چاند کی سطح سے ’جلے ہوئے بارود‘ جیسی ناگوار بُو کیوں آتی ہے؟

ویب ڈیسک

یہ کس طرح کا لگتا ہے؟ ’برف کی طرح ہموار، مگر عجیب طرح سے کھرچی ہوئی چیز۔‘ (جین سرنان، اپولو 17 کے خلاباز)

اس کا ذائقہ کس طرح کا ہے؟ ’برا نہیں ہے۔‘ (جان ینگ، اپولو 16 کے خلاباز)

اِس کی بُو کیسی ہے؟ ’جلے ہوئے بارود جیسی بُو ہے۔‘ (خلاباز سرنان)

نرم، ذائقہ دار اور بدبودار… چاند پر چہل قدمی کرنے والے کچھ خلابازوں نے چاند کی سطح پر موجود دھول کو بیان کرنے کے لیے جو صفتیں استعمال کیں وہ اس رومانوی اور پرانے تصور کے بلکل برعکس ہیں، جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں چاند کے متعلق موجود ہے

مگر خلابازوں نے چاند کی دُھول کو کیسے سونگھا؟ اور اس کی بدبو کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

یہ کوئی سائنس فکشن نہیں ہے۔ جس خلانورد نے بھی چاند پر قدم رکھا، اسے ابتدائی چہل قدمی کے بعد چاند کی بُو سونگھنے کا موقع ملا

چہل قدمی کے بعد جب یہ خلاباز واپس اپنے خلائی جہازوں پر پہنچے اور اپنے ہیلمٹ اُتارے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے ہیلمٹ چاند کی سطح پر موجود اُس مادے کی بُو سے بھرے ہوئے تھے، جو کہ ’ناسا اپولو کرونیکلز‘ کے مطابق بہت زیادہ چمٹنے والا تھا، اس حد تک کہ وہ جوتوں، دستانوں یا کسی بھی چیز جو اس کی زد میں آئی، اس سے چمٹ گیا تھا

چاند پر ملنے والی اس دھول کا دوسرا سائنسی نام ’مون ڈسٹ‘ یا ’ریگولتھ‘ ہے اور ایسے لگتا ہے کہ یہ سیٹلائٹ کی سطح پر تیرتی رہتی ہے، اور کسی بھی شے سے جڑ جاتی ہے

ناسا کے سنہ 2013ع میں شروع کیے گئے مشن لاڈی (ایل اے ڈی ای ای) پراجیکٹ کے نگران بٹلر ہائن کا کہنا تھا ’یہ زمینی دھول کی طرح نہیں ہے۔‘

سائنسدان نے یہ بھی وضاحت کی کہ چاند کی دھول ’کھردری‘ اور ’تھوڑی شیطان صفت‘ ہے، کیونکہ یہ برقی فیلڈ لائنوں کا پیچھا کرتے ہوئے ناممکن سوراخوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خلابازوں کے لیے بہت ’چِپکُو‘ تھی

اس سے قطع نظر کہ خلابازوں نے بار بار اپنےخلائی سوٹ کو برش کرنے کی کتنی ہی کوشش کی، لیکن جب بھی وہ خلائی جہاز کے کیبن میں داخل ہوتے تو وہاں ہمیشہ اس عجیب و غریب دھول سے کچھ (اور کبھی کبھی بہت کچھ) ساتھ آتا تھا، جسے بعض نے ’بارود کی بُو‘ کے طور پر بیان کیا

چاند کی سطح پر اپنے دستانے اور ہیلمٹ اُتار کر 1969-72 کے چھ اپولو مشنوں کے بارہ خلابازوں نے اسے محسوس کیا، اس کا ذائقہ چکھا اور اسے سونگھا بھی

اپولو 11 کے پائلٹ بز ایلڈرین نے کہا کہ ان کے سوٹ کے ساتھ چمٹنے والی دھول میں ’جلتے ہوئے کوئلے یا چمنی کی راکھ جیسی خوشبو تھی، خاص طور پر اگر آپ اس پر تھوڑا سا پانی پھینک دیں تو‘

اپالو 16 کے پائلٹ چارلی ڈیوک نے اپریل 1972ع میں ریڈیو پر کہا کہ ’یہ واقعی ایک تیز بو ہے۔ اس کا ذائقہ اور بو میرے لیے بارود کی طرح ہے‘

اپولو 17 مشن کے آٹھ ماہ بعد جین سرنان نے بھی ان زبردست الفاظ کے ساتھ ڈیوک کے تاثرات کی تصدیق کی: ’ایسی بُو ہے جیسے کسی نے کاربین (بندوق) سے یہاں فائر کیا ہو‘

یہ ایک بہت ہی مخصوص حوالے کی طرح لگتا ہے۔ تاہم، اپولو 17 کے عملے میں سے ایک اور ہیریسن (جیک) شمٹ نے بعد میں وضاحت کی کہ ’اپولو کے تمام خلاباز ہتھیاروں سے واقف تھے‘ اور اسی لیے ’جب انھوں نے کہا کہ چاند کی دھول سے بارود کے جلنے کی طرح کی بو آتی ہے، تو وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے تھے‘

