آپ کے آباؤ اجداد کے دماغ کا حجم آپ کے دماغ کے حجم سے بڑے تھے۔ کئی ہزار سال پہلے انسان نے اس وقت ایک تاریخی سنگِ میل عبور کیا تھا جب تاریخ کی پہلی تہذیب سامنے آئی تھی۔ دنیا کے پہلے شہروں میں گھومنے پھرنے اور ملنے جلنے والے لوگ جدید دور کے شہریوں سے کئی حساب سے مطابقت ضرور رکھتے ہوں گے، لیکن اس کے بعد حقیقت میں انسانی دماغ چھوٹے ہونا شروع ہو گئے
امریکہ میں ڈارموتھ کالج کے ماہر بشریات (اینتھروپولوجسٹ) جیریمی ڈی سلوا کہتے ہیں کہ اوسطاً حجم میں کمی تقریباً ٹیبل ٹینس کے چار گیندوں جتنی ہو گی۔ فوسل شدہ دماغوں کے تجزیوں کے مطابق جنھیں گذشتہ سال انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر شائع کیا تھا، دماغ کا سکڑنا صرف تین ہزار سال پہلے شروع ہوا تھا
ڈی سلوا کہتے ہیں کہ ’یہ اس سے کہیں زیادہ حالیہ ہے جتنا ہم نے سوچا تھا۔ ہم تیس ہزار سال کے قریب ایسا کچھ ہونے کی توقع کر رہے تھے‘
زراعت پانچ ہزار سال سے دس ہزار سال کے درمیان متعارف ہوئی، اگرچہ ایسے بھی کچھ شواہد ہیں کہ پودوں کی کاشت تقریباً تیئیس ہزار سال پہلے شروع ہو چکی تھی
اس کے بعد بھرپور فنِ تعمیر اور مشینری کے ساتھ تہذیبیں پھیلیں۔ پہلی مرتبہ لکھائی بھی تقریباً اسی دور میں شروع ہوئی۔ لیکن پھر ایسا کیوں ہے کہ زبردست تکنیکی ترقی کے اس دور میں انسانی دماغ چھوٹا ہونا شروع ہو گیا؟
یہ وہ سوال ہے جس نے تحقیق کرنے والوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اور اس سے یہ سوالات بھی اٹھتے ہیں کہ دراصل کس سائز کا دماغ جانور کی ذہانت یا اس کی ادراکی صلاحیت کے متعلق بتاتا ہے۔ کئی سپیشیز کا دماغ ہم سے کہیں زیادہ بڑا ہے لیکن جتنا ہم جانتے ہیں ان کی ذہانت ہم سے کافی مختلف ہے۔ لہذا دماغ کے حجم اور انسان کس طرح سوچتے ہیں کے درمیان تعلق اتنا سیدھا نہیں ہو سکتا۔ لازمی طور پر کچھ اور عوامل بھی ہوں گے
یہ جاننا اکثر مشکل ہوتا ہے کہ کسی مخصوص سپیشیز میں وقت کے ساتھ ساتھ دماغ کے بڑا یا چھوٹا ہونے کا اشارہ کیا ہوتا ہے۔ ڈی سلوا اور ان کے ساتھیوں نے نوٹ کیا کہ انسانی جسم وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے ہوتے گئے ہیں لیکن اتنے نہیں کہ انھیں دماغ کے حجم میں کمی کی وجہ بتایا جائے۔ یہ سوال پھر بھی منڈلا رہا ہے کہ یہ تبدیلی کیوں آئی۔ اور اس طرح، ایک حالیہ مقالے میں، انھوں نے اس تبدیلی کا راز ایک ’عاجز‘ چیونٹی سے جاننے کی کوشش کی ہے
پہلی یا سرسری نظر میں چیونٹی کا دماغ شاید ہمارے دماغ سے بہت مختلف معلوم ہوتا ہے۔ وہ حجم میں ایک کیوبک ملی میٹر کا تقریباً دسواں حصہ ہے، یا نمک کے ایک دانے کے سائز کا ایک تہائی، اور اس میں صرف دو لاکھ پچیس ہزار نیورون ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک انسانی دماغ میں تقریباً چھیاسی ارب نیورونز ہوتے ہیں
