’انڈس کوئین‘ اور ’ڈیرہ کے ٹائیٹینک‘ کی داستان، جو کبھی دریا میں سفر کا ذریعہ تھیں۔۔

ویب ڈیسک

یہ 1857ع کی بات ہے، جب ریاست بہاولپور کے نواب صادق چہارم نے برطانیہ سے اپنے بحری بیڑے کے لیے بڑی کشتیاں منگوائیں، جن میں سے ایک جہاز فتح بہادر، دوسرا دی پرنس اور تیسرا انڈس کوئین تھا

کشتی ستلج کوئین نواب بہاولپور کے ذاتی استعمال میں رہتی اور اس وقت جب انگریز افسران اپنی بیگمات کے ساتھ اس علاقے میں آتے یا نواب بہاولپور کے دیگر مہمان آتے تو یہ انہیں دریا عبور کرنے میں مدد فراہم کرتی تھی

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس کے تحت تین دریا ستلج، بیاس اور راوی بھارت کے حوالے کر دیے گئے۔ اس کے بعد دریائے ستلج ویران ہو گیا اور کشتی دریائے سندھ میں منتقل کر دی گئی، جہاں اس کا نام ’انڈس کوئین‘ رکھ دیا گیا تھا

انڈس کوئین نامی یہ بڑی کشتی ایک سو اڑتیس سال تک نواب آف بہاولپور کے مہمانوں کی سیر و تفریح، شکار اور مقامی افراد کے لیے سیلاب کے دوران ریسکیو، امدای خدمات اور سفری سہولیات فراہم کرتی رہی

اس کشتی کے تین حصے تھے۔ نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور اوپر ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کے لیے تھا، ایک حصہ عورتوں اور ایک مردوں کے لیے مختص تھا۔ اس میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی اس کے علاوہ ایک ریستوران بھی تھا جس سے بیک وقت چار سو مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا

انڈس کوئین کو سنہ 1996 میں کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا، جہاں یہ مِٹھن کوٹ سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتی رہی، حتیٰ کہ سنہ 1996 میں ہائی وے ڈپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہی اور تب سے لے کر اب تک دریائے سندھ کے کناروں سے بھی دور میدانوں میں پڑی ہے

سرائیکی وسیب کے معروف محقق اور سماجی رہنما مجاہد جتوئی کا کہنا ہے کہ ’انڈس کوئین‘ وسیب روہی (سرائیکی بیلٹ) میں پانچ دریاؤں کے سنگم کے مقام پر ریاست بہاولپور کی طرف سے عوام کے لیے ایک شاندار تحفہ تھا

انہوں نے بتایا ”ریاست بہاولپور کا شمار امیر اور خوش حال ریاستوں میں ہوتا تھا اور انڈس کوئین فیری ملتان سے دریائے سندھ میں سمندر تک چلتی تھی۔ پھر دریائے سندھ پر بیراجوں اور دیگر منصوبوں کی وجہ سے اس کا سفر محدود ہو گیا اور قیامِ پاکستان کے بعد اسے حکومت کے حوالے کر دیا گیا“

مجاہد جتوئی کے مطابق یہ بہت خوبصورت اور کشادہ جہاز نما کشتی تھی، جس میں مردوں اور خواتین کے لیے علیحدہ جگہیں مخصوص ہوتی تھیں، جبکہ اس کی کینٹین میں لذیذ کھانوں کا اہتمام کیا جاتا تھا

وہ بتاتے ہیں ”جب یہ جہاز چلتا تھا تو اس کے ساتھ حفاظت کی خاطر دو کشتیاں بھی چلتی تھیں، جن میں لائف جیکٹس بھی موجود ہوتی تھیں“

مجاہد جتوئی کے مطابق دریا کے دونوں کناروں پر اس کشتی کے اسٹیشنز پر مسافر خانے بھی بنائے گئے تھے

’انڈس کوئین‘ کو ساٹھ سال تک چلانے والے اللہ دتہ موہانہ کا کہنا ہے ”میرا تعلق ملاح خاندان سے ہے اور میں نے اپنی جوانی میں ہی اس جہاز پر نوکری شروع کی تھی۔ یہ جہاز بہت آب و تاب کے ساتھ دریائے سندھ میں چلتا تھا، جو مقامی افراد کے لیے آمد و رفت کا بہترین ذریعہ تھا“

انہوں نے بتایا ”ڈیزل پر چلنے والے اس جہاز میں بڑے انجن لگے ہوئے تھے۔ یہ ہر روز صبح دس بجے کوٹ مٹھن سے روانہ ہوتا اور دوپہر دو بجے تک چاچڑان پہنچتا“

