نواز شريف کے بلاوے پر وزیراعظم کابینہ سمیت لندن میں

ویب ڈیسک

پاکستان میں جہاں ایک طرف موسم گرم ہے، وہیں سیاسی موسم کا پارہ بھی انتہا کو چھو رہا ہے

موجود حکومت کو پنجاب میں جاری آئینی بحران سے لے کر بڑھتی مہنگائی، آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات اور سابق وزیِر اعظم عمران خان کی جانب سے فوری الیکشن جیسے مطالبات کا سامنا ہے وہیں اس دوران مسلم لیگ کی دس رکنی کابینہ کی سابق وزیراعظم نواز شریف کے بلاوے پر پارٹی میٹنگ کے لیے لندن روانگی پر تنقید سامنے آ رہی ہے

لندن جانے والی اس 10 رکنی کابینہ میں وزیرِاعظم شہباز شریف کے علاوہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق، رانا ثناء اللہ اور عطاء اللہ تارڑ بھی شامل ہیں

جہاں ٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا بھر کے بیشتر ممالک کے سربراہان اور کمپنیاں کی بڑی چھوٹی میٹنگ سے لے کر لیکچرز اور شادیوں میں شرکت تک، سب کچھ ویڈیو لنک پر ہو رہا ہے حتیٰ کی گزشتہ دنوں عمران خان نے دنیا بھر میں جلسوں کا انعقاد بھی آن لائن کیا، وہیں پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں جن کے مطابق مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے ٹیکنالوجی کے اس دور میں وڈیو لنک پر ملاقات کی تجویز مسترد کر دی ہے، اور پارٹی کی سینیئر قیادت کو مشاورت کے لیے لندن بلایا ہے

منگل کو لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا ’شہباز صاحب صبح پہنچیں گے، کل ہماری ملاقات ہوگی، بڑے ضروری امور ہیں جو ڈسکس ہوں گے‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب مریم اورنگزیب اس ملاقات کو ’سیاسی‘ قرار دے رہی ہیں، تو دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ’اس ملاقات کا سیاسی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں‘

بیشتر افراد پاکستان کی موجودہ حکومت کی فیصلہ سازی میں میاں نواز شریف کے کردار کے حوالے سے سوال پوچھ رہے ہیں، جو عدالت سے چار ہفتے کی ضمانت پر لندن گئے اور لگ بھگ تین سال سے وہیں مقیم ہیں. چار ہفتوں میں ان کی واپسی کی ضمانت ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے دی تھی، جو اب وزیراعظم ہیں اور خود بھی منی لانڈرنگ کرنے کے ایک کیس میں ضمانت پر ہیں

لندن پہنچنے والے وفد میں شامل ن لیگ کے رہنما عطاء اللہ تارڑ سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ خیرسگالی دورہ ہے یا مسلم لیگ کا وفد سیاسی مشاورت کے لیے لندن پہنچا ہے؟ تو انہوں نے اسے سیاسی مشاورت ماننے سے ہی انکار کرتے ہوئے کہا ”قائد سے ملے بہت عرصے ہو گیا تھا اور ہم اپنے قائد سے ملنے آئے ہیں“

عطاء اللہ تارڑ نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا کہ کیا وزیراعظم شہباز شریف کو ہر اہم فیصلے سے پہلے میاں نواز شریف سے مشاورت کرنی پڑے گی؟

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ میاں نواز شریف پارٹی کے قائد ہیں اور تمام فیصلے ان کے مشورے سے ہی لیے جاتے ہیں اور نواز شریف سے پوچھے بغیر کوئی فیصلے نہیں کیے جاتے

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیشہ سے ایسے ہی ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے‘

پاکستان میں انتخابات اور سیاسی عمل کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا ماننا ہے کہ ’لندن کا اس موجودہ حکومت کی فیصلہ سازی میں بہت فیصلہ کن کردار ہے اور آخری فیصلہ میاں نواز شریف کا ہی ہوتا ہے جو لندن میں ہیں‘

وزیراعظم سمیت آدھی کیبنیٹ کے لندن یا کہیں اور جانے کو احمد بلال محبوب ایک ’بہت بری مثال‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے زیادہ سے زیادہ فون، واٹس ایپ، ای میل پر مشورہ کیا جا سکتا تھا

وہ کہتے ہیں کہ اس سے بہت برا تاثر مل رہا ہے کہ ’ملک کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے آپ خود فیصلہ نہیں کر پا رہے اور اپنی کیبنٹ کو لے کر لندن جا رہے ہیں، یہ کس طرح کی فیصلہ سازی ہے؟‘

احمد بلال محبوب کا ماننا ہے یہ دورہ کمزور اور غیر عملی قسم کی فیصلہ سازی کو ظاہر کر رہا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ہر بار جب انھیں (شہباز شریف) کو کوئی اہم فیصلہ کرنا پڑے گا وہ اسی طرح لندن جا کر مشاورت کریں گے؟

