پاکستان میں لیموں کی فصل کی تباہی کی وجہ اور حل کیا ہے؟

ویب ڈیسک

دارالحکومت اسلام آباد کی رہائشی یاسمین مقبول لیموں کی قیمت میں بے تحاشا اضافے سے متعلق اپنے مشاہدات کے بارے میں بتاتے ہیں ’ہمارے پاس گرمیوں کا بہت اچھا، آسان اور سستا توڑ موجود تھا۔ گھر کے سب چھوٹے بڑوں کو لیموں ملا پانی پلا دیتے تھے۔ اب پہلے تو لیموں دستیاب ہی نہیں اور اگر یہ کسی جگہ دستیاب ہو بھی تو سبزی فروش پچاس روپے میں ایک لیموں دینے کو تیار نہیں‘

یاسمین مقبول کہتی ہیں ”لیموں رمضان کے آغاز میں مہنگا دستیاب تھا مگر اس میں رس نہیں ہوتا تھا۔ رمضان کے آخر میں تو اس کی قیمت پندرہ سو روپے کلو تک پہنچ گئی تھی۔ اتنی لاگت میں تو ہمارے گھروں میں کھانا بھی کبھی کبھی پکتا ہے۔ تو ایسے میں لیموں کہاں سے خرید کر لائیں“

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نہاری کے لیے مشہور زاہد نہاری ریسٹورنٹ کے مالک وحید احمد کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس وقت لیموں بارہ سو روپے کلو مل رہا ہے‘

ان کے مطابق وہ کئی سال سے کاروبار سے منسلک ہیں مگر انھوں نے اس طویل عرصے میں کبھی لیموں کی قلت نہیں دیکھی

وہ بتاتے ہیں ’ہم تو کئی من کے حساب سے لیموں خریدتے ہیں۔ مگر اس کا اتنا نرخ اس سے پہلے نہیں دیکھا۔ اب کوشش کرتے ہیں کہ نہاری کے مصالحے میں لیموں کم ہی رکھیں‘

صرف نہاری کے ریستوران ہی نہیں بلکہ مِلک شیک اور جوس کی کئی دکانوں نے لیموں سے تیار ہونے والی سکنجبین فروخت کرنا ہی بند کردی ہے

راولپنڈی کے صدر بازار کے جوس سنٹر کے مالک محمد مجید کہتے ہیں ’اب اگر کوئی سکنجبین مانگتا ہے تو وہ دیکھ بھال کر گاہک کی فرمائش پوری کرتے ہیں کیونکہ تین سو روپے سے کم گلاس فروخت نہیں کرسکتے اور عام گاہک کو تین سو روپے کا بولیں تو وہ لڑنے جھگڑنے پر اتر آتا ہے۔ اس لیے اکثر گاہکوں سے کہتے ہیں کہ لیموں ہی نہیں ہے۔‘

پنجاب کے شہر سرگودھا کی سبزی منڈی کے بڑے آڑھتی مقبول کہتے ہیں ’جب لیموں دستیاب نہیں ہوگا تو اس کی قیمتیں آسمان ہی پر جائیں گی۔ گذشتہ برسوں میں اس سیزن میں ہمارے پاس روزانہ نو سے دس کلو کے پندرہ سو دو ہزار کارٹن آسانی سے فروخت ہوجاتے تھے. اب اس وقت روزانہ پندرہ سے بیس کاٹن آرہے ہیں جو ضرورت سے بہت کم ہیں‘

سندھ سے لے کر خیبر پختونخوا تک کسی بھی جگہ پر لیموں دستیاب نہیں ہے۔ زمیندار اور کاشت کار کہتے ہیں کہ ساری کی ساری فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ 80 فیصد لیموں تباہ ہوچکا ہے

ضلع رحیم یار خان کے قریب موجود صحرا اور اس سے منسلک صوبہ سندھ کے صحرا جس کی سرحدیں بھارت کے ساتھ جا کر ملتی ہیں، وہاں پر ایک مقامی کاشت کار وزیر احمد مہر کے اندازے کے مطابق چار ہزار ایکڑ پر لیموں کے باغات ہیں۔ لیموں کے باغات کے اس سلسلے کو پاکستان میں لیموں کے باغات کا بڑا سلسلہ کہا جاتا ہے