اللہ دتہ موہانہ کے مطابق ”جہاز میں چار سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اور ان دنوں ٹرین اور سڑک کے راستے میں وقت زیادہ لگنے کی وجہ سے لوگوں کا زیادہ رجحان اسی جہاز کی طرف تھا“

وہ کہتے ہیں ”اب اگر کبھی اس جہاز کے قریب سے گزرتا ہوں تو ماضی کی یادیں فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں۔۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے“

انڈس کوئین پر ایک طویل عرصے تک مقامی خان محمد بھی بطور ڈرائیور کا کام کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں کل تین بڑی کشتیاں تھیں۔ ایک کشتی ڈیرہ اسماعیل خان بھیج دی گئی جبکہ دو اسی علاقے میں رہے۔ دریائے ستلج خشک ہو جانے کے بعد کشتی دریائے سندھ میں لائے گئے۔ انڈس کوئین اور سٹیمر اس علاقے میں دریا عبور کرنے کا بڑا زریعہ تھے اور یہ دن میں تین سے چار چکر لگاتے تھے

ان کا کہنا تھا کہ قریباً پینتالیس سال پہلے اسٹیمر میں آگ لگنے کے باعث یہ سہولت ختم کر دی گئی، جبکہ انڈس کوئین سنہ 1992 تک دریا میں موجود رہی۔ دریائے سندھ پر پُل کی تعمیر کے بعد انڈس کوئین کو خشکی میں پل کے قریب غیر فعال قرار دے دیا گیا

معروف محقق سلمان رشید کے مطابق یہ جہاز 1930ع کی دہائی کے آخر میں بہاولپور کے امیر صادق محمد خان عباسی پنجم نے دریائے ستلج میں چلایا اور اسے ’ستلج کوئین‘ بھی کہا جاتا تھا۔

اکتوبر 2022 میں کنٹونمنٹ بورڈ بہاولپور کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق نور محل کے احاطے میں انڈس کوئین کی ایک نقل نصب کی گئی اور اسے ہفتے میں تین بار رات کے اوقات میں دیکھنے کے لیے کھلا رکھا جاتا ہے

نقل کی پہلی منزل پر دی گئی معلومات کے مطابق ”انڈس کوئین کو 1867 میں تھامس ریڈ اینڈ سنز نے اسکاٹ لینڈ کے بندرگاہی شہر پیسلے میں بنایا تھا۔ اسے نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی IV نے بنایا تھا اور اسے شاہی خاندان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جب دریائے ستلج زندہ تھا اور شہر کے قریب بہتا تھا۔ ابتدا میں اسے دریائے ستلج کے حوالے سے ستلج ملکہ کا نام دیا گیا۔

تاہم 1947 میں تقسیم ہند اور جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر دستخط کے بعد دریائے ستلج پانی کی قلت کے باعث خشک ہونا شروع ہو گیا، نواب صادق عباسی پنجم نے اسٹیمر کو دریا میں منتقل کر دیا۔ سندھ اور اس کا نام بدل کر انڈس کوئین رکھ دیا

نواب نے کوٹ مٹھن شریف کے صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے عقیدت مندوں کو رحیم یار خان میں کوٹ مٹھن سے چاچڑاں شریف جانے کے لیے جہاز تحفے میں دیا

غازی گھاٹ پل کی تعمیر کے بعد انڈس کوئین ڈوب گئی۔ اس وقت یہ ضلع راجن پور میں مٹھن کوٹ میں تباہ شدہ حالت میں ہے۔“

یہ تاریخی بحری جہاز انڈس کوئین متعلقہ حکام کی عدم توجہی کے باعث اب تیزی سے بوسیدہ ہو رہا ہے۔ انڈس کوئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کے منصوبوں کا کئی بار اعلان کیا گیا، لیکن ان پر کبھی عمل نہ ہو سکا۔ مبینہ طور پر جہاز کے فکسچر اور فٹنگز بھی چوری ہو گئے ہیں

اب اس انڈس کوئین کا ایک ڈھانچہ موجود ہے، جو یہاں سے گزرنے والوں کو ماضی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر اسٹیمر بھی موجود ہے۔ اکثر یہاں سے گزرنے والے افراد کو لگتا ہے، جیسے اس علاقے میں بحری جنگ ہوئی ہو اور تباہ شدہ کشتیاں میدان جنگ میں پڑی ہیں