ان کا ماننا ہے یہ بہت ہی غیر مناسب دورہ ہے اور پورے ملک کو اس پر تشویش ہونی چاہیے کیونکہ یہ بہت مہنگی اور غیرموثر فیصلہ سازی ہے۔ احمد بلال محبوب کا ماننا ہے کہ میاں نواز شریف کو اپنی پارٹی کی یہاں موجود قیادت کو وہاں طلب کرکے مشاورت کرنے یا انہیں فیصلہ سنننے کے بجائے ایک وسیع تر ڈائریکشن دے کر اتنی آزادی دینی چاہیے کہ وہ خود فیصلے کریں

احمد بلال محبوب کے مطابق یہ دورہ ہمارے ملک کی پارٹیوں کی ’اسٹیٹ آف ڈیموکریسی‘ کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن کا معاملہ نہیں بلکہ باقی پارٹیاں بھی ایسی ہی ہیں، ان کے ’بڑے لیڈر کی بات ہی آخری بات‘ ہوتی ہے اور اس کی منظوری لینے کے لیے انہیں بھی ایسی ہی کوششیں کرنی پڑتی ہیں

صحافی سرل المیڈا نے اس دورے کے حوالے سے مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لندن دورے سے بہت برا تاثر مل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ ملک کو خاندانی جاگیر کی طرح چلا رہی ہے اور اس میں بھی کوئی خاص کامیاب نہیں نظر آ رہی

سابق وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن آن سوشل میڈیا ارسلان خالد نے اس دورے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ’مطلب پوری حکومت لندن جا رہی ہے یہ فیصلہ کرنے کہ آگے حکومت کیسے چلانی ہے۔ ایسے تو نہیں لوگ اسے امپورٹڈ حکومت کہہ رہے۔ اس کے تسلط کی طرح تمام فیصلے بھی امپورٹڈ ہیں۔ جناب ایسے تو ایک ضلعی حکومت بھی نہیں چلتی جیسے یہ بائیس کروڑ کا ملک چلا رہے۔‘

انھوں نے مزید تنقید کرتے ہوئے لکھا ’آخر وہ کونسی ایسی بات تھی جو آن لائن میٹنگ میں نہیں ہو سکتی تھی؟ کیا لندن میں امریکہ سے بھی کچھ لوگ آئے؟ پوری کابینہ کو لندن بلا کر کس کا پیغام دیا جا رہا ہے؟‘

ارسلان خالد نے لکھا ’بیرونی سازش سے اقتدار پر قبضہ تو کر لیا اب مالکان پیغام رسانی کے لیے ایسے ہی لندن بلایا کریں گے‘

ن لیگ سے قربت رکھنے والے صحافی غلام رضا نے لکھا ’نواز شریف تین بار وزیراعظم رہے ہیں اور ملک کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں اور وہ معیشت کی بہتری کے لیے تجاویز دیں گے، شہباز شریف سمیت مسلم لیگ ن کو چاہیے نواز شریف کی تجربے سے فائدہ اٹھائیں‘

ثاقب علی رانا نامی صارف نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’تو شہباز شریف اور ان کی کابینہ لندن کی طرف جا رہی ہے، جہاں وہ دو مفرورں سے ہدایات لیں گے۔‘

اپنی ٹویٹ میں ان کا اشارہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب تھا

مہر تارڑ نے اس دورے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ تین سال اور آٹھ ماہ کی وزارت اعظمیٰ میں عمران خان نے صرف عمرہ کے لیے ایک مرتبہ ذاتی دورہ کیا تھا۔ وہ اپنے بیٹوں سے ملنے لندن بھی نہیں گئے تھے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’وزارت اعظمیٰ کے 30 سے کم دنوں میں شہباز شریف اپنے بھائی کے بلاوے پر لندن جا رہے ہیں جو ضمانت پر ہیں اور خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہے ہیں‘

اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی ارشاد احمد عارف نے لکھا ’میاں نواز شریف کی طلبی پر وزیراعظم اور سینیئر وزرا کی لندن روانگی سے یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ مسلم لیگ کے صدر اور وزیراعظم کی حیثیت نمائشی ہے اور قومی امور پر فیصلے لندن میں ہوں گے۔‘
’یہ میاں شہباز شریف کی صدارت اورحکمرانی پر سوالیہ نشان اور عمران خان کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔‘

عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں دورے کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ تمام فیصلے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی طرف سے لیے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کا سابق وزیراعظم (نواز شریف) سے موجودہ معاملات پر گفتگو کرنے لندن جانا جمہوری روایات کے عین مطابق ہے‘

سوشل میڈیا پر صارفین ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی سیاسی معاملات پر مشاورت ویڈیو لنک کے ذریعے بھی ہو سکتی تھی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close