بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے آثار قدیمہ بھی متاثر

ویب ڈیسک

بلوچستان میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے انسانی زندگی کے علاوہ صوبے میں موجود ہزاروں سال پرانے آثار بھی متاثر ہوئے ہیں

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مختلف علاقوں میں کئی آثار قدیمہ اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں

بلوچستان کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ نے سیلاب اور بارشوں سے متاثر ہونے والے آثار قدیمہ اور تاریخی عمارتوں کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی ہے

ماہر آثار قدیمہ اور بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ آثار قدیمہ کے انچارج شاکر نصیر کے مطابق بلوچستان میں پائے جانے والے اکثر آثار قدیمہ دریاؤں (ندیوں) کے قریب واقع ہیں، اور اس لیے بارشوں یا سیلاب کی صورت میں انہیں نقصان پہنچنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں موجود آثار قدیمہ کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے

بلوچستان کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کی صدیوں پرانی نشانیوں کو پہنچنے والے نقصانات سے متعلق رپورٹ یونیسکو اور پاکستان میں موجود فرانسیسی آثار قدیمہ کے مشن کو بھیج دی گئی ہے

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں چھتیس ایسے مقامات ہیں، جنہیں سیلاب اور بارشوں نے نقصان پہنچایا ہے، اور متاثرہ آثار کو فوری طور پر محفوظ بنانے اور مزید نقصان سے بچانے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق جو آثار قدیمہ بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ان میں ضلع کچھی میں مہرگڑھ، نوشہرہ، سبی میں پیرک، ڈیرہ مراد جمالی میں جودر جو دارو، جھل مگسی میں موتی گہرام کا مقبرہ، التاز خان کا مقبرہ، میری آف خان قلات، پنجک دمب، مین قبرستان کے مقبرے، خان پور کا قلعہ شامل ہیں

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ضلع خاران میں ہرے گوگ ، نوروز کا قلعہ، لسبیلہ میں ان ہارون کا مقبرہ، چوکنڈی قبرستان، لورالائی میں ڈبرکوٹ ، میری قلات ضلع کیچ، ضلع قلات میں میری قلات اور سید موریز، ضلع کیچ میں ہوشاب کے قدیم آثار، سیاہ دمب ضلع آواران جھاؤ، بوبند ، کرپاس ، نائی مردہ سنگ، بالاکوٹ وندر، عالم خان، کنارو کا دمب، سومر کادمب، مارکی ماس، مائی پیر، اور ضلع لسبیلہ بھی متاثرہ آثار قدیمہ میں شامل ہیں

مندرجہ بالا کے علاوہ رپورٹ نے ضلع مستونگ میں تورغنڈی، قلعہ عبداللہ میں سرہ قلعہ، سپینو غنڈی اور پیرانیو غنڈی کو بھی نقصان زدہ میں شامل کیا ہے

ماہرین کے مطابق ریکارڈ پر موجود آثار قدیمہ کے علاوہ بلوچستان میں بہت سے ایسے قدیم مقبرے اور مقامات موجود ہیں، جن پر ابھی تک کام نہیں ہو پایا ہے، اور ایسے آثار بھی حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں

آثار قدیمہ کو نقصان پہنچنے کے بارے میں شاکر نصیر کا کہنا ہے کہ قدیم دور کے آثار کو نقصان پہنچنے کی وجوہات ایک سے زیادہ ہو سکتی ہیں، جن میں اہم انسان اور موسمی اثرات سرفہرست ہیں

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اکثر آثار قدیمہ دریاؤں اور پانی کی گزرگاہوں کے قریب واقع ہیں

اس سلسلے میں وہ مہر گڑھ کے آثار کی مثال پیش کرتے ہیں، جن کے عین درمیان میں سے دریائے بولان کا پانی گزرتا ہے

شاکر نصیر کا کہتے ہیں ”دریائے بولان کا پانی پہلے سے ہی مہر گڑھ کے کھنڈرات کو متاثر کر رہا ہے“

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے علاقے پنجگور میں موجود بہت سے آثار قدیمہ جو دریاؤں کےقریب ہیں، کو پانی سے نقصان پہنچ چکا ہے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے

بلوچستان یونیورسٹی کے استاد کا کہنا تھا کہ آثار قدیمہ کو موسمی حالات، سیلاب سمیت انسانی اور انسانی ہاتھوں سے پہنچنے والے خطرے کا سامنا رہتا ہے

جبکہ آثار قدیمہ کو انسانی ہاتھوں سے پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خاران میں ایک قدیم آثار ہرے گوگ واقع ہیں جنہیں مکمل طور پر بلڈوز کرکے تباہ کر دیا جا چکا ہے

شاکر نصیر نے بتایا کہ آثار قدیمہ کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت نہ ہونے سے بھی ان تاریخی خزانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے

اس سلسلے میں انہوں نے ضلع کچھی میں واقعہ زمانہ قدیم میں زمین کی سطح سے کافی بلندی پر تعمیر کیے گئے مقبروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ آثار حکومتی عدم توجہی کے باعث خستہ حالی اور تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں

آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کے حوالے سے شاکر نصیر کا کہنا تھا کہ بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے آثار قدیمہ کی مفصل تحقیق اور اس کی رپورٹ موصول ہونے پر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوبے میں ان تاریخی مقامات کس حد تک خراب ہوئے ہیں۔ تفصیلی تحقیق ہی سے اندازہ لگ سکے گا کہ متاثرہ آثار قدیمہ کو کون کون سے اقدامات اٹھا کر بحال کیا جا سکتا ہے

آثار قدیمہ کے ماہر نے بتایا کہ اس تاریخی ورثے کو بارش سے زیادہ نقصان سیلابی پانی پہنچاتا ہے، جس سے بچانے کے لیے بند باندھے جاتے ہیں

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کے نتیجے میں بننے والے گڑھوں کو بھرنا بھی ان تاریخی مقامات کے لیے حفاظتی قدم ہے

محکمہ آثار قدیمہ کی تیار کردہ رپورٹ نے بھی سیلاب اور دیگر خطرات کا سامنا کرنے والے آثار قدیمہ کی سائٹس کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی تجویز دی ہے

بلوچستان کے آثار قدیمہ کی انفرادیت پر بات کرتے ہوئے شاکر نصیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پائے جانے والے آثار قدیمہ اپنی بناوٹ، قدیم تاریخ اور ثقافت کی وجہ سے دوسرے صوبوں کی ایسی ہی نشانیوں سے بہت مختلف ہیں

انہوں نے بتایا کہ مہر گڑھ اور موہن جو دڑو کا تقابلی جائزہ دونوں تہذیبوں کے درمیان پانچ ہزار سال کا فاصلہ ثابت کرتا ہے

’موہن جو دڑو ساڑھے چار ہزار سال پرانی تہذیب جبکہ مہر گڑھ کی قدامت تقریباً دس ہزار سال پہلے کی ہے۔‘

تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ موہن جو دڑو ایک میٹرو پولیٹن شہر تھا، جس میں نکاسی آب کے نظام کی موجودگی کے علاوہ اس کی بناوٹ میں پختہ اینٹ استعمال ہوئی تھی

’جبکہ موہن جو دڑو کے برعکس مہر گڑھ ایک چھوٹی سی بستی تھی، اس کی بناوٹ میں مٹی استعمال کی گئی تھی۔‘

شاکر نصیر کا کہنا تھا کہ ایک نیولیتھک سیٹلمنٹ تھا، اور مٹی کا بنا ہونے کے باعث اسے پانی اور سیلابوں سے بہت نقصان پہنچایا

انہوں نے کہا کہ موہن جو دڑو پر بہت زیادہ کام ہوا ہے، اور اس کی سائٹ کی کھدائی کر کے اس کا مکمل ڈھانچہ برآمد کیا گیا

’کھدائی کے نتیجے میں سامنے آنے والے موہن جو دڑو کے نکاسی آب کے نظام کو دوبارہ بنایا گیا۔‘

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مہر گڑھ پر اس طرح کا زیادہ کام نہیں ہوا، جبکہ اس کی آخری مرتبہ کھدائی بائیس سال قبل فرانسیسیوں نے کی تھی

’وہ جو فرانسیسیوں کی کھدائی کے نتیجے میں جو کچھ دریافت ہوا تھا، اس کے آثار بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باعث ختم ہو چکے ہیں۔‘

مہر گڑھ پر پہلی مرتبہ کام پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل 1918 میں ہوا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close