امریکی ادارے نیشل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) نے اپنی جدید تحقیق کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ یورپ اور شمالی امریکہ میں فضائی آلودگی میں کمی تو واقع ہوئی لیکن اس سے یہاں کے گرم علاقوں میں سمندری طوفانوں میں اضافہ ہوا ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے این او اے اے کی اس تحقیق کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ جنوبی کرہ ارض پر طوفانوں میں کمی واقع ہوئی ہے
یونیورسٹی کارپوریشن برائے ایٹموسفیرک ریسرچ کے پراجیکٹ سائنسدان ہیرویوکی موراکامی نے ایک وڈیو بیان میں کہا ”میری تحقیق میں حیران کن نتائج آئے ہیں۔ چالیس سال میں کم ترین فضائی آلودگی نے شمالی بحر اوقیانوس میں سمندری طوفانوں کی تعداد کو بڑھا دیا ہے“
ان کے مطابق ”یقینی طور پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے فضائی آلودگی میں کمی سے انسانی صحت پر بڑا فرق پڑا ہے لیکن میری تحقیق بتاتی ہے کہ بعض اوقات اچھے اقدامات کے بھی غیر ارادی نتائج نکل سکتے ہیں“
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”فضائی آلودگی سورج کی کرنوں کو روک دیتی ہے اس سے سمندر کی سطح ٹھنڈی ہوتی ہے جس سے سمندری طوفانوں کے لیے ناموافق حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آلودگی کم ہو جائے تو سورج سمندر کو زیادہ گرم کر دیتا ہے, جس سے سمندری طوفان آتے ہیں۔ گذشتہ چالیس سال سے یہی ہو رہا ہے“
موراکامی کے مطابق ”دوسری جانب شمال مغربی بحرالکاہل میں چین اور بھارت نے بے شمار فضائی آلودگی کا اخراج کیا ہے، جس سے وہاں طوفانوں میں کمی آئی ہے“
موراکامی کا کہنا تھا ”اس تحقیق سے مجھے حالیہ کرونا وبا کی یاد آتی ہے۔ وبا کے دوران صنعت اور معیشت سست رہی جس سے شاید فضائی آلودگی کا اخراج کم ہوا ہو۔ گذشتہ تین سال سے بحر اوقیانوس میں سمندری طوفانوں کا موسم بہت متحرک رہا ہے۔ اس لیے میں سوچ رہا ہوں کہ کہیں گذشتہ سالوں میں متحرک طوفانوں کے موسم کی وجہ وبا کی وجہ سے فضائی آلودگی میں کمی تو نہیں؟“
موراکامی کے مطابق، تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں انسانی وجہ سے ہونے والی آلودگی کے مستحکم رہنے کی امید ہے۔ تاہم، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا سمندری طوفان کی نشوونما پر زیادہ اثر پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر کم سمندری طوفان ہوں گے، لیکن جو بنتے ہیں وہ زیادہ شدید ہوں گے۔“
واضح رہے کہ یہ موراکامی کا یہ دعویٰ ماقبل کی سائنسی تحقیق کے بلکل برعکس ہے، جس کے مطابق طاقتور سمندری طوفان جو بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور بحیرہ عرب کے ارد گرد املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچاتے ہیں، آلودگی کے نتیجے میں تیزی سے عام ہو رہے ہیں۔
قبل کی سائنسی تحقیق کے مطابق، 1979 اور 2010 کے درمیان طوفانوں کی شدت کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ کہرے کی موٹی تہوں نے ماحولیاتی حالات پیدا کیے ہیں جو طوفانوں کو تیز کرتے ہیں اور ان کے زمین تک پہنچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں
اس سے قبل کی کئی سائنسی ریسرچز میں آلودگی کو سمندری طوفانوں کی وجہ قرار دیا گیا ہے، مثال کے طور طور پر 2011 میں جریدے نیچر ایک کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آلودگی بحیرہ عرب کے طوفانوں کو مزید شدید بنا رہی ہے
روایتی طور پر، ونڈ شیئر کے مروجہ نمونے بحیرہ عرب میں طوفانوں کو بڑے طوفان بننے سے روکتے ہیں
نیچر پیپر سے پتہ چلتا ہے کہ کمزور ہواؤں نے حالیہ برسوں میں مضبوط طوفانوں کو تشکیل دیا ، بشمول 2007 اور 2010 کے طوفان، جو خلیج عمان میں داخل ہونے والے پہلے ریکارڈ شدہ طوفان تھے
محققین نوٹ کرتے ہیں کہ پچھلے 30 سالوں کے دوران ہوا کے کمزور ہونے کے پیٹرن بھارت کے اوپر فضا میں ایروسول کے جمع ہونے سے مطابقت رکھتے ہیں، جو سورج کی روشنی کو سطح سے دور ہٹاتے ہیں، جس سے زمینی سطح پر مدھم پن پیدا ہوتا ہے۔ یہ مدھم پن زیادہ شدید طوفانوں کے لیے ذمہ دار ہو سکتا ہے
قبل کی تحقیق کے مطابق تاریخی طور پر، موسم گرما کے مہینوں میں مون سون کے موسم کے آغاز سے نچلے اور اوپری ماحول میں تیز ہوائیں چلتی ہیں جو مخالف سمتوں میں سفر کرتی ہیں، جسے عمودی ونڈ شیئر بھی کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جولائی اور اگست میں طوفانوں کی تشکیل تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ اس طرح گرم سمندر کی سطح کے درجہ حرارت کے باوجود، بحیرہ عرب میں ہر سال اوسطاً دو یا تین طوفان آتے ہیں جو کہ مون سون کے موسم سے باہر بنتے ہیں، جب ہوا کا دائرہ کم ہوتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں نے مون سون کے موسم سے پہلے کے مہینوں میں تیزی سے مضبوط طوفانوں کا رجحان پایا
لیکن امریکی ادارے نیشل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کی حالیہ تحقیق کے بعد یورپ اور شمالی امریکہ میں فضائی آلودگی میں کمی کے باعث سمندری طوفان آنے کے دعوے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے