’سبھی چور ڈاکو ہیں‘ کا بیانیہ کیوں مقبول تر ہو رہا ہے؟

امتیاز احمد

سبھی سیاستدان چور یا ڈاکو ہیں؟ عوامیت پسندی پر مبنی اس نعرے پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بیانیے کی مقبولیت کئی تباہ کن اشارے فراہم کرتی ہے

یہ نعرہ اس وجہ سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے کہ کچھ مخصوص وجوہات کی بنا پر ہمارا سیاسی ڈھانچہ گزشتہ 75 برسوں میں ایک عام آدمی کو کچھ ڈیلیور نہیں کر پایا، اس کی وجہ کچھ بھی ہو اور الزام بے شک جمہوریت مخالف طاقتوں پر ہی کیوں نہ ڈال دیا جائے لیکن جمہوری تنزلی کا سلسلہ تھمتا محسوس نہیں ہو رہا

عام لوگ جمہوریت، ڈکٹیٹر شپ یا پھر ‘ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعروں سے بے نیاز اور ماورا ہو کر یہ دیکھنے لگے ہیں کہ اقتدار میں آنے والوں کی کاریں بڑی سے بڑی ہوتی جاتی ہیں، ان کی کوٹھیاں وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہیں اور ان کے بینک بیلنس بھاری سے بھاری تر ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایسے سیاستدانوں یا اشرافیہ کی پشت پناہی کون کر رہا ہے

ایک عام آدمی کے دل میں یہ غصہ دن بدن بڑھ رہا ہے کہ اس کے حالات تبدیل نہیں ہو رہے لیکن ان کے حکمرانوں کی شان و شوکت دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک عام آدمی یہ سب کچھ حسد، مایوسی اور غصے کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے

جب عام آدمی کی حالت نہیں بدلے گی اور صرف صاحب اقتدار شخصیات کی ہی بدلتی رہے گی تو اس نعرے میں مزید تقویت آ جائے گی کہ ‘یہ سب چور یا ڈاکو ہیں‘۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکیں گے کہ جمہوری جمود کی وجہ کون ہے؟

بالخصوص پنجاب میں میں نے جب بھی کسی عام شخص سے کسی حکمران کے بارے میں پوچھا ہے تو جواب تقریباً یکساں ہی ملا، ”ہمیں کیا؟ ہماری حالت تو کسی نے نہیں بدلی، جو بھی آتا ہے، اپنا پیٹ بھر کر چلا جاتا ہے۔‘‘

جب عوام ایسا سوچنا شروع کر دیں تو ان کے لیے جمہوری یا غیر جمہوری رویے معنی نہیں رکھتے، وہ سب کو ایک ہی ڈبے میں بند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں فوج آئے تو لوگ ٹینکوں کے سامنے نہیں لیٹتے بلکہ مٹھائیاں بانٹتے ہیں

جب لوگوں کو یقین ہونا شروع ہو جائے کہ انصاف صرف امیر طبقے کے لیے ہے تو وہ خود انصاف کرنا شروع کر دیتے ہیں، خود ڈنڈے لے کر بازاروں میں نکل آتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے، جتھے جنم لیتے ہیں، انتہاپسند عناصر اور عوامیت پسندی کو فروغ ملتا ہے، گروپ بندیاں ہوتی ہیں اور ملک بدامنی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے

پاکستان کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انہیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ بے روزگاری ہے، غربت ہے، پڑھائی کے لیے پیسے نہیں ہیں، حالات خراب ہیں، لوڈ شیڈنگ ہے جبکہ معیار زندگی بہت گر چکا ہے۔ یہ نسل دولت، اختیارات اور اقتدار کی غیر منصفانہ تقسیم پر سوال کھڑے کر رہی ہے۔ یہ بدعنوانی، کرپشن اور اقرباء پروری سے تنگ ہے

توانائی سے بھرپور اور حالات سے مایوس ایسے نوجوان چلتے پھرتے بم بنتے جا رہے ہیں۔ بے یقینی سے عاجز نوجوان طبقہ عوامیت پسندی کے نعروں میں دھنستا جا رہا ہے، جو اسے کوئی سہانہ خواب دیکھاتا ہے یہ اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور یہ بھی بھول جاتا ہے کہ جو خواب دیکھائے جا رہے ہیں، وہ کبھی حقیقت کا رنگ نہیں دھار سکتے۔ لیکن آخر انہیں بھی تو مایوسی کی کیفیت سے فرار چاہیے

اس عالم میں کچھ بعید نہیں کہ اگر کوئی ان کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے، ان کے جذبات برانگخیتہ کرے تو پاپولر بیانیے کو سچ سمجھنے لگ جائیں

معاشرے میں مایوسی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ برائے مہربانی مار دھاڑ اور سوشل میڈیا پر الزام تراشیوں کی بجائے تعمیری راستہ فراہم کیجیے، انہیں کوئی مثبت سمت دیکھانے کی کوشش کریں

سیاسی اور فوجی اشرافیہ کو سوچنا ہوگا کہ اب نوے کی دہائی کا زمانہ نہیں رہا۔ اکیسویں صدی کا نوجوان معاشرہ اپنا موازنہ ترقی یافتہ مغربی ممالک سے کرتا ہے۔ ان کے دل میں آسائشیں حاصل کرنے کی آرزو ہے، ترقی کرنے کی خواہش ہے، آگے بڑھنے کی جستجو ہے، انصاف کی طلب ہے، ایک اچھی زندگی گزارنے کی طلب ہے

اگر ان کے حالات نہیں بدلیں جائیں گے تو یہ فوج اور سیاستدانوں پر مشتمل اشرافیہ کو چور یا ڈاکو ہی سمجھیں گے۔ طالبان کی طرح خود انصاف کرنے سڑکوں پر نکلیں گے اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ 75 برسوں سے آسودگی کی تلاش میں بھٹکنے والے اس معاشرے کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا

انہیں باور کرائیں کہ سبھی چور اور ڈاکو نہیں ہیں، ان کے معاشی حالات بہتر کیجیے۔ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو ہر اخلاق پیچھے رہ جاتا ہے۔ منہ میں نوالہ ہو تو دوسرے کی دی ہوئی گالی بھی برداشت ہو جاتی ہے لیکن حال یہ ہے کہ اب اختلاف رائے برداشت نہیں ہو پا رہا

یہ مسائل فوج اور کسی ایک سیاسی جماعت کے ایک پیج پر آنے سے حل نہیں ہوں گے، ان کے حل کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ جمہوری روایات کو فروغ دینا ہو گا اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف ملک کا سوچنا ہوگا

اگر عوام اور نوجوانوں کو روشن مستقبل نظر نہ آیا تو وہ عوامیت پسندی کی اس لہر کا حصہ بن جائیں گے، جس کا شکار کئی ممالک ہو چکے ہیں۔ پھر ہو گا غالباً بس یہی کہ اسٹبلشمنٹ کا کوئی طبقہ یا کوئی فاشسٹ سیاسی گروہ ان بے چین افراد کے مذہبی و سیاسی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے ملک کو پاتال کی اندھیری گہرائیوں میں دھکیل دے گا

اگر عوام اور نوجوانوں کو روشن مستقبل نظر نہ آیا تو انہیں آپ کی کلف زدہ وردیاں، شملے، دستاریں، کوٹھیاں، لگژری گاڑیاں، بینک بیلنس اور سرکاری بیرونی دورے ضرور نظر آئیں گے اور یہ انہیں بھی سلامت نہیں رہنے دیں گے.

نوٹ: یہ کالم ڈی ڈبلیو اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ادارے کا کالم نگار کے خیالات اور نکتہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close