جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زیڈ ٹی) نامی ایک تنظیم سے وابستہ زکریا خان تھیلیسیمیا کے جنگ کر رہے ہیں، وہ نہ صرف اپنے خاندان اور دوستوں میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروانے کی آگہی پھیلا رہے ہیں، بلکہ ان میں سے کسی کا نتیجہ مثبت آنے پر شادی رکوانے کی حد تک بھی چلے جاتے ہیں
زکریا خان کا کہنا ہے کہ جے زیڈ ٹی ایک بلڈ سوسائٹی ہے، جو تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون عطیہ کرتی ہے
راولپنڈی کے ایک تھیلیسیمیا سینٹر میں خون کا عطیہ دینے کے لیے موجود زکریا خان نے بتایا کہ وہ ہر ڈھائی سے تین ماہ بعد خون کا عطیہ دیتے ہیں اور اب تک کم از کم بارہ مرتبہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے خون عطیہ کر چکے ہیں
ان سے اس تواتر کے ساتھ خون کا عطیہ دینے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا ”میں جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا کا ممبر ہوں۔ یہ ایک بلڈ سوسائٹی ہے۔ رضاکار بننے کے بعد ہمیں آگہی دی گئی کہ تھیلیسیمیا کتنی خطرناک بیماری ہے اور اس کے مریض کتنی اذیت سے گزرتے ہیں“
زکریا کہتے ہیں ’تھیلیسیمیا کے مریضوں کو ہر پندرہ روز بعد خون لگتا ہے۔ اب اگر ہمارے جیسے رضاکار خون عطیہ نہ کریں تو ان کو درکار خون کہاں سے مہیا ہوگا؟ بس اسی سوچ کی وجہ سے میری کوشش ہوتی ہے کہ خون کا عطیہ دینے میں تاخیر نہ ہو“
زکریا خان نے جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا میں اپنے کردار کے حوالے سے مزید بتایا کہ ’میرے ذمے چار تھیلیسیمیا کے مریض ہیں۔ ان چار مریضوں کے لیے میں نے مہینے میں آٹھ بوتلیں خون کا عطیہ جمع کرنا ہوتا ہے۔ اگر میں خود عطیہ کر سکوں تو ایک بوتل خون خود کر دیتا ہوں۔ باقی دیگر دوست احباب اور مخیر حضرات سے جمع کرتا ہوں۔‘
زکریا نے بتایا کہ جہاد فور زیرو تھیلسیمیا کے ہر رضاکار کو کم و بیش یہی حدف ملا ہوا ہے
جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا نامی رضا کار تنظیم کے بانی غلام دستگیر نے بتایا اس تنظیم کی بنیاد 2010ع میں لاہور میں ڈالی گئی تھی۔ آج پاکستان کے 80 شہروں میں جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا کے ہزاروں رضاکار موجود ہیں، جو تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون عطیہ کرتے ہیں
غلام دستگیر کا کہنا تھا ”ہم یہ مشن بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں کہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو اور ان کے خاندانوں کو آگہی بھی دی جائے کہ اس مرض کو ہم پاکستان سے بالکل ختم کر سکتے ہیں اگر مریض اور خاندان والے اپنا ٹیسٹ کروائیں اور جتنے مائنر شناخت ہوں، وہ آپس میں شادی نہ کریں‘
یاد رہے کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے، جو بچے کو اپنے والدین سے لاحق ہوتا ہے۔ اس مرض کی دو اقسام ہیں۔ ایک تھیلیسیمیا مائنر جو مہلک نہیں ہوتی۔ دوسری تھیلیسیمیا میجر جو مہلک ہوتی ہے اور مریض کو تقریباً ہر پندرہ روز بعد نیا خون لگوانا پڑتا ہے
راولپنڈی میں ایک غیر سرکاری تنظیم سلطانہ فاؤنڈیشن کے تھیلیسیمیا سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر شازیہ بتاتی ہیں ”تھیلیسیمیا میجر اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ ماں باپ جو تھیلیسیمیا میجر کیریئر ہوتے ہیں“
ڈاکٹر شازیہ کا کہنا تھا ’تھیلیسیمیا مائنر کے مریضوں کو خود کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ صرف ان کا ایچ پی تھوڑا کم ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا ’جب دو تھیلیسیمیا کیریئرز کی شادی ہوتی ہے تو ان کے ہاں ہر زچگی میں 25 فیصد تھیلیسیمیا میجر کااندیشہ ہوتا ہے جبکہ 50 فیصد کیریئر اور 25 فیصد نارمل کا بھی چانس ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر شازیہ نے بتایا ’پاکستان وہ علاقہ ہے، جہاں تھیسلیمیا کا جین بہت عام ہے۔ اس لیے جو بھی شادی ہو پہلے دونوں ٹیسٹ کروا لیں۔ اگر وہ دونوں کیریئرز تشخیص ہو جاتے ہیں تو پھر انہیں شادی نہیں کرنی چاہیے۔‘