وزیر احمد مہر کہتے ہیں ’اس صحرا میں لیموں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اُگتا۔ کئی برسوں تک حالات اچھے اور ٹھیک تھے۔ مگر گذشتہ تین چار برسوں سے مسائل کا شکار ہے۔ ہر سال ہماری پیداوار کم ہوتی جارہی ہے. اس برس تو ظلم ہوا ہے۔ مارچ کے مہینے میں درختوں پر پھولوں کی کلیاں نکلی اور گر گئیں۔ اس صورتحال کا شکار کوئی ایک باغ نہیں بلکہ پوری پٹی کے اندر یہی صورتحال ہے۔ میرا خیال ہے کہ نوے فیصد پیداوار متاثر ہوچکی ہے‘

وزیر احمد مہر کہتے ہیں ’میری تین ایکڑ زمین پر لیموں لگا ہوا ہے۔ ہر فصل پر تقریباً ایک ایکڑ سے تقریباً دو لاکھ کی آمدن حاصل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر ایک فصل کے چھ لاکھ مل جاتے تھے۔ اس سال تو مجھے پوری فصل کے بمشکل تیس ہزار روپے ملے ہیں‘

واضح رہے کہ بے روزگاری کے مسئلے سے دوچار پاکستان میں لیموں کے ان باغات سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے

وزیر مہر کے مطابق ’ایک ایکڑ پر پندرہ سے بیس مزدور پھل اتارتے ہیں۔ وہ دن میں تین، چار بوریاں ہی اتار سکتے ہیں۔‘ مگر اس دفعہ لیموں کی فصل متاثر ہونے سے سینکڑوں خاندانوں کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے

وزیر احمد مہر کہتے ہیں کہ ’چار سال پہلے ہمارے پاس پھل متاثر ہونا شروع ہوا۔ پہلے پھل لگ کر گر جاتا تھا، پھر پھول گرنا شروع ہوئے۔ گزشتہ برسوں میں ہم لوگوں نے ہر دوائی اور طریقہ کار اختیار کرلیا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا‘

’اس برس تو ہمیں پتا چل رہا ہے کہ ریکارڈ گرمی پڑی ہے۔ مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ گذشتہ برسوں میں کیوں متاثر ہوئے ہیں؟‘

اس ضمن میں برچا اسٹریس سرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کے چیف ایگزیکٹو میاں شفقت کہتے ہیں ’لیموں سندھ، جنوبی پنجاب، پوٹھوہار رینج، سرگودھا کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ لیموں کی پیداوار صوبہ سندھ میں ہوتی ہے‘

صوبہ سندھ ہی سب سے زیادہ ملکی ضرورت پوری کرتا ہے۔ دوسرے نمبر پر جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کا علاقہ اور پھر خیبر پختونخوا کا ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان آتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ میں پاکستان کا مقامی لیموں جس کو دیسی یا کاغذی لیموں بھی کہا جاتا ہے زیادہ موجود ہے۔ جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سسنگڑ اور ملائیشین سیڈلیس جبکہ خیبر پختونخوا میں زیادہ تر چائنیز لیموں پایا جاتا ہے‘

میاں شفقت کے مطابق ’لیموں کے درختوں پر سال میں مرتبہ پھول نکلتے ہیں اور سال میں دو مرتبہ پھل دیتے ہیں۔ جب ایک پھل تیار ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی دوسری فصل کے لیے پھول تیار ہوجاتے ہیں‘

انہوں نے بتایا کہ سندھ میں عموماً یہ فروری کے آخر اور مارچ کے اوائل میں فصل تیار ہوتی ہے اور پھول نکلتے ہیں۔ ’پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ مارچ اور اپریل کا سیزن ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’اس طرح سندھ میں ستمبر میں دوسری فصل تیار ہوتی ہے جبکہ جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ستمبر کا آخر اور اکتوبر کا شروع ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’زیادہ اچھی پیدوار عموماً فروری، مارچ، اپریل والی فصل ہی سے حاصل ہوتی ہے جبکہ جون، جولائی اور ستمبر والی پیدوار کم ہوتی ہے۔‘ ان کے مطابق گرمیوں میں لیموں کی طلب زیادہ ہوتی ہے

میاں شفقت کہتے ہیں ’اس سال فروری، مارچ اور اپریل میں ریکارڈ توڑنے والی گرمی پڑی ہے۔ اس گرمی کے سبب سے فروری، مارچ اور اپریل والی فصل خراب ہوئی ہے۔ پہلے تو پھول ہی گر گئے، پھر جن پر پھل لگا بھی تھا تو ان میں رس موجود ہی نہیں تھا۔‘

کارشت کاروں نے جب دیکھا کہ لیموں میں رس موجود ہی نہیں ہے اور پیدوار اچھی نہیں ہو رہی ہے تو انھوں نے رمضان سے قبل کچا اور چھوٹا پھل اتار کر منڈی میں لے آئے، جس سے مارکیٹ کی ڈیمانڈ بھی پوری نہیں ہوئی اور قیمتیں بھی بڑھ گئیں

میاں شفقت کہتے ہیں ’اس وقت جو گرمی پڑ رہی ہے اور جو حالات ہیں، ان سے یہ نہیں لگتا کہ ستمبر اور اکتوبر کی فصل بھی کوئی اچھی فصل ہوگی. ابھی اس وقت تو کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ مگر جن باغات میں فروری، مارچ اور اپریل کی فصل خراب ہوئی ہے۔ ان میں ایک ہی سیزن میں دوسری اچھی فصل کی توقع نہیں‘

میاں شفقت کہتے ہیں کہ ’لیموں کے متاثر ہونے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان اس وقت بدترین موسمی تبدیلی کا شکار ہوچکا ہے۔ جس میں بڑھتے درجہ حرارت سے ہمارے باغات اور کھیت متاثر ہورہے ہیں۔‘

گرمیوں کے سیزن کا پہلا پھل عموماً لیموں ہی کو کہا جاتا ہے جو موسمی تبدیلی کا شکار ہو چکا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، جس میں اڈاپشن (موافقت) اور جدید تحقیق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

موسمی تبدیلی سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں میاں شفقت کہتے ہیں ’ایسے اعداد و شمار تو دستیاب نہیں کہ کتنے رقبے پر لیموں لگا ہوا ہے۔ مگر مشاہدے اور اندازے کی بنیاد پر سرکاری اور نجی طور پررائے ہے کہ یہ رقبہ کوئی بیالیس ہزار ایکڑ پر ہوسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لیموں ترش پھل ہی کی ایک ورائٹی ہے

تُرش پھل کے لیے آئیڈیل درجہ حرارت 17 سے 30 درجہ حرارت ہے۔ اس سے زیادہ میں یہ متاثر ہوتا ہے۔ سنہ 2017 سے فروری، مارچ اور اپریل کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ درجہ حرارت جتنا بڑھتا رہا لیموں اتنا ہی متاثر ہوتا رہا

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ چار برسوں سے یہ درجہ حرارت کچھ زیادہ بڑھا۔ اب 30 ڈگری درجہ حرارت سے یہ جتنا بھی بڑھتا ہے، یہ درخت کے پھولوں کو متاثر کرتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں اسی وجہ سے کبھی 20 اور کبھی 50 فیصد فصل متاثر ہوئی۔ اس سال تو درجہ حرارت 38 اور 40 پر چلا گیا تھا، جس سے لیموں 80 فیصد متاثر ہوا ہے‘

میاں شفقت کہتے ہیں ’پاکستان میں لیموں کی جو ورائٹی لگائی جاتی ہیں یہ برسوں پہلے متعارف کروائی گئی تھیں. یہ جب متعارف کروائی گئیں تھیں تو یہ اس ہی دور کے درجہ حرارت اور موسمی حالات سے مطابقت رکھتی تھیں۔ اب جبکہ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے تو ان ورائیٹوں کا موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا تھوڑا مشکل ہو گیا ہے‘

میاں شفقت کہتے ہیں ’اب موجود موسمی حالات کے مطابق دنیا میں نئی اقسام متعارف کروا دی گئیں ہیں۔ اب تو دنیا کے کئی ممالک میں سال میں دو مرتبہ نہیں بلکہ سارا سال ہی لیموں کا پھل حاصل کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی ان نئی اقسام پر کام کرنے اور متعارف کروانے کی ضرورت ہے‘

ان کا کہنا تھا ’بظاہر تو ایسے لگ رہا ہے کہ حل صرف جدید تحقیق اور نئی اقسام ہی متعارف کروانا ہوسکتا ہے‘

میاں شفقت کہتے ہیں ”ہم نے اپنے فارم میں کچھ نئی ورائیٹیوں کے کامیاب تجربے کیے ہیں، جس میں کیفر لائم اور ویسٹ انڈیز لائم شامل ہیں، جن کے اچھے نتائج نکلے ہیں۔ کیفر لائم کے درخت پر اس موسم اور وقت بھی کوئی چھ کلو پھل لگا ہوا ہے جو کم از کم میرے گھر اور خاندان کی ضرورت پوری کر رہا ہے‘

(اس رپورٹ کی تیاری کے لیے محمد زبیر خان کے بی بی سی اردو میں شایع ایک فیچر سے مدد لی گئی.)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close