھا کہ وہ تربت کے ایک سرکاری اسکول میں بحیثیت ٹیچر پڑھاتی بھی رہی ہے
واضح رہے کہ منگل کو کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی
بی ایل اے کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق وہ زولوجی میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی تھیں اور تعلیم کے شعبے میں ایم فل کررہی تھیں
تحقیقات اور کاروائی کہاں تک پہنچی؟
گزشتہ روز قانون نافذ کرنے والے محکمے کے اہلکاروں نے گلستان جوہر بلاک 13 کے فلیٹ کے بعد کراچی کے علاقے اسکیم 33 میں مبینہ خودکش بمبار شاری بلوچ کے والد کے گھر پر چھاپہ مارا
چھاپے میں محکمہ انسداد دہشت گری (سی ٹی ڈی) نے لیپ ٹاپ اور دیگر دستاویزات قبضے میں لے کر مکان کو سیل کردیا ہے
تفتیش سے منسلک ایک پولیس افسر کے مطابق خاتون تین سال سے کرائے کے فلیٹ میں رہ رہی تھیں، فلیٹ مالک سے بھی پوچھ گچھ کی گئی اور ایک مشتبہ شخص کو بھی حراست میں لیا گیا ہے
تحقیقات کرنے والے ادارے کے ایک اور سینیئر افسر کے مطابق شاری بلوچ کراچی کے علاقے دہلی کالونی سے حملے کے لیے جامعہ کراچی پہنچی تھیں
انہوں نے بتایا کہ خاتون نے دہلی کالونی میں ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا
’اسی علاقے سے خاتون رکشہ میں سوار ہوئیں اور کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس ڈپارٹمنٹ کے سامنے اتریں جنہیں سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔‘
یونیورسٹیوں میں سیکورٹی سخت، غیر ملکی طلبا کی نقل و حرکت پر پابندی
کراچی یونیورسٹی میں بم دھماکے کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، یونیورسٹیوں کے تمام داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ کو مزید سخت کردیا گیا ہے جبکہ یونیورسٹیوں میں داخل ہونے والی گاڑیوں ، بسوں اور موٹر سائیکلوں کا باقاعدہ اندراج و ریکارڈ بھی رکھا جار ہا ہے۔ یونیورسٹیوں کی تمام چیک پوسٹوں پر گارڈز کی نفری میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے اور بوائز و گرلز ہاسٹلز کے باہر بھی گارڈز کی نفری کو بڑھا دیا گیا ہے
دوسری جانب جامعہ کراچی خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والے وین ڈرائیور کا جسد خاکی ڈی این اے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا گیا
ڈرائیور خالد نواز کے جسد خاکی کو سرد خانے سے فقیرا گوٹھ ان کی رہائش گاہ منتقل کیا گیا. جہاں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ علاقے کی فضا سوگ وار تھی اور قریبی دکانیں اور مارکیٹ بند تھی. والد کی لاش جب گھر پہنچی تو خالد کے معصوم بچے باپ کے یوں بچھڑنے پر ان کے تابوت سے لپٹ کر رونے لگے
خالد نواز کے جنازے میں اہلخانہ، عزیز و اقارب اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی
صدر کی بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے سے بچانے کے لئے اقدامات کی ہدایت
صدر عارف علوی نے ایچ ای سی کو یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے اور لسانی پروفائلنگ سے بچانے کے لئے اقدامات کی ہدایت کردی
یہ ہدایات اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 اپریل کے حکم نامے کی تعمیل میں بلوچ طلباء کی شکایات سننے کے بعد جاری کی گئیں۔ جس میں عدالت نے بلوچ طلباء کے مسائل سننے ، نسلی پروفائلنگ کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کا کہا تھا
صدر مملکت نے 20 اور 21 اپریل 2022 کو بلوچ طلباء کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں طلبا نے اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کیمپس میں نامعلوم افراد کی جانب سے کچھ بلوچ طلباء سے تحقیق کی آڑ میں پوچھ گچھ کی جا رہی تھی ، پوچھ گچھ میں بلوچ طلباء سے مختلف تنظیموں میں شمولیت کے بارے میں سوالات کیے جا رہے تھے
صدر مملکت نے کہا کہ ایچ ای سی تمام وفاقی جامعات کے کیمپسز میں بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے کے واقعات سے بچنے کیلئے ضروری ہدایات جاری کرے ، ملک کو ایک مختلف صورتحال کا سامنا ہے ، دہشت گردی کی کارروائیوں کا دوبارہ سر اٹھانا باعث تشویش ہے، انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں انتہائی احتیاط اور توازن کے ساتھ انجام دی جانی چاہیے ، ہماری آبادی کے کسی بھی طبقے خصوصاً بلوچستان کے طلبہ کے خلاف امتیازی سلوک نہ کیا جائے
صدر مملکت نے کہا کہ جامعات بلوچ طلباء کے لئے باعث تشویش سرگرمیوں کی بھی مستعدی سے نگرانی کریں ، یونیورسٹی کے احاطے میں ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں کی تمام قانونی تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے تحقیقات کی جائیں.