جہاز ایک دم سے بائیں جانب جُھکا۔ جب اس نے آرکٹِک یعنی قُطَب شُمالی کے ٹنڈرا کی ناہموار زمین کو رن وے بنا کر اس پر اُترنے کی پہلی کوشش کی تو جہاز کا الارم بج اٹھا اور اس کی ایمرجنسی لائٹیں بھی جل اٹھیں۔ ساتھ ہی انجن کی آواز سے کیبن گونجنے لگا اور میرا کلیجہ منھ کو آ گیا
کینیڈا کے صوبے کُوبیک کے شمال میں واقع نوناوِک کے علاقے سے میرا یہ ایک فرحت بخش تعارف تھا۔ یہ علاقہ صوبے کے بالائی تیسرے حصے پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ برطانیہ سے دُگنا ہے۔ بہت سے لوگ اس کے وجود سے لاعلم ہیں مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا
سنہ 1950ع میں یہ اخبارات کی شہ سرخیوں میں رہا اور دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلایا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہاں کی ویرانی یا انسانوں کی بنائی ہوئی کوئی عمارت نہیں تھی، بلکہ یہاں کی وہ قدرتی خاصیت تھی جو ’پنگولیئٹ کریٹر‘ کے نام سے مشہور ہے۔ (کریٹر سے مراد گڑھا ہے)۔ ہمارا جہاز اُترنے کی دوسری کوشش میں اسی گڑھے پر سے گزر رہا تھا
نوناوِک ٹورازم کی پراجیکٹ کوآرڈینیٹر ایزابیل ڈوبوئس سردیوں میں، جب ہر چیز برف میں ڈھکی ہوتی ہے، اس گڑھے کو دیکھنے آئی تھیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا ’یہ اِنیووِٹی نام ہے جس کے معنی شدید سردی کی وجہ سے جلد پر نموادر ہونے والی پھنسی یا داغ کے ہیں۔‘
میں نے جہاز کے اترنے کی دوسری کوشش کی صعوبت سے اپنی توجہ ہٹانے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھا تو محسوس ہوا کہ یہ کتنا مناسب نام ہے اس جگہ کا۔ یہاں کا ٹنڈرا شگافوں، دراڑوں اور گڑھوں سے بھرا ہوا ہے جن میں سے بعض میں پانی بھرا ہوا ہے۔ اس تمام تر ناہمواری کے باوجود زمین کی سطح سے اُبھرا ہوا یہ گڑھا نمایاں نظر آتا ہے
3.5 کلومیٹر قطر اور دس کلومیٹر سے زیادہ پر محیط یہ اس گڑھے کا سائز ہی نہیں، جو اسے نمایاں بناتی ہے بلکہ اس کی سمٹری یا تناسب بھی بہت زبردست ہے۔ اس گڑھے کا تقریباً گول اور پانی سے بھرا ہوا دہانہ بالکل ایک بڑا سا آئینہ لگتا ہے، جس میں ہمارے جہاز کا عکس گرد کے ایک ذرے کی مانند جھلک رہا تھا
کچھ ہچکولوں، خطرے کی مزید گھنٹیوں اور ایک جھٹکے کے ساتھ اچانک رُکنے سے پتا چل گیا کہ ہمارا جہاز اس عجوبے سے چند کلومیٹر دور زمین پر اتر گیا ہے۔ ہمیں مناسولِک کیمپ میں رہنا تھا۔ یہ پانچ کیبنز پر مشتمل ہے جنھیں شمسی توانائی کی مدد بجلی فراہم کی گئی ہے۔ یہ جگہ ان لوگوں کے لیے ایک بیس کیمپ کا کام دیتی ہے جو ملک سے سب سے دور دراز واقع پنگولیئٹ نیشنل پارک کی سیر کرنے آتے ہیں
ہم نے اپنا سامان لیا اور کیبن میں جا کر اسے سلیقے سے رکھنے لگے۔ اس دوران میری بات پیئر فیلی ہوئی۔ ان کا تعلق فرانس سے ہے اور انھیں ثقافتی جغرافیہ اور بشریات سے گہری دلچسپی ہے۔ وہ نوناوِک کے شمال میں اس راستے کے قریب رہتے جو آپ کو اس جغرافیائی عجوبے کی طرف لے کر جاتا ہے۔ انہیں چالیس سال قبل نہ چاہتے ہوئے بھی کام کے سلسلے میں کوُبیک کے اس حصے میں آنا پڑا تھا۔ پھر وہ اس علاقے اور یہاں کی ایک عورت کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ پلٹ کر نہیں دیکھا
فیلی نے مجھے پنگولیئٹ کی فضا سے کھینچی ہوئی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر دکھائی۔ یہ تصویر امریکی ایئر فورس کے ایک آفیسر نے، جنھوں نے پہلی بار اس گڑھے کا پتا لگایا تھا، 20 جون 1943ع کو کھینچی تھی۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ اس افسر نے اسے دیکھ کر کیا سوچا ہو گا۔ اتنے میں فیلی نے مجھے گڑھے کے بارے میں بتانا شروع کر دیا
انہوں نے کہا ’مغربی دنیا کو پہلی مرتبہ اس کا پتا دوسری جنگ عظیم کے دوران اس وقت چلا جب پائلٹوں نے اسے دیکھا اور ہوابازی کے لیے ایک نشانی کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ مگر اسے اس وقت تک خفیہ رکھا گیا جب تک کہ جنگ ختم نہیں ہو گئی۔‘