زکریا خان کو جب تھیلسیمیا سے متعلق یہ آگہی ملی تو انہوں نے اپنے سماجی سرکل میں اس اپنانے کا فیصلہ کیا
اس حوالے سے زکریا نے بتایا کہ ’حال ہی میں مجھے ایک شادی کی دعوت آئی تھی فیصل آباد سے۔ میرا دوست کہہ رہا تھا کہ بڑے بھائی کی شادی ہے، آپ نے لازمی شرکت کرنی ہے‘
زکریا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ان سے اتفاقاً بات کی کہ کیا آپ کے بھائی نے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروایا ہے؟ تھیلیسیمیا کے بارے میں آپ کو پتہ ہے؟ انہوں نے کہا مجھے تھیلیسیمیا کے بارے میں کوئی علم نہیں‘
زکریا نے اپنے دوست کو تھیلیسیمیا سے متعلق بنیادی معلومات مہیا کیں، جس کے بعد ان کے بھائی اور ہونے والی بھابھی نے ٹیسٹ کروایا تو دونوں کا نتیجہ مثبت تھا
زکریا نے بتایا ’شادی طے ہوچکی تھی۔ جہیز ان کے گھر پہنچ چکا تھا۔ وہ دونوں تھیلیسیمیا مائنر تھے۔ جب دو مائنر آپس میں ملتے ہیں تو ان کا جو بچہ ہوتا ہے، وہ تھیلسیمیا میجر ہوتا ہے۔ اب ساری عمر ان کے بچے کو خون لگتا رہتا‘
زکریا نے بتایا کہ یہ جاننے کے بعد وہ شادی رکوا دی گئی
زکریا کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے خاندان میں تھیلیسیمیا کی آگہی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ چار سے پانچ شادیاں ایسی تھیں، جن میں کہا کہ پہلے آپ نے لازمی ٹیسٹ کروانا ہے۔ انہوں نے اپنا ٹیسٹ کروایا۔ رپورٹس آئیں۔ اس کے بعد انہوں نے شادی کی ہے‘
ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ اب ایسا بھی نہیں کہ تھیلیسیمیا مائنر مرد یا عورت کی شادی ہو ہی نہیں سکتی
انہوں نے کہا ’اب یہ مسئلہ نہیں کہ اگر کوئی کیریئر تشخیص ہو گیا ہے تو وہ شادی ہی نہیں کر سکتا۔ وہ شادی کر سکتا ہے لیکن ایک کیریئر نارمل شخص سے شادی کرے۔‘
انہوں نے میڈیکل بنیادوں پر اس کی توجیہہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب نارمل سے شادی ہوتی ہے تو پھر چانس ہوتے ہیں کہ 50 فیصد نارمل بچہ پیدا ہو اور 50 فیصد کیریئر پیدا ہونے کے چانس ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ تھیلیسیمیا مائنر مرد اور عورت کی شادی نہ کرنے کی تجویز کو اب بھی پاکستان کے کچھ علاقوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا
انہوں نے بتایا کہ ’خاص کر جہاں پر تعلیم نہیں ہے وہاں کے لوگ اس چیز کو نہیں مانتے۔ ہمارے کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں کچھ رواج ایسے ہیں وہ مانتے ہی نہیں اس چیز کو۔ جیسے آپ کشمیر کو دیکھ لیں۔ وہاں ہوتی ہی خاندان میں شادیاں ہیں۔ وہاں پر یہ مسئلہ آتا ہے۔ ہر دوسرا بندہ آپ کو کشمیر میں کیریئر ملے گا۔‘
ڈاکٹر شازیہ نے کہا ’ہم اس کو روک سکتے ہیں۔ ہم اس کو سو فیصد ختم بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا ہر شخص اگر ایک مرتبہ ٹیسٹ کروا لے۔ صرف ایک بلڈ ٹیسٹ ہوتا ہے، جسے بلڈ سی پی کہتے ہیں اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ تھیلیسیمیا کے کیریئر ہیں یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں شک ہو دوسرے درجے میں ہم الیکٹرو فریسز کرواتے ہیں اس پر آپ کی تشخیص ہو جاتی ہے کہ آپ کیریئر ہیں۔ اگر آپ کیریئر ہیں تو اپنے ہونے والے ساتھی کا بھی ٹیسٹ کروا لیں۔ اس طرح تھیلیسیمیا میجر کا مریض پیدا نہیں ہوگا۔‘
یورپین جرنل آف ہیومن جینیٹکس میں ایک تحقیقی مقالہ 14 جون 2021 کو چھپا تھا۔ اس تحقیقی مقالے کے چھ مصنفین میں سے ایک پنجاب کی (سابق) وزیر صحت یاسمین راشد بھی ہیں۔ دیگر مصنفین میں شہناز احمد، حسین جعفری، یاسمین احسان، شبنم بشیر اور مشتاق احمد شامل ہیں
اس مقالے کے مطابق پاکستان میں تھیلیسیمیا کیرئرز کی تعداد تقریباً نوے لاکھ ہے
اس مقالے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کم از کم چالیس ہزار بچے ”بیٹا-تھیلیسیمیا میجر“ میں مبتلا ہیں اور ان کی زندگی کا دارومدار ہر ماہ خون کی تبدیلی پر ہے
اسی مقالے کے مطابق پاکستان میں ہر سال خون کی تبدیلی پر انحصار کرنے والے پانچ ہزار سے نو ہزار بچوں کا اضافہ ہو جاتا ہے
اس تحقیق میں بھی تھیلیسیمیا کے خاتمے کے لیے دو مائنر مرد اور عورت کی شادی سے گریز پر بات کی گئی ہے.