لیکن کچھ چیونٹیوں کے معاشرے ہمارے ساتھ حیرت انگیز طور پر مماثلت رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر چیونٹیوں کی ایسی انواع بھی ہیں جو ایک قسم کی زراعت کرتی ہیں۔ اس میں وہ اپنے گھونسلوں کے اندر بڑے پیمانے پر فنگس اگاتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں اپنے فارموں پر پتے اور پودوں کا دیگر مواد اکٹھا کرتی ہیں اور پھر فنگس بنا کر اسے کھاتی ہیں۔ جب ڈی سلوا کی ٹیم نے چیونٹیوں کی مختلف انواع کے دماغ کے سائز کا موازنہ کیا تو انھوں نے دریافت کیا کہ بعض اوقات بڑے معاشرے والی چیونٹیوں کے دماغ بڑے ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ جب انھوں نے یہ رجحان فنگس کی کاشت کے لیے بھی تیار کیا ہو
اس سے پتہ چلتا ہے کہ، کم از کم ایک چیونٹی کے لیے، ایک بڑے معاشرے میں اچھا کام کرنے کے لیے بڑا دماغ ہونا ضروری ہے، لیکن زیادہ پیچیدہ سماجی نظام سے جس میں لیبر کی زیادہ تقسیم ہو سکتی ہے، ان کے دماغ سکڑ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ادراکی صلاحیتیں گروپ کے بہت سے اراکین میں تقسیم ہو جاتی ہیں
دوسرے الفاظ میں ذہانت مجموئی ہو جاتی ہے۔
ڈی سلوا کہتے ہیں کہ ’کیا ہو اگر انسانوں میں بھی ایسا ہو جائے؟ کیا ہو اگر انسانوں میں ہم آبادی کی حد کی ایک دہلیز پر پہنچ جائیں، ایک ایسی حد جہاں انسان دوسروں کے دماغوں میں معلومات کا تبادلہ کر سکیں اور معلومات کو خارجی صورت دے سکیں‘
چیونٹی اور انسان کے دماغ میں بہت زیادہ فرق کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جلدی میں ان کے درمیان متوازی رائے پیدا نہیں کرنی چاہیئے۔ اس کے باوجود ڈی سلوا کہتے ہیں کہ یہ تحقیق کے لیے ایک مفید آغاز ہو سکتا ہے کہ انسانی دماغ کے حجم میں کیوں اتنی واضح اور نسبتاً حالیہ کمی واقع ہوئی
یہ خیالات فی الوقت مفروضے ہی ہیں۔ بہت سے دوسرے نظریات ہیں جو انسانی دماغ کے سائز میں کمی کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم، اگر یہ مان لیا جائے کہ دماغ کا سکڑنا واقعی تین ہزار سال پہلے شروع ہوا تھا تو ان میں سے چند ایک ناقابل تصور ہو جاتے ہیں۔ ایک اچھی مثال گھروں میں یا پالتو جانور کی طرح رہنا ہے۔ درجنوں مختلف جانور جنھیں پالا گیا ہے، جن میں کتے بھی شامل ہی، ان کے دماغ ان کے جنگلی آباؤ اجداد سے چھوٹے ہیں۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق انسانی خود ساز گھریلو پن دسیوں ہزار سال، یا یوں کہیے کہ سینکڑوں ہزاروں سال پہلے شروع ہوا تھا، دماغ کے سکڑنے سے بہت پہلے
لیکن کیا چھوٹے دماغ کا مطلب یہ ہے کہ بحیثیت فرد، انسان بیوقوف بن گئے ہیں؟
بالکل نہیں، جب تک کہ آپ اسے آبادی کے بڑے حصے میں محسوس نہیں کر لیتے۔ سنہ 2018 میں محققین کی ایک ٹیم نے یو کے بائیو بینک سے ڈیٹا کی ایک بڑی مقدار کا تجزیہ کیا۔ اس وسیع بائیو میڈیکل ڈیٹا بیس میں ہزاروں لوگوں کے دماغی سکین اور آئی کیو ٹیسٹ کے نتائج شامل تھے
اس تحقیق کے شریک مصنف اور نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم میں واقع رائج یونیورسٹی کے فلپ کولینگر کہتے ہیں کہ 13 ہزار 600 افراد کے نمونے کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ دماغ کے سائز اور آئی کیو کے حوالے سے پہلے کے تمام مطالعات سے بڑا نمونہ تھا
اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بڑا دماغ ہونا، اوسطاً، آئی کیو ٹیسٹوں میں قدرے بہتر کارکردگی سے منسلک تھا لیکن، اہم بات یہ ہے کہ یہ تعلق غیر متعین تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے نسبتاً چھوٹے دماغ ہونے کے باوجود ٹیسٹوں میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا
کولینگر کہتے ہیں کہ ’واقعی کوئی بہت مضبوط رشتہ نہیں ہے۔ یہ بس ہر جگہ ہے۔‘
یہ جزوی طور پر اس وجہ سے اہم ہے کہ تاریخی طور پر لوگوں نے دوسروں کی ان کے سر کے سائز یا شکل جیسی چیزوں کی بنیاد پر درجہ بندی اور ترتیب دینے کی کوشش کی ہے
کولینگر کہتے ہیں کہ ’مغربی دنیا کی ایک بہت ہی بدصورت تاریخ ہے، یوجینکس تحریک اور اس قسم کی تمام چیزیں جو بائیوڈیٹرمنزم کے نظریات پر مبنی ہیں۔ ہم نے جس باہمی تعلق کی اطلاع دی ہے وہ کسی بھی قسم کے بایوڈیٹرمنزم کا اشارہ نہیں کرتا‘
چونکہ دماغی سکینز نے لوگوں کے دماغوں کے سائز کے علاوہ ان کی ساخت کے بارے میں بھی کچھ معلومات دی تھیں، اس لیے یہ مطالعہ کسی اور چیز کا پتہ لگانے میں بھی کامیاب ہوا جو اس وقت ہو رہی تھی۔ اس نے دماغ کی بیرونی تہہ یعنی سرمئی مادے کے حجم اور آئی کیو ٹیسٹ کی کارکردگی کے درمیان تعلق ڈھونڈا
درحقیقت، اس طرح کے ساخت کے اختلافات کسی شخص کی عمومی ادراکی صلاحیت کے لحاظ سے اس کے دماغ کے حجم سے شاید زیادہ معنی خیز ہیں
ایڈنبرا یونیورسٹی میں دماغی عمر کا مطالعہ کرنے والے سائمن کاکس کہتے ہیں کہ ’یہ سوچنا پاگل پن ہو گا کہ حجم پورے فرق کی وضاحت کر سکتا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ یہ شاید سب سے کم اہم عوامل میں سے ایک بھی ہو سکتا ہے
جب آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے۔ مردوں کے دماغ عام طور پر خواتین کے دماغوں کے مقابلے حجم کے لحاظ سے تقریباً 11 فیصد بڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان جسموں کے سائز بھی بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ اوسطاً خواتین کو کچھ علمی صلاحیتوں کا فائدہ ہوتا ہے اور مردوں کو دوسری صلاحیتوں کا
کاکس ایک اور تحقیق میں بھی شامل تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح خواتین کے دماغ ساختی اختلافات کے ذریعے چھوٹے ہونے کی تلافی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، خواتین میں اوسطاً موٹا کورٹیکس ہوتا ہے ( یہ وہ تہہ جس میں سرمئی مادہ ہوتا ہے)
دماغ کی بہت سی خصوصیات اور پہلو ہیں جو علمی اور ادراکی صلاحیت کو متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک اور مثال مائیلینیشن ہے۔ یہ مادے کا وہ غلاف ہے جو ایگزونز کو گھیرے ہوئے ہے، یہ وہ لمبی، پتلی ’تاریں‘ ہیں جو نیورونز کو دوسرے خلیات سے جوڑنے اور ایک نیورل نیٹ ورک بنانے میں مدد دیتی ہیں
جب لوگ بوڑھے ہوتے ہیں تو ان کا مائیلین ٹوٹ جاتا ہے جس سے دماغ کی کارکردگی کم ہو جاتی ہے۔ اس بات کا مطالعہ کر کے کہ پانی کتنی آسانی دماغ کے ٹشوز میں سرایت کر سکتا ہے اس تبدیلی کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ کم مائیلین کے ساتھ، پانی زیادہ آسانی سے بہتا ہے۔ یہ ادراکی زوال کا اشارہ ہے