ان میں سے ایک کشتی طوفان کے بعد پانی میں ڈوب گئی تھی، جسے مقامی لوگ شوخی میں ’ڈیرہ کا ٹائیٹینک‘ بھی کہتے ہیں

ڈیرہ اسماعیل خان میں دریا بُرد ہوئی کشتی کا نام ’ایس ایس جہلم‘ تھا۔ اگرچہ یہ دونوں کشتیاں ہیں تاہم دونوں شہروں کے مقامی افراد انہیں ’بحری جہاز‘ کہتے ہیں

ایس ایس جہلم سنہ 1999 میں طوفان کے بعد دریا میں ڈوب گئی تھی اور ہالی ووڈ کی فلم ’ٹائیٹینک‘ کی ریلز کے بعد اسے بھی مقامی سطح پر ’ڈیرہ کا ٹائیٹینک‘ کہہ کر پکارا جانے لگا

’ایس ایس جہلم‘ عرف ’ڈیرہ کا ٹائیٹینک تین منزلہ بھاپ سے چلنے والی کشتی کوئی پانچ دہائیوں تک دریائے سندھ میں اُس وقت کے صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھی۔ اس کشتی میں پانچ سو مسافروں کی گنجائش تھی

ماضی میں جب ذرائع آمد و رفت محدود اور پختہ سڑکیں نایاب تھیں تب یہ دونوں کشتیاں دریا کے دونوں کناروں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہوتی تھیں۔ ان کشتیوں میں لوگ گاڑیاں، مال مویشی لاد کر لاتے لے جاتے تھے۔ ان کشتیوں کی اپنی تاریخ اور اپنی کہانیاں ہیں اور ان سے جڑی متعدد یادیں ہیں جو اکثر مقامی لوگ بیان کرتے ہیں

سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ کشتی کب بنائی گئی تھی اس کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن اس کشتی کی سنہ 1917 میں تزین و آرائش اور مکمل مرمت کی گئی تھی۔ ریکارڈ کے مطابق یہ کشتی سنہ 1935 تک صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں دریائے سندھ کے کنارے تھی اور پھر سنہ 1935 میں اسے خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان لایا گیا تھا

برطانوی دور میں یہ کشتی مال برداری کے لیے استعمال ہوتی تھی اور چونکہ اس وقت دریائے سندھ پر ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے قریب کوئی پل نہیں تھا تو صوبہ پنجاب جانے کے لیے دریا کو عبور کرنے کے لیے کشتیوں اور لانچوں کا استعمال کیا جاتا تھا

اس بڑی کشتی کے ساتھ چھوٹی کشتیاں اور لانچیں بھی تھیں اور سردیوں میں جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح کم ہو جاتی تھی تو اس بڑی کشتیوں پر موجود چھوٹی کشتیوں سے ایک کچا پل تعمیر کر دیا جاتا تھا

اس کچے پل پر جب گاڑیاں پہنچ جایا کرتی تھیں تو سواریوں کو اتار دیا جاتا، لوگ پیدل پل عبور کرتے اور خالی گاڑی دوسرے کنارے پر پہنچ جاتی اور پھر مسافر اس میں بیٹھ جاتا کرتے

پنجاب جانے کا یہ سفر انتہائی تکلیف دہ ہوا کرتا تھا چند کلومیٹر کا فیصلہ طے کرنے کے لیے گھنٹے لگ جایا کرتے تھے لیکن لوگ کشتی کے سفر کے مزے ضرور لیتے تھے۔ پنجاب کے کچے کے علاقے سے واپسی پر گوالے دودھ بھی اسی کشتی پر لاتے اور اگر کہیں کشتی میں جگہ نہ ہوتی تو پھر دودھ کے بڑے برتنوں جسے مقامی زبان میں ’ولٹوئی‘ کہا جاتا ہے، پر تیر کر آ جاتے تھے

ڈیرہ اسماعیل خان اور پنجاب کے شہر بھکر کے درمیان آر سی سی یعنی پکا پُل سنہ 1985 میں تعمیر ہوا تو اس مشہور کشتی کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی تھی اور پھر اسے دریا کے کنارے مستقل طور پر لنگر انداز کر دیا گیا

25 جولائی 1999 کی بات ہے، جب طوفان نے علاقے میں تباہی مچا دی تھی۔ درخت اور بجلی کے کھمبے گر گئے تھے اور اس طوفان میں یہ کشتی بھی محفوظ نہ رہ سکی

سرکاری فائلوں کے مطابق کشتی کا پیندہ زنگ آلود ہو چکا تھا اور ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ طوفان کی وجہ سے دریا میں بننے والی بڑی لہروں نے کشتی کو نقصان پہنچایا اور پیندے میں سوراخ کی وجہ سے یہ ڈوبنے لگی