انہوں نے کہا ’ایسا نہیں ہے کہ وہ دھات کی بنی ہوئی یا کھٹی تھی، لیکن (جلا ہوا بارود) ہی قریب ترین چیز تھی جس سے ہم اس کا موازنہ کر سکتے ہیں‘

پاؤڈر٠٠٠ لیکن بارود نہیں

اور اگر اس کی بو بارود جیسی ہو اور اس کا ذائقہ بارود کی طرح ہو۔۔۔ تو کیا یہ بارود نہیں ہے؟

یہ وہ سوال تھا جو شاید بہت سے لوگوں نے خود سے پوچھا تھا اور ناسا نے اسے فوراً جھٹلا دیا تھا

خلائی ایجنسی ناسا نے اپولو کرونیکلز میں وضاحت کی ہے کہ ’چاند کی دھول اور بارود ایک جیسی چیز نہیں ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے بارود کی طرح نہیں ہے‘

ناسا کے جانسن سپیس سینٹر میں موجود لونر سامپل لیبارٹری کے گیری لوفگرین کہتے ہیں کہ جن مالیکیولز سے بارود بنتا ہے وہ ’چاند کی مٹی میں نہیں پائے گئے‘

فلکیات کے پروفیسر تھامس گولڈ نے بھی سنہ 2004ع میں اس بات کی تردید کی کہ چاند کی دھول دھماکہ خیز ہو سکتی ہے

ناسا کا کہنا ہے کہ مون ڈسٹ یا چاند کی دھول زیادہ تر سلیکان ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے اور یہ شہابی پتھروں کے چاند سے ٹکرانے کے اثرات سے پیدا ہوتی ہے اور ٹکرانے کے بعد شہابی پتھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں

اس میں آئرن، کیلشیم اور میگنیشیم اور معدنیات جیسا کہ اولیوائن اور پائروکسین بہت زیادہ ہوتی ہے

تو پھر اس کی بو بارود کی طرح کیوں ہوتی ہے؟

یہ ایک ایسا معمہ ہے جو ابھی حل نہیں ہے، لیکن اس کے بارے میں چند نظریات ضرور موجود ہیں۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر طویل قیام کا تجربہ رکھنے والے کیمیکل انجینیئر اور خلا باز ڈونلڈ پیٹٹ نے اس کی ایک وضاحت پیش کی ہے

انھوں نے کہا کہ ’آپ تصور کریں کہ آپ زمین پر موجود کسی صحرا میں ہیں۔ اس کی خوشبو کیسی ہوگی؟ کچھ بھی نہیں۔ جب وہاں بارش ہوتی ہے تو ہوا اچانک میٹھی، گوندار مہکوں سے بھر جاتی ہے۔‘

پیٹٹ کہتے ہیں کہ ’چاند چار ارب سال پرانے صحرا کی طرح ہے۔ یہ انتہائی خشک ہے۔ جب چاند کی دھول قمری موڈیول میں نم ہوا کے ساتھ رابطے میں آتی ہے، تو آپ کو صحرا میں بارش کا اثر اور کچھ بدبو ملتی ہے‘

لوفگرین کہتے ہیں ”یہ رجحان چاند کی دھول کی وجہ سے ہو سکتا ہے، جو سورج سے نکلنے والے آئنوں کے ساتھ مل کر سیٹلائٹ تک پہنچتے ہیں، اور کیبن کے اندر مکس ہو کر عجیب سی ’خوشبو‘ پیدا کرتے ہیں۔“

سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک اور امکان یہ ہے کہ چاند کی دھول چاند کے موڈیول کے آکسیجن والے ماحول کے اندر آکسیڈیشن کے عمل کے ذریعے جل جاتی‘ ہے، جو بالکل کمبسشن کی طرح ہے، لیکن بہت آہستہ، اس لیے یہ شعلے پیدا نہیں کرتا

لیکن شاید سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ چاند کی دھول جب زمین پر پہنچتی ہے تو اس سے بدبو غائب ہو جاتی ہے۔ خلانوردوں نے چاند کی دھول اور پتھروں کے کئی نمونے اکٹھے کیے ہیں

لوفگرین کہتے ہیں ’ان سے بارود کی بو نہیں آتی۔‘

ناسا کا کہنا ہے کہ زمین پر آ کر وہ مادہ اپنی طاقت کھو بیٹھا تھا اور ہوا اور پانی سے ’آلودہ‘ ہو گیا تھا، جس نے خلابازوں کے زمین پر واپسی کے سفر کے دوران ’کسی بھی بدبودار کیمیائی رد عمل‘ کے اثرات کو کسی حد تک ختم کر دیا تھا۔

اس کا حل یہ ہوگا کہ چاند پر ہی اس دھول کا تجزیہ کیا جائے

لیکن چونکہ 1972 کے بعد سے چاند پر کوئی اور انسان بردار مشن نہیں بھیجا گیا، اس لیے اب بھی ایسے خلاباز نہیں ہیں جو یہ بتا سکیں کہ ہماری واحد قدرتی سیٹلائٹ کا ذائقہ اور خوشبو کیسی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close