کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کرنے والی شاری بلوچ نے یہ اقدام کیوں اٹھایا تاحال کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے کسی بریک تھرو تک تو نہیں پہنچے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات اطمینان بخش حد تک جاری ہیں، جبکہ حملہ آور اور چینی شہریوں کی میتیں تاحال سرد خانے میں موجود ہیں
کراچی یونیورسٹی کے شعبے کنفیوشس کے باہر ایک وین پر خودکش حملے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے تھے، حملہ آور کے جسم کے اعضا اور چینی شہریوں کی لاشیں تاحال چھیپا کے سرد خانے میں موجود ہیں۔ پولیس اور دیگر اداروں نے دہلی کالونی اور گلستان جوہر میں دو فلیٹس پر چھاپے مارے ہیں جن کے بارے میں اُن کا خیال ہے وہاں خودکش بمبار شاری رہتی تھیں
جائے وقوع سے شاری بلوچ کے مختلف اعضا ملے ہیں جبکہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم کی سربراہ ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید نے بتایا کہ حملہ آور خاتون کے جسم پر علامات اور ڈی این اے کے ذریعے اس کی تصدیق کی گئی کہ یہ ایک ہی انسان کے اعضا ہیں
شاری بلوچ کے جسم کے اعضا فلاحی ادارے چھیپا فاونڈیشن کے سرد خانے میں موجود ہیں
ڈاکٹر سمیعہ سید نے بتایا کہ جسم کے ساخت اور قد کاٹھ کی مناسبت سے اس حملے میں ہلاک ہونے والے باقی افراد کی شناخت کی گئی۔ ڈرائیور قد میں بڑا اور جسامت میں بھاری تھا جبکہ چینی نسبتاً چھوٹے قد کے ہوتے ہیں۔ ’ڈرائیور کا ایک پاؤں مڑا ہوا تھا، ان کے بھائی نے اُن کی شناخت کی۔‘
انہوں نے کہا کہ چینی شہریوں کی شناخت کے لیے ان کے زیر استعمال سامان سے ٹچ سیمپل لیے گئے اور میچنگ کی گئی جس سے اُن کی شناخت ہوئی
شاری کے والد حیات بلوچ کا کہنا ہے کہ حکام نے انھیں یقین دہانی کروائی ہے کہ جسم کے باقیات ان کے حوالے کی جائیں گی
شاری کے چچا غنی پرواز، جو انسانی حقوق کمیشن سے بھی وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ لاش کب حوالے کی جائے گی یہ واضح نہیں ہے، تاہم خاندان کو طرح طرح سے تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے
کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق وہ اس واقعے کی تحقیقات سے مطمئن ہیں اور اس وقت تک متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اُن میں سے کتنے افراد اس واقعے کے متعلق ہیں، اس کی چھان بین جاری ہے۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت سہولت کاروں کی تلاش ہے جنھوں نے اس حملے میں معاونت کی
پولیس نے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر بشیر زیب، مجید برگیڈ کے کمانڈر گل رحمان، ترجمان جیئند بلوچ کے خلاف اس واقعے کا مقدمہ درج کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے شاری بلوچ کے ذریعے خودکش حملہ کیا۔ مقدمے میں نامعلوم سہولت کاروں کو بھی نامزد کیا گیا ہے
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی خرم علی شاہ نے بتایا کہ اس واقعے میں بمبار شاری بلوچ کا شوہر ڈاکٹر ہیبتان بھی مطلوب ہے، جب ان سے سوال کیا کہ اس کارروائی میں اُن (شاری کے شوہر) کا کیا کردار ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ تو تب ہی پتہ چلے گا جب وہ گرفتار ہوں گے، فی الحال تحقیقات جاری ہیں
واضح رہے کہ بلوچستان کی پارلیمانی سیکریٹری بشریٰ رند نے جمعرات کو دعویٰ کیا تھا کہ شاری بلوچ کے شوہر ہیبتان کو حراست میں لیا گیا ہے تاہم پولیس حکام نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے
اس حملے کے بعد سے شاری بلوچ کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر روپوش ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے ڈاکٹر ہیبتان بشیر بلوچ سے رابطہ کیا گیا اور انھیں انٹرویو کے لیے تحریری سولات بھیجے گئے جن کے انھوں نے آڈیو ریکارڈنگ کر ذریعے جوابات بھیجے
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ہیبتان نے اعتراف کیا ہے کہ وہ شاری بلوچ کی مجید برگیڈ میں شمولیت اور فدائی مشن کے بارے میں جانتے تھے
ان کا کہنا تھا ’میرے اندازے کے مطابق دو سال سے زائد عرصہ قبل وہ مجید برگیڈ میں فدائی کے طور پر اپنا نام دے چکی تھیں، اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد مجھے اس سے آگاہ کیا تھا‘
بقول اُن کے اس اقدام سے ایک دو روز قبل ان کی شاری سے ملاقات ہوئی تھی، ان کے علم میں تھا کہ وہ یہ قدم اٹھانے والی ہیں لیکن کب اور کہاں، وہ اس سے لاعلم تھے
دوسری جانب شاری کے والدین اس کے شدت پسند خیالات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں
بیرون ملک مقیم صحافی اور ایکسٹوسٹ کِیا بلوچ نے شاری کے والد سے بات چیت کا خلاصہ ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کس نے کی اور کس چیز نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا، دونوں (میاں بیوی) سیاسی ذہن رکھتے تھے لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ شدت پسند تھے
دوسری جانب ڈاکٹر ہیبتان کے خاندان کی جانب سے شاری کے اقدام کی مذمت کی گئی ہے، ان کے بھائی اور استاد ڈاکٹر سراج بشیر بلوچ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہم ہر اس انتہا پسندانہ عمل کے خلاف ہیں جس سے بے گناہ اور معصوم انسانوں کا ضیاع ہوتا ہے، 26 اپریل کو جامعہ کراچی میں ہونے والے خود کش حملے کے شدید مذمت کرتے ہیں ۔ہمارے روایات اور خاندان ایسے انتہا پسندانہ عمل کا کبھی بھی حمایت نہیں کرتا.