کاکس کہتے ہیں کہ دماغ ’غیر معمولی طور پر پیچیدہ‘ رہتا ہے، اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کسی خاص دماغ کے ساختی میک اپ سے انسان کی ذہانت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ کچھ لوگوں کے دماغ جزوی ہوتے ہیں، ایسا چوٹ لگنے یا نشوونما میں کسی مسئلے کی وجہ سے ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ حیرت انگیز طور پر غیر متاثر نظر آتے ہیں۔ فرانس میں ایک شخص جو ایک کامیاب سرکاری ملازم تھا، اس کا دماغ 90 فیصد غائب پایا گیا تھا اور اس کے باوجود اس کا آئی کیو سکور 75 تھا اور وربل یا زبانی آئی کیو 84 تھا، جو فرانسیسی اوسط سے صرف تھوڑا ہی کم تھا جو کہ 97 ہے
اگرچہ غیر معمولی فرق کو اصول کے طور پر کبھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ تاہم اعدادوشمار کے لحاظ سے متعدد مطالعات دماغ کے حجم، ساخت اور ذہانت کے درمیان اہم روابط بتاتے ہیں
جب آپ جانوروں کے مختلف دماغوں پر غور کرتے ہیں تو یہ سب اور بھی دلچسپ ہو جاتا ہے۔ ہم پہلے ہی انسان اور چیونٹی کے دماغ کے درمیان ایک موازنہ تلاش کر چکے ہیں، لیکن دوسری سپیشیز کا کیا ہوگا؟ بڑے یا چھوٹے دماغ کیوں بننا شروع ہوئے تھے؟
میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں دماغی ارتقاء کا مطالعہ کرنے والی ایمی بالانوف کہتی ہیں کہ دماغی ٹشوز کو بڑھنے اور برقرار رکھنے کے لیے بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے، لہذا کسی سپیشیز کے بڑے دماغ کے ارتقاء کا امکان اس وقت تک نہیں ہے جب تک کہ اسے اس کی ضرورت نہ پڑے۔ وہ کہتی ہیں کہ دوسروں پر انحصار کرنے والی طفیلی (پیراسائٹ) مخلوق کے بارے میں سوچیں جو نسبتاً مستحکم ماحول اور وسائل پر پلتی ہے۔ اس کے مثال دیتے ہوئے وہ لیمپریز کا ذکر کرتی ہیں جس کا دماغ صرف چند ملی میٹر لمبا ہے
بالانوف کہتی ہیں کہ ’انھیں اعصابی ٹشوز پر اضافی توانائی خرچ کرنے کی ضرورت واقعی نہیں ہے جو واقعی میٹابولکلی (غذا کا جزوِ بدن بننا) محنت طلب کام ہے‘
اس کے علاوہ، ایسے نظر آتا ہے کہ کچھ جانوروں نے وقت کے ساتھ ساتھ، اپنے جسم کے سائز کے لحاظ سے، بڑے دماغ تیار کر لیے ہیں، لیکن ان کے دماغ حقیقت میں تبدیل نہیں ہوئے، بس ان کے جسم چھوٹے ہوئے ہیں۔ بالانوف کہتی ہیں کہ یہ پرندوں کی سپیشیز پر لاگو ہوتا ہے
اس کے علاوہ ایسے بھی جانور ہیں جو بظاہر دماغ کے مخصوص حصوں کو تیار کرتے دکھائی دیتے ہیں، جو اسی قسم کی سپیشیز کے جانوروں کے مقابلے ان کے دماغ کے مجموعی سائز کو بڑھاتے ہیں۔ مورمائرڈ مچھلی کو ہی لے لیں، جس کا دماغ اپنے جسم کے سائز کے لحاظ سے کافی بڑا ہوتا ہے، جو کہ حقیقت میں تناسب کے اعتبار سے انسانوں جتنا ہے۔ یہ مچھلیاں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے اور شکار کا پتہ لگانے کے لیے برقی چارجز کا استعمال کرتی ہیں اور سنہ 2018 میں محققین نے دریافت کیا کہ ان کے دماغ کا ایک خاص حصہ، سیریبیلم غیر معمولی طور پر بھاری ہے۔ کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں کہ ایسا کیوں ہے لیکن اس مطالعے کے مصنفین کا خیال ہے کہ اس سے مچھلی کو الیکٹرو۔سینسری معلومات کے عمل میں مدد مل سکتی ہے
انسانوں میں، دماغ کا ایک حصہ جو ہمیں ممتاز کرتا ہے وہ نیوکورٹیکس ہے، جو کہ اعلیٰ علمی یا ادراکی فعل میں شامل ہوتا ہے جو کہ شعوری سوچ، زبان کی پروسیسنگ وغیرہ ہے۔ ہم بلاشبہ ان چیزوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اور اس لیے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے دماغ ہماری ضروریات کے مطابق بنائے جاتے ہیں
لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ماہر حیاتیات انجلی گوسوامی کہتی ہیں کہ شروع شروع میں کیونکہ بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہ نوٹ کرنا دلچسپ ہے کہ بڑے دماغ والے جانور ابتدائی زندگی میں بہت زیادہ توانائی حاصل کرنے کے لیے تیار ہوئے ہیں
اس غذائیت کے فروغ کے بارے میں سوچیں جو پرندوں کو انڈے میں رہتے ہوئے بھی حاصل ہوتی ہے، یا جو ممالیہ کو پلیسینٹا یا نال کے ذریعے یا ماں کے دودھ سے حاصل ہوتی ہے۔ انسانی بچے درحقیقت نیورونز کی زیادتی (100 ارب) کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اور ان کی نشوونما کے ساتھ یہ تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ ترقی اور فرد کے ماحول کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرتا ہے۔ ہماری عمر کے ساتھ ساتھ نیورل نیٹ ورک کے صرف ضروری حصے ہی برقرار رہتے ہیں لیکن دماغ میں نیورونز کی بہتات کے ساتھ ہی ایسا ممکن ہوتا ہے
گوسوامی کہتی ہیں کہ ممالیہ کا ارتقاء ڈائنوسار کے سائے میں ہوا تھا۔ انھیں زندہ رہنے کے لیے انتہائی اچھی حسی صلاحیتوں کی ضرورت تھی، شاید اسی لیے ان میں رات کو جاگنے کی عادات اور رات کی بینائی پیدا ہوئی تھی۔ اس کا یقینی طور پر اعصابی ترقی پر اثر پڑا ہو گا۔ جس طرح ہمارے آباؤ اجداد سمیت پرائمیٹ نے درختوں میں جھولنے کے لیے خصوصی مہارتیں تیار کی تھیں
ماحول نے پھر ممالیہ کے دماغ پر ایسی صلاحیتوں کو تیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جس نے ہمیں گھمبیر حالات میں سے نکلنے میں مدد کی۔ چیلنجز سے بھری دنیا میں اپنی ادراکی صلاحیت کو بڑھانے سے بہت سے جانوروں کو فائدہ ہوا ہے
ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سمندری پرندے جنھوں نے جزیروں کو مسکن بنایا، انھیں غیر متوقع نئے علاقے کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑا، اور ان کے دماغ مین لینڈ پر رہنے والے پرندوں کے مقابلے میں بڑے تھے
اب تک تو یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ آپ کسی جانور کے دماغ کے سائز کی پیمائش کا، اس کے جسم کے سائز سے موازنہ کر کے اس کے بارے میں ٹھوس نتائج پر نہیں پہنچ سکتے ہیں کہ وہ جانور کتنا ذہین ہے۔ سائز پہیلی کا صرف ایک ٹکڑا ہے
ویسے بھی زیادہ سمجھداری کی بات کیا ہے۔ سوچنا یا زندہ رہنا؟ انسان سوچنا پسند کرتا ہے لیکن جیسا کہ گوسوامی کہتی ہیں، جب آپ موسمیاتی بحران جیسے طویل المدتی، وجودی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہماری موجودہ جدوجہد پر غور کرتے ہیں تو واقعی منصوبہ بندی کرنے کی ہماری صلاحیت بہت کم نظر آتی ہے
کوکس ایک اور نکتہ اٹھاتے ہیں: ’زندگی میں ادراکی قابلیت کے اعلی عمومی سکور، یا اعلی آئی کیو کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں موجود ہیں‘
اس کے بعد آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کاش ہمارے دماغ چھوٹے ہی ہوتے.
بشکریہ: بی بی سی فیوچر