برطانیہ کی اٹارنی جنرل سویلا بریورمین نے کہا ہے کہ مرد سیاستدانوں میں سے کچھ کا رویہ حیوانوں جیسا ہوتا ہے
تفصیلات کے مطابق بی بی سی کے پروگرام ’ویمنز آور‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سویلا بریورمین نے کہا ”یہ مسئلہ وسیع تر معاشرتی رویوں سے شروع ہوتا ہے اور وہاں ’اخلاقی معیارات‘ کے بارے میں بات چیت کی ضرورت ہے۔“
واضح رہے کہ اٹارنی جنرل کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب ایک وزیر نے اپنے ایک کنزویٹو ساتھی پر الزام لگایا کہ وہ دارالعوام کے چیمبر میں پورنو گرافی دیکھ رہے تھے
بریورمین نے کہا کہ وہ ’شرمندہ‘ ہیں کہ جس ایم پی پر الزام ہے، ان کے سینے پر کنزرویٹو کا بیج لٹک رہا تھا
سابق وزیر بیرونس نکی مورگن نے اس دعوے کو ’حیران کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’اگر یہ کسی اور کام کی جگہ پر ہوا ہوتا تو وہ فرد اس بدتمیزی پر برطرف ہو چکا ہوتا۔‘
انہوں نے کہا ”اراکین پارلیمنٹ کے لیے صورتحال مختلف ہے۔یہاں نہ تو روزگار کا کوئی معاہدہ ہے، نہ کوئی ان سے نوکری چھین سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ممبران پارلیمان کو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی انھیں ہاتھ نہیں لگا سکتا“
دارالعوام میں ایک ممبر پارلیمان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ منگل کی رات پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران چیمبر میں پورن فلم دیکھ رہے تھے
دارالعوام میں حکومت کے چیف ویپ کرس پیٹن ہیرس نے ابتدائی طور اس معاملے کو دیکھا، لیکن اب انھوں نے اس معاملے کو پارلیمان کی آزادانہ شکایات سکیم (ICGS) کو بھیج دیا ہے
لیبر لیڈر سر کیر اسٹارمر نے کہا کہ معاملے کو آئی سی جی ایس کو بھیجنا غلط نہیں ہے لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ٹوری پارٹی جانتی ہے کہ وہ کون ہیں، انھیں خود کارروائی کرنی چاہیے۔‘
لبرل ڈیموکریٹ رہنما، سر ایڈ ڈیوی نے کنزرویٹو پارٹی پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو سنبھالیں اور جس رکن پارلیمان نے ایسا کیا ہے، اس سے چھٹکارا حاصل کریں
اٹارنی جنرل سے جب ان کے اپنے تجربات کے حوالے سے پوچھا گیا تو برورمین نے کہا کہ انھیں ذاتی طور پر پارلیمان میں کبھی پریشانی نہیں ہوئی، لیکن کچھ خراب لوگ ضرور موجود ہیں
اٹارنی جنرل نے کہا: ’میں سات سال ایم پی رہی ہوں، کنزرویٹو پارٹی میں ہوں، بیس سال سے سیاست میں ہوں، کسی بھی موقع پر مجھے پریشانی نہیں ہوئی ہے اور میں نے جتنے بھی مردوں کے ساتھ کام کیا ہے انہیں باعزت پایا ہے۔‘
’تاہم مردوں کی ایک بہت چھوٹی اقلیت ہے جن کا معیار کم ہے اور کچھ گندے لوگ ہیں جن کا رویہ حیوانوں جیسا ہوتا ہے اور وہ پارلیمان کو بدنام کر رہے ہیں۔‘
’ہمیں اپنے وسیع تر معاشرتی رویوں کو زیادہ گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ معاشرتی مسئلے کی ’پریشان کن علامت‘ ہے اور عوام میں فحش مواد دیکھنا ’معمول‘ بن چکا ہے۔
’ایک طرف خواتین ہیں جو یہ کہہ رہی ہیں کہ انڈرویئر میں اپنی تصویریں پوسٹ کرنا ان کا حق ہے، اور آن لائن اپنے برہنہ پوز بنانا انھیں بااختیار بناتا ہے، میری آزادی پر قدغن نہ لگائیں، اور دوسری طرف ہم اس انتہائی آزادی کی مذمت کر رہے ہیں جو اسے ممکن بناتی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ہمیں تھوڑی دیر رک کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں جس سے رویوں میں گراوٹ آتی جا رہی ہے۔‘