جب سنہ 1950ع میں انہوں نے باقی دنیا کو اس کے بارے میں بتایا تو اس کے سِحر میں آنے والے پہلے شخص انٹاریو کے فریڈ ڈبلیو چب تھے جو ہیرے تلاش کرتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ یہ نشان آتش فشاں کی وجہ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں پر ہیرے بھی ہوں گے
انہوں نے اس وقت انٹاریو میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مین سے مشورہ مانگا جو خود اس جادوئی دنیا کے اثر میں آ چکے تھے۔ دونوں اس کی حقیقت کا کھوج لگانے نکل کھڑے ہوئے (اور یہ ہی سبب ہے کہ کچھ مدت تک پنگولیئٹ کو ’چب کریٹر‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا) مگر یہاں کسی آتش فشاں کے نظریے کو جلد ہی مسترد کر دیا گیا
فیلی کا کہنا ہے کہ ’اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ گڑھا شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے وجود میں آیا ہے۔ ہم کل اسے دیکھنے جائیں گے۔‘
اگلی صبح ہم سورج نکلتے ہی اس طرف چل پڑے۔ فیلی نے بتایا کہ یہ شہابِ ثاقب 1.4 ملین سال پہلے ٹکرایا تھا۔ اس گڑھے کی چوڑائی اور گہرائی (400 میٹر) کی بنیاد پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ ٹکرانے والے شہابِ ثاقب کا اثر جاپانی شہر ہیروشیما پر گرائے جانے والے امریکی ایٹم بم سے ساڑھے آٹھ ہزار گنا زیادہ تھا
یہ حقیقت اپنے آپ میں قابل ذکر ہے۔ مگر جب ہم نے گڑھے کے کنارے پر پہنچ کر اس بڑے سے گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو اندر سے پانی کی سطح پر جمی ہوئی برف سورج کی شعاعوں کو منعکس کر رہی تھی، حالانکہ یہ جولائی کا مہینہ تھا۔ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز منظر تھا۔
مارکوسی کیسیک پنگولیئٹ پارک کے ڈائریکٹر اور گائیڈ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اِنیووِٹ (باشندوں) کو یقیناً ہیروں کی تلاش میں آنے والے مغربی لوگوں سے پہلے اس کا پتا تھا۔ انھوں نے اسے کرسٹل آئی آف نوناوِک کا نام دیا تھا۔‘
ہم نے ناہموار زمین پر جھیل کے گرد چکر لگانا شروع کیا تو فیلی نے اس کے پانی کی شفافیت پر گفتگو شروع کر دی۔ جھیل کے پانی کا ذریعہ صرف بارش ہے اور اسے جاپان کی جھیل ماشو کے بعد دنیا کا خالص ترین پانی سمجھا جاتا ہے، اس میں پائی جانے والی مچھلی کی واحد قسم کا معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا ہے کہ یہ جھیل کے اندر کہاں سے آئی کیونکہ کوئی ندی یا نالا جھیل میں نہیں اترتا
یہ مچھلی اپنی بقا کے لیے اپنی ہی نسل کی دوسری مچھلیوں کو کھا جاتی ہے، اور کم سے کم ایک ہزار سال پہلے یہاں اِنیووِٹ کے علاوہ ایک دوسری نسل کے لوگ بھی آباد تھے
انہوں نے اپنی بات یہ کہہ کر ختم کی ’یہ منظر ایک جیتی جاگتی کتاب ہے۔ اگر ہم وقت نکال کر اسے پڑھیں تو اس میں سیکھنے کا بہت سا سامان ہے۔‘
اور حالیہ برسوں میں لوگ یہ ہی کرنے کے لیے یہاں آ رہے ہیں۔
سنہ 2007 میں کوُبیک کی لیوال یونیورسٹی کی ایک ریسرچ ٹیم نے پروفیسر رینہارڈ پینِٹز کی سرکردگی میں سردیوں میں زیر آب نمونے جمع کیے۔ اس وقت پروفیسر پینِٹز نے اس جھیل کو ’سائنٹیفک ٹائم کیپسول‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جو ہمیں کلائمیٹ چینج اور ایکوسسٹم جیسے مسائل کے بارے میں نئی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔
میں پانی کے کنارے تک گئی تو فیلی نے ایک پتھر اٹھا کر جھیل کی منجمد سطح کی طرف اچھال دیا۔ برف کی پتلی تہہ کے ٹوٹنے سے بننے والی کرچیوں نے فضا میں ایک جلترنگ سی بکھیر دی
ہم نے اس خالص پانی سے اپنی بوتلیں بھریں اور کیمپ کی طرف واپس چل پڑے۔ مگر ہمیں راستے میں اس وقت رُکنا پڑا جب راستے میں کیربو ایک بہت بڑا ریوڑ ہمارے سامنے آیا۔
یہاں شاید ہیرے نہ ہوں مگر قصوں اور سائنسی علم کا ایک خزانہ ضرور ہے، جسے دریافت ہونا باقی ہے، وہ بھی سطح سے چند میٹر نیچے…
رپورٹ: فِیبی سمِتھ / حوالہ: بی بی سی ٹریول