آخر پاکستان پلاسٹک کا کچرا درآمد کیوں کرتا ہے؟

جمیل احمد

ہماری زمین پلاسٹک میں ڈوبتی جارہی ہے۔ پلاسٹک کے آسان، سستے اور پائیدار ہونے کی وجہ سے گزشتہ 70 برسوں میں اس کی پیداوار اور کھپت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں 9 ارب 20 کروڑ ٹن پلاسٹک تیار ہوا جو اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر ماحولیات اور انسانی زندگی کو نقصان پہنچا رہا ہے

پلاسٹک کا بے تحاشہ استعمال معیشتوں پر بھی اثر انداز ہورہا ہے۔ یہ بات زرعی شعبے میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں پلاسٹک کی وجہ سے زمین کی زرخیزی اور فصل کی پیداوار میں کمی آرہی ہے جو غذائی قلت کی وجہ بن رہی ہے

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی جانب سے مارچ 2022ء میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ زرعی زمینیں بڑے پیمانے پر پلاسٹک سے آلودہ ہیں۔ زرعی شعبے میں سالانہ ایک کروڑ 25 لاکھ ٹن پلاسٹک کی اشیا استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ اشیا زیادہ تر فصل کی پیداوار اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں

اسی طرح اشیا خور و نوش کی پیکنگ میں بھی 3 کروڑ 77 لاکھ ٹن پلاسٹک استعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں زرعی پیداوار میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ استعمال ایشیا میں ہوتا ہے جو عالمی کھپت کا تقریباً نصف بنتا ہے

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ‘قابلِ عمل متبادل کی عدم موجودگی کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ ہی ہونا ہے’۔ جس دوران ماحول دوست حل تلاش کیے جائیں اس دوران پلاسٹک کی اس بڑے پیمانے پر تیاری اور استعمال کے لیے فضلے کے بروقت اور مناسب انتظام کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے

ایک اندازے کے مطابق 2018ء میں 29 کروڑ 10 لاکھ ٹن فضلہ پیدا ہوا لیکن اس کے صرف 20 فیصد کو ہی درست انداز میں ٹھکانے لگایا گیا یا ری سائیکل کیا گیا۔ پلاسٹک کا باقی فضلہ یا تو زمین میں دفن کردیا گیا یا پھر غریب ممالک میں کھلی فضا میں ڈال دیا گیا۔ اس سے زمین اور سمندروں میں پڑے پیمانے پر آلودگی پھیلی جس نے انسانی زندگیوں اور جنگلی حیات کو خطرے میں ڈالا

ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی مصنوعات بشمول پانی کی بوتلیں، شاپنگ بیگز اور پیکیجنگ کا سامان ماحول کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کے گلنے میں چار سو سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ پاکستان نے بھی کئی دیگر ممالک کی طرح پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس کے مؤثر ہونے کے لیے اس پابندی کو سختی سے نافذ کرنا ہوگا

دیگر یکساں طور پر نقصاندہ ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی مصنوعات وافر مقدار میں استعمال ہورہی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ہیلتھ کیئر ورکرز کے لیے ذاتی تحفظ کے آلات اور دیگر طبّی آلات کی صورت میں ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوا جو مزید آلودگی کا باعث بنا

پلاسٹک کی بڑے پیمانے پر ہونے والی آلودگی اور اس کی بین الاقوامی نوعیت کی وجہ سے قومی اور مقامی سطح کے اقدامات ناکافی اور کم مؤثر ثابت ہورہے ہیں۔ یوں یہ پلاسٹک کی آلودگی ماحولیات سے متعلق عالمی خطرہ بن چکی ہے

یونائیٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام کے اندازے کے مطابق ہر سال ایک کروڑ نوے لاکھ سے دو کروڑ تیس لاکھ ٹن پلاسٹک دریاؤں میں جاتا ہے اور اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ‘2040ء تک دریاؤں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا’۔ بدقسمتی سے ایک بار جب ضائع شدہ پلاسٹک گلنے کے بعد مائیکرو پلاسٹک میں تبدیل ہوجاتا ہے تو یہ سمندری حیات کو مزید آلودہ کردیتا ہے اور فوڈ چین میں داخل ہوجاتا ہے

پلاسٹک کے فضلے کی بین الاقوامی تجارت اس مسئلے کا ایک اور پہلو ہے جس کے غریب ممالک کے لیے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کے فضلے کی بڑی مقدار ترقی پذیر ممالک بھجوا دی جاتی ہے جہاں فضلے کے انتظام کا محدود بندوبست ہوتا ہے

پاکستان بھی صنعتوں اور ری سائیکلنگ میں استعمال کے لیے پلاسٹک کا فضلہ درآمد کرتا ہے۔ 2018ء میں پاکستان نے اس مد میں ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر خرچ کیے تھے۔ اگرچہ اس فضلے کا بڑا حصہ قانونی طور پر فروخت کیا جاتا ہے تاہم جنوبی ایشیا اور افریقہ میں یہ اسمگل بھی ہوتا ہے جس سے اس کی کل مقدار کا اندازہ ہوتا ہے

بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے سے پلاسٹک کے فضلے کی غیر قانونی تجارت اور ماحولیاتی نقصان کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اقوامِ متحدہ ریگولیٹری اقدامات، آگاہی مہمات اور سرکلریٹی کی جانب پیش قدمی کے لیے شراکت کو فروغ دیتے ہوئے ان کوششوں کی حمایت کرتا ہے

اگرچہ دنیا کے پاس ابھی تک اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پلاسٹک کے انتظام کا جامع طریقہ کار موجود نہیں ہے تاہم اقوامِ متحدہ 2024ء تک پلاسٹک کی آلودگی پر ایک بین الاقوامی اور قانونی طور پر پابند معاہدہ تیار کرنا چاہتا ہے تاکہ پلاسٹک کے مکمل لائف سائیکل پر کام کیا جاسکے جس میں اس کی پیداوار، ڈیزائن اور اسے ٹھکانے لگانا بھی شامل ہے

یہ موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی اور فضلے کے ‘ٹرپل پلینٹری’ بحران سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے۔ ممالک کو پالیسی سازی، پلاسٹک کے ماحول دوست متبادل کے لیے تحقیق کو فروغ دینے اور سرکلر معیشت میں سرمایہ کاری کے لیے نجی سرمائے کو متحرک کرنے کے ذریعے قابلِ عمل حالات تیار کرنے ہوں گے

اگلے دو سالوں میں معاہدے کی تیاری کے عمل کے دوران حکومتوں، صنعتوں، کاروباری اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے یہ اہم ہوگا کہ وہ اس چیلنج کے لیے کمربستہ ہوں اور پلاسٹک کی قلیل مدتی سہولت کو نظر انداز کرتے ہوئے متوازن اور صحت مند ماحولیاتی نظام کے مقصد پر توجہ مرکوز کریں۔ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کی خاطر یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ ماحولیاتی کثیر الجہتی ایک انتہائی مشکل کام ہے

نوٹ: مضمون کے لکھاری یونائیٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام میں بین الحکومتی امور کے ڈائریکٹر ہیں. یہ مضمون 24 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا. یہاں اسے ادارے اور لکھاری کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close