بی بی سی کے پروگرام بریک فاسٹ میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع بین والس نے کہا ”کام کی جگہ پر پورنوگرافی دیکھنا ناقابل قبول ہے۔ وزیر دفاع نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر یہ دعوی سچ ہے تو متعلقہ ایم پی کے خلاف کارروائی کی جائے گی“
دارالعوام میں کام کے ماحول کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’ہاؤس آف کامنز میں طویل اوقات کار کی وجہ بعض اوقات لوگ دباؤ میں آ جاتے ہیں جس سے ایک زہریلا ماحول پیدا ہوتا ہے جو اس طرح کی چیزوں کی طرف لے جاتا ہے۔‘
لیبر کے جیس فلپس نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ’ویسٹ منسٹر کا ماحول ایک ایسا بہانہ ہے جسے لوگ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
ان تبصروں نے پارلیمنٹ میں عورت مخالف رویوں اور جنسی ہراسانی کے الزامات کو پھر سے تازہ کر دیا ہے
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ شیڈو کابینہ کے ایک ممبر نے انھیں ’خفیہ ہتھیار‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا عورتیں ان کے ساتھ دوستی کرنا چاہتی ہیں جبکہ مرد ان کے ساتھ سونا چاہتے ہیں
لیبر کے ایک ترجمان نے کہا: ’لیبر پارٹی تمام شکایات کو انتہائی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ہمارے قوانین اور طریقہ کار کے مطابق ان کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے، اور مناسب کارروائی کی جاتی ہے۔‘
ایس این پی کی دو ممبر پارلیمان، پیٹرک گریڈی اور پیٹریشیا گبسن، کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ پارٹی نے کہا ہے کہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ ان کی شکایات کو رازداری میں سنا جائے اور اس پر مزید تبصرہ کرنا نامناسب ہوگا
اور اس ہفتے کے شروع میں، تمام جماعتوں کے سیاست دانوں نے ایک اخبار میں دیے گئے اس تاثر کی مذمت کی کہ لیبر کی انجیلا رینر نے کامنز میں اپنی ٹانگیں کراس کر کے وزیر اعظم بورس جانسن کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی
بدھ کو گرین ایم پی کیرولین لوکاس نے دی سنڈے ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کے تین وزرا سمیت چھپن ممبر پارلیمنٹ کو غلط جنسی رویے کے الزامات کا سامنا ہے۔ انھوں وزیر اعظم سے پوچھا کہ وزارتی ضابطہ اخلاق کے تحت اس طرح کے رویے سے کیسے نمٹا جاتا ہے اور کیا ایسے الزامات متعلقہ وزیر کی برطرفی کی بنیاد بن سکتے ہیں؟
وزیر اعظم بورس جانسن نے جواب میں کہا: ’یقیناً یہ برطرفی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔‘
ہاؤس آف کامنز میں فحش مواد دیکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف مخصوص قوانین کیا ہیں؟
کامنز کی طرف سے منظور شدہ ضابطہ اخلاق کے تحت، اراکین پارلیمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی عوامی زندگی میں ہر وقت ’احتیاط اور دیانتداری کے ساتھ‘ برتاؤ کریں
اراکین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ’احترام، پیشہ ورانہ مہارت، دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے، شائستگی، اور ذمہ داری کو قبول کرنے اصولوں پر عمل کریں
ضابطہ اخلاق کہتا ہے کہ انھیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے عام طور پر ایوان یا اراکین پارلیمنٹ کی ’ساکھ اور سالمیت کو نقصان پہنچے‘
نامناسب جنسی رویے کے الزامات کو پارلیمان کی آزادانہ شکایات اور شکایت کی سکیم میں بھیجا جا سکتا ہے
اگر کوئی ممبر پارلیمنٹ دس روز تک معطل کر دیا جائے تو اسے حلقے کے ضمنی انتخاب کا مطالبہ کر سکتے ہیں