ہوش سنبھالنے کے بعد یہی سنتے اور کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے، لیکن دیکھا یہ ہے کہ ہمارا ملک ایک ایسا جمہوری ملک ہے، جہاں جمہوریت نہیں ہے
ہوش سنبھالنے کے بعد یہی سنتے اور کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ ہمارا ملک ایک آزاد ملک ہے، لیکن دیکھا یہ ہے کہ ہمارا ملک ایک ایسا آزاد ملک ہے، جہاں آزادی نہیں.. عوام کی تو خیر بات ہی کیا ہے، خود حکمراں بھی اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں
سچ پوچھیے تو ہوش سنبھالنے کے بعد جو کچھ بھی دیکھا یا سنا ہے، اس نے ہوش کو سنبھلنے ہی نہیں دیا
جو حکمراں بھی آیا، اپنے ساتھ ردالیوں کا ایک ایسا گروہ لایا، جو گئی حکومتوں پر لعن طعن کرے، اگرچہ وہ خود ہی کیوں نہ ان حکومتوں میں شامل رہا ہو..
ہم نے ہمیشہ دیکھا اور سنا کہ ہر نئی حکومتوں میں شامل یہ لوگ آتے ہی اپنے سربراہ کی سنگت میں اک معاشی ماتم کرنے بیٹھ جاتے ہیں ”خزانہ خالی ہے… اک دھیلا بھی نہیں بچا“ اور پھر یہ ماتم تب تک چلتا ہے، جب تک ان کی حکومت چلتی ہے…
پھر اک نئی حکومت آتی ہے، اور اسی معاشی ماتم میں لگ جاتی ہے… سینہ پِیٹ پِیٹ کر خزانہ خالی ہونے کا اعلان کرتی ہے، عوام آنکھیں بند کر کے اور منہ پھاڑے خالی پیٹ کے ساتھ خزانہ خالی ہونے کا یہ ماتم سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں
اسی صورت حال پر بچپن کی ایک بات بات یاد آئی، آپس میں دو رشتہ دار تھے. جب بھی کوئی شخص ان کے ہاں کسی کام سے آتا، اس سے پہلے کہ وہ ان سے کچھ کہتا، وہ دونوں پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت آپس میں لڑ پڑتے… اک کہتا تُو ایسا، تَو دوجا کہتا تُو ویسا.. اور اس اس ایسا ویسا میں کام سے آیا شخص ان کا منہ تکتا دل کی دل میں لے کر پلٹ جاتا اور یہ گتھم گتھا اس کے پلٹتے ہی آپس میں لپٹ لپٹ جاتے
ایسے میں وہ بیچارہ اپنی عرض کیا رکھتا، کہ یہ تو پہلے ہی ہمیشہ ”خزانہ خالی ہونے کی“ قوالی سنانے بیٹھ جاتے
واقعہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو چلتا کر دیا گیا. اس کی وجہ اپوزیشن کی جمہوری جدوجہد تھی، سازش تھی یا مداخلت… کچھ بھی ہو لیکن آتے ہی نئی حکومت کا معاشی ماتم شروع ہو گیا ہے. وزیراعظم شہباز شریف ہوں یا وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل… ان کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے
لیجیے سنیے… وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدے کیے ہیں وہ نقصان دہ ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدوں پر عمل درآمد کرنے پر زور دے رہی ہے۔ پچھلی حکومت ہمارے لیے مسائل کے انبار چھوڑ کر گئی ہے، ہمیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی۔ ہمیں نہیں اندازہ تھا کہ معاملات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی برقرار رکھی تو مئی کے مہینے میں 104 ارب روپے سبسڈی دینا پڑے گی
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل فرماتے ہیں ’عمران خان نے سبسڈی تو دے دی لیکن یہ بھی بتائیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ قانون کے مطابق اسٹیٹ بینک سے قرض لے نہیں سکتے۔ اگر لے بھی لیا تو مزید روپے چھاپنے پڑیں گے، جس سے مہنگائی بڑھے گی۔ نجی بینکوں سے اتنا پیسہ ادھار لیں گے تو درآمدات کے لیے پیسہ نہیں بچے گا۔ ایل سی نہیں کھل سکیں گی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا‘
