وبا کی شکل اختیار کر جانے والے موٹاپے کی وجہ کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ بچوں میں کھانے کی ڈیلیوری ایپس کا استعمال اور آن لائن گیمنگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پورے یورپ میں موٹاپے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے، جبکہ دوسری جانب اب یہ رجحان یورپ کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر خطوں میں بھی بڑھ رہا ہے
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ 2025 تک بڑھتے ہوئے موٹاپے کو روکنے کے لیے کوئی بھی یورپی ملک خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا
تقریباً 60 فیصد بالغ افراد اور ایک تہائی بچے زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں اور کووڈ کی وبا نے اس صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے
عالمی ادارہ صحت کی تجویز ہے کہ بچوں کے لیے غیر صحت بخش کھانوں کی تشہیر پر پابندی لگائی جائے، صحت بخش خوراک کی قیمت کم کی جائے اور ہر عمر کے افراد کو زیادہ ورزش کرنے کی ترغیب دی جائے
ڈبلیو ایچ او کی 2022ع کی ریجنل اوبیسٹی رپورٹ کے مطابق زیادہ وزن اور موٹاپے کی شرح ’وبا کے تناسب‘ تک پہنچ گئی ہے اور امریکا میں بالغ افراد میں موٹاپے کی شرح یورپ سے بھی زیادہ ہے
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان کا اندازہ ہے کہ یہ مسئلہ یورپ میں ہر سال بارہ لاکھ اموات کا سبب بن رہا ہے۔ اس میں تمام اموات کا 13 فیصد اور کم از کم کینسر کے دو لاکھ سالانہ نئے مریض شامل ہیں
واضح رہے کہ جسم میں زیادہ چربی سے کئی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جن میں تیرہ قسم کے کینسر، ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کے مسائل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں۔ رپورٹ میں اسے معذوری کی بنیادی وجہ بھی کہا گیا ہے
موٹاپا ایک ’پیچیدہ بیماری‘ ہے اور اس کی وجہ صرف غیر صحت بخش خوراک اور جسمانی طور پر ورزش کی کمی نہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ کا انتہائی ڈیجیٹلائزڈ ماحول کھانے پر اثر انداز ہو رہا ہے، جو یہ طے کرتا ہے کہ لوگ کب، کیا اور کیسے کھاتے ہیں اور اس کی زیادہ قریب سے نگرانی کی ضرورت ہے
مثال کے طور پر کھانے کی ڈیلیوری ایپس زیادہ چکنائی اور زیادہ چینی والے کھانے اور مشروبات کے استعمال کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں
برطانیہ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیک اوے کھانا کھانے کا مطلب ہے گھر میں تیار کیے گئے کھانے کے مقابلے میں روزانہ اوسطاً دو سو زیادہ کیلوریز استعمال کرنا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ایک ہفتے کے دوران ایک بچہ ایک اضافی دن کی کیلوریز کے برابر کھانا کھا رہا ہے
لیکن موٹاپے پر یورپی کانگریس میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ آن لائن خوراک اور کھانا ڈیلیور کرنے کے نظام کو خوراک کو بہتر بنانے، صحت مند خوراک تک رسائی اور تندرستی کے حوالے سے مثبت طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے
آن لائن گیمنگ بچوں میں بہت مقبول ہے، لیکن اس کا تعلق بھی غیر صحت مند خوراک، غیر صحت بخش رویے اور فعال رہنے کے بجائے زیادہ وقت بیٹھنے سے جوڑا گیا ہے
لیکن یہاں بھی ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے
مالٹا اور ترکی کے بعد تیسرے نمبر پر بالغوں میں موٹاپے کی سب سے زیادہ شرح برطانیہ میں ہے
دنیا میں زیادہ وزن والے بالغ افراد کی تعداد کے حساب سے اسرائیل، مالٹا اور ترکی کے بعد برطانیہ چھوتھے نمبر پر ہے
زیادہ وزن یا موٹاپے کے اثرات کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں آٹھ فیصد، پانچ سے نو سال کے بچوں میں 29 فیصد، 10-19 سال کی عمر کے نوجوانوں میں 25 فیصد مرتب ہوتے ہیں
برطانیہ میں موٹاپے سے نمٹنے کے لیے کچھ پالیسیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔ ان میں بڑے ریستورانوں اور کیفے پر لازم ہے کہ وہ قانون کے مطابق کھانے کی ڈش کے ساتھ کیلوریز کی معلومات ظاہر کریں، اسی طرح کا نظام اسکاٹ لینڈ کے لیے بھی زیر غور ہے
انگلینڈ میں موسم خزاں میں ’ایک خریدیں، اور ساتھ ایک مفت حاصل کریں‘ جیسی تشہیری مہمات کو مرحلہ وار ختم کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا کیونکہ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ایسی مہمات لوگوں کو ان کی ضرورت سے 20 فیصد زیادہ خوراک خریدنے کی ترغیب دیتی ہیں
برطانیہ بھر میں رات 9 بجے سے پہلے چینی، نمک اور چکنائی والے کھانے کے ٹی وی اشتہارات پر پابندی لگانے کا بھی منصوبہ ہے
مذکورہ بالا صورت حال کے پیش نظر پاکستان جیسے ممالک میں بھی ضروری ہے کہ وبا کے تناسب تک پہنچنے والے موٹاپے کی روک تھام کے لیے پیشگی اقدامات کئے جائیں.