حکام کے مطابق عملے نے اسے بچانے اور سوراخ بند کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور آخر کافی تگ و دو کے بعد انھوں نے بحالی کا کام چھوڑ دیا اور یہ بڑی کشتی بالکل ٹائیٹینک کی طرح آہستہ آہستہ زیر آب جانے لگی

کافی عرصے تک کشتی کا بالائی حصہ پانی کے اوپر نظر آتا رہا جبکہ باقی ماندہ حصہ پانی کے اندر چلا گیا تھا اور بلآخر یہ ہمیشہ کے لیے دریا برد ہو گئی

اب اس کشتی کی کچھ تصاویر ایک اردو فلم ’دلہن ایک رات کی‘ کے ایک سین میں قید ہیں اور کچھ پرانے لوگوں کے ذہنوں میں اس کی یادیں باقی ہیں

اس کشتی کے عملے میں جانو کپتان، کالو کپتان اور خدا بخش اسٹیئرنگ ڈرائیور ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عملے کے دیگر افراد بھی موجود ہوتے تھے

ملک خدا بخش ماہڑہ زمیندار اور سماجی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کے والد اس کشتی پر کام کرتے تھے۔ م۔ ملک خدا بحش ماہڑہ بتوتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر اس کشتی پر جایا کرتے تھے اس لیے ان کی یادیں آج بھی اس سے وابستہ ہیں

ان کا کہنا تھا کہ کشتی کے سب سے اوپر والے عرشے پر جانو کپتان ہوتا تھا اور بالکل نیچے دیگر عملہ ہوتا تھا، جو اسٹیمر یعنی بھاپ بنانے اور کشتی کے وہیل کی سمت کا تعین کرتے تھے اور ان کا رابطہ پیتل کے لمبے پائپ جیسے ایک دیسی ساختہ فون سے ہوتا تھا

جانو کپتان نے اگر نیچے عملے کو کچھ بتانا ہوتا تھا تو وہ اس پائپ میں پھونک مارتے تو اس سے سیٹی بجتی تھی تو نیچے عملہ جان لیتا کہ کپتان کچھ کہنا چاہتا ہے، اس پر وہ پھونک مارتے تو جانو کپتان کو معلوم ہو جاتا کہ وہ اب اس کی بات سننے کے لیے تیار ہیں اور یوں وہ ایک دوسرے کو پیغامات دیا کرتے تھے

انہوں نے بتایا کہ دریائے سندھ میں جب پانی زیادہ ہوتا تھا تو کشتی گھوم گھوم کر پنجاب کے علاقے دریا خان تک جاتی اور اسے واپس اپنے راستے پر لانے میں چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے تھے۔ کشتی صبح جاتی اور شام کو واپس ڈیرہ اسماعیل حان پہنچ جاتی تھی

ان کا کہنا تھا کہ کشتی پر سواری کا کرایہ نیچے بیٹھنے کے دو آنے اور اوپر عرشے پر بیٹھنے کے چار آنے ہوتا تھا

ملک خدا بخش ماہڑہ نے بتایا کہ کشتی پر چنے کی دال پکتی تھی، جو بہت لذیذ ہوتی تھی اور مسافر اور عملے کے ارکان وہ دال شوق سے کھاتے

ان کی یادوں کے مطابق اکثر ایسا بھی ہوتا کہ دریا میں اگر کہیں پانی کم گہرا ہوتا تھا تو کشتی اُدھر پھنس جاتی اور اسے نکالنے میں پورا پورا دن یا دو دن بھی لگ جاتے۔ کشتی ایسی حالت میں مخصوص ہارن بجاتا جو شاید آپ نے فلموں میں سنا ہوگا۔۔ ٹائیٹینک فلم میں بھی مدد کے لیے ویسا ہی ہارن بجایا گیا تھا

ہارن کی آواز سن کر لانچیں ادھر پہنچ جاتیں اور وہ سواریوں کو اپنی منزل پر پہنچا دیتی تھیں۔ کشتی روانگی سے پہلے تین مرتبہ ہارن دیتی، ایک تیاری کا، دوسرا سواریوں کے بیٹھنے کا اور تیسرا لنگر اٹھانے کا، جس کے بعد یہ منزل کی جانب روانہ ہو جاتی تھی۔۔

لیکن اب نہ وہ منزلیں رہیں، نہ کشتیاں اور نہ ہی دریاؤں میں وہ طلاطم خیز موجیں ہی باقی رہی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close