ہاں تو وزیر خزانہ صاحب ، اسٹیٹ بینک سے قرض نہ لے سکنے پر یاد آیا… گزشتہ حکومت اسٹیٹ بنک ترمیمی آرڈیننس لائی تھی.. جس کے خلاف بلاول بھٹو زرداری نے عدالت جانے کا اعلان کیا تھا، پیپلز پارٹی سراپا احتجاج تھی.. ن لیگ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ہے.. آپ لوگ کہہ رہے تھے، کہ اس آرڈیننس سے ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے اور ہاں… یہ بھی تو کہا تھا آپ نے، کہ اس سے اسٹیٹ بنک کا گورنر وزیراعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہو گیا ہے… چلو مان لِیں آپ کی ساری باتیں، تو پھر اب دیر کاہے کی ہے، اب تو آپ حکومت میں ہیں، اکثریت میں ہیں، ملک کی ہر پارٹی الا ماشاءاللہ حکومت میں حصہ بقدر جثہ شامل ہے… تو پھر ختم کریں اس آرڈیننس کو اور چھڑا لیں اپنی معیشت کو آئی ایم ایف کے چنگل سے… آخر کو یہ سقوطِ ڈھاکہ جیسا بڑا سانحہ تھا، کچھ تو مداوا کر لیں اس کا… یا بس معاشی ماتم ہی کرنے آئے ہیں آپ؟
چلو ہم تو معیشت کے کھیت کی مولی ہیں بھی نہیں.. سو کچھ نہیں کہتے لیکن جو اس سے وابستہ ہیں ہیں، انہی کی سن لیتے ہیں
خالد عثمان لاہور چمبر آف کامرس انڈسٹریز پروگریسیو گروپ کے صدر ہیں۔ انجینیئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اسی حوالے سے وسیع کاروبار چلا رہے ہیں
یقیناً اپنے شعبے کے تقاضے کے تحت وہ صنعتی کارکردگی، روزگار، شرح نمو، مہنگائی، شرح سود اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے باخبر رہتے ہیں، کیونکہ یہ تمام فیکٹرز ان کے کاروبار کو متاثر کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی حالیہ پریس کانفرنس سن کر وہ بھی سن ہو گئے ہیں
خالد عثمان بھی سوچ رہے ہیں کہ مفتاح اسماعیل صرف مسائل بتا رہے ہیں لیکن ان کا حل پیش نہیں کر رہے ہیں۔ معیشت کی جو عکاسی وزیر خزانہ نے کی ہے، اس کے مطابق آنے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی، شرح سود میں اضافہ ہو گا اور بینکوں سے ایل سی کھولنے میں پریشانی کا سامنا ہوگا۔ شرح سود بڑھنے اور ایل سی میں رکاوٹ کے سبب مشینری اور اس کے پرزوں کی درآمدات رک سکتی ہے، جس سے ان کا انجینیئرنگ کا کاروبار براہ راست متاثر ہوگا
اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے خام مال کی قیمت بڑھے گی اور زیادہ سرمایہ بلاک کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی وزیر خزانہ کے غیر ضروری بیانات کے سبب کاروباری حضرات نے سرمایہ روک لیا ہے۔ اگر وہ تمام فیصلے لے لیے گئے، جن پر عمل درآمد کے خدشے کا اظہار وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا ہے تو مجھ سمیت بہت سے کاروباری حضرات سرمایہ بیرون ملک منتقل کر سکتے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ میری کمپنی کا عملہ انتہائی قابل ہے۔ انہیں بیرون ملک سے ملازمتوں کی آفر ہے، لیکن پچھلے دو سالوں میں ملک میں صنعتی ترقی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بیرون ملک جانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ’اگر کسی وجہ سے صنعتی ترقی میں رکاوٹ پیدا کی گئی تو میری کمپنی کے ماہر انجینیئر بھی بیرون ملک منتقل ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، جس سے نہ صرف میرا کاروبار متاثر ہو گا بلکہ یہ پاکستان کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا‘
اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک کچھ دوستوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر رکھا تھا، لیکن مفتاح اسماعیل کی حالیہ پریس کانفرنس کے بعد بیرون ملک دوستوں نے سرمایہ کاری کا فیصلہ منسوخ کر دیا ہے۔ اب وہ پاکستان کی بجائے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کا منصوبہ بنا رہے ہیں
وہ سوچتے ہیں کہ پاکستان میں ہر نئی آنے والی حکومت نے معاشی مسائل کی جڑ پچھلی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو قرار دیا ہے، جبکہ عوام کی توقع یہ ہوتی ہے کہ نئی قیادت جو بڑے دعوے کر کے حکومت میں آئی ہے وہ اپنے وعدے پورے کرے
اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے جب انہوں نے اپنے معاشی ماہر دوست سے تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی ن لیگ سے یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ نئی حکومت بنانے والوں کے پاس کون سی پالیسی ہے، جس سے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے؟ آمدن میں اضافہ کیسے ہوگا؟ برآمدات کیسے بڑھیں گی؟ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کیسے کنٹرول کریں گے؟ مہنگائی کیسے کم ہوگی اور شرح سود کو کیسے قابو میں رکھا جائے گا؟
اس وقت بھی ان کے پاس جواب نہیں تھا اور آج بھی ان کے پاس کوئی متاثر کن پالیسی دکھائی نہیں دے رہی۔ جب عام آدمی کو معاشی مسائل کا علم تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مفتاح اسماعیل ان سے بے خبر ہوں۔ ہر حکومت آخری سال میں عوام کو ریلیف دیتی ہے۔ تحریک انصاف بھی عوام کو ریلیف دینے کے نئے منصوبے لا رہی تھی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور کاروبار کے لیے سستے قرضوں سمیت کئی منصوبوں کا اعلان کیا جا چکا تھا اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا دکھائی دے رہا تھا
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا تھا کہ تحریک انصاف نے پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی کے لیے علیحدہ سے فنڈز رکھ دیے ہیں اور عمران خان نے بھی کہا تھا کہ ٹیکس زیادہ اکٹھا ہونے کی وجہ سے سبسڈی دی گئی ہے
ایسے میں خالد عثمان سوچ رہے ہیں کہ مفتاح اسماعیل اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دے رہے، جس کے باعث کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ وہ یہ جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ پچھلی حکومت کیسی تھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے اور اگر موجودہ حکومت مسائل حل نہیں کر سکتی تو جواب دے کہ چلتی حکومت کو گرانے اور نئی حکومت بنانے کی کیا ضرورت تھی!؟
خالد عثمان کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مفتاح اسماعیل کا زیادہ زور عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے عوام کو معیشیت سمجھانے پر ہے۔ شاید مفتاح یہ نہیں جانتے کہ کاروباری حضرات ہوں یا تنخواہ دار طبقہ ہو ان کی معیشیت روٹی، کپڑا اور مکان کے گرد گھومتی ہے۔ اور عوام معیشت کے اعداد و شمار کو سرکار سے بہتر سمجھتی ہے
خالد عثمان کا کہنا ہے کہ ظفر پراچہ کے خدشات درست ہو سکتے ہیں انہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ نئی حکومت کا عدم اعتماد کا ایڈونچر پاکستان کو مہنگا پڑ رہا ہے
ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے ان کا کاروبار بڑھ رہا تھا اور وہ اس کا کریڈٹ تحریک انصاف کی معاشی پالیسیوں کو دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کاروباری حضرات کو انڈسڑی لگانے کے لیے سستے قرضے دینے سے صنعتوں کی تعداد اور کارکردگی میں اضافہ ہوا، جب کہ شرح نمو میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہوا
وہ کہتے ہیں کہ میں تو موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا اس وقت معترف ہوں گا جب شرح سود کم ہو، انڈسٹریل سبسڈی ختم نہ کی جائے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رہیں، زیادہ سرمایہ بلاک نہ ہو اور میرا ماہر سٹاف ملک چھوڑ کر باہر نہ جائے
’اگر موجودہ حکومت نے مخلصانہ طور پر ملک کی معاشی بہتری کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے تو اسے اپنے دعوے کو ثابت بھی کرنا چاہیے اور اگر صرف اقتدار کے حصول کے لیے یہ ایڈونچر کیا گیا ہے تو پاکستان اور اس کی عوام کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔‘
سو شہباز شریف صاحب اور مفتاح اسماعیل صاحب، معاشی ماتم ہی میں لگے رہنا ہے یا کچھ کیجیے گا بھی؟