زباں فہمی: چی، چیچی، چیچڑ اور چیچڑی

سہیل احمد صدیقی

حکیم صاحب کے چہرے پر تبسم تھا، مریض کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی پھٹی، اردگرد موجود لوگ بھی حیران پریشان… بات ہی کچھ ایسی تھی۔ بات تھی کیا، یہ آگے چل کر بتائیں گے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ جو نام نہاد جدید معالجین یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ دیسی طریق علاج تو جعل سازی کے سوا کچھ نہیں اور یہ پتے پھانکنے والے کیا جانیں، ان کے یہاں تحقیق نہیں… وغیرہ، تو اگر ایسا منظر آج کے دور میں ہوتا اور دنیا کے سیکڑوں ٹی وی چینلز دکھا رہے ہوتے تو ایسے لوگ عاجز ہوکر یہی نعرہ لگاتے، ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو غیرسائنسی بات ہے، ہوسکتا ہے کوئی شعبدہ بازی ہو

قارئین کرام! میں اردو میں حرف ’چ‘ کی اہمیت پر ماقبل بھی خامہ فرسائی کر چکا ہوں، مگر بعض اوقات کسی لفظ کے معانی کی جستجو میں بات کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے، معلومات میں دل چسپ اضافہ ہوتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ آپ سب کی، خصوصاً اپنے معاصرین بشمول نسلِ نو کی خدمت میں بھی پیش کروں

سب سے پہلے بات کرتے ہیں ’چی‘ کی۔ یہ لفظ عموماً اردو میں شامل، کسی ترکی اور فارسی لفظ کا حصہ ہوتا ہے۔ فارسی اور اردو میں یہ اسم مؤنث ہے اور بطور لاحقہ، کسی مرکب میں، برائے تصغیر، شامل ہوتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو چھوٹی/چھوٹا بتانے کے لیے ’چی‘ لگاتے ہیں، جیسے دیگ سے دیگچی، ڈول سے ڈولچی، صندوق سے صندوقچی۔ اسی لفظ کا مذکر ’چہ‘ ہے، جیسے صندوقچہ۔ مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات خالص اردو الفاظ میں شامل اس ’چی‘ کا وہ مفہوم نہیں ہوتا، جیسا کہ ہم لغات کی رُو سے بیان کرتے ہیں اور یہ زباں زَدِعام ہے، مثلاً گھڑونچی سے مراد لکڑی سے بنا ہوا وہ سانچہ یا Stand ہے، جس پر پانی کے گھڑے یا مٹکے بھر کر رکھے جاتے ہیں

فرہنگ آصفیہ: ہندی، اسم مؤنث، لکڑی کی بنی ہوئی ایک چیز جس پر پانی کے مٹکے رکھتے ہیں، لکڑی کا لٹکن، پلہنڈا۔ اسی طرح ترکی لفظ قَمچی (قَم چی) سے مراد چھَڑی یا لکڑی ہے (نیز کوڑا، تازیانہ، چابک، ہنٹر، سنٹی، بید، کَھپَچّی: فرہنگ آصفیہ)، مگر خیر یہ الفاظ اِن دنوں عام نہیں رہے۔

ایک ’چی‘ ہمیں ترکی زبان نے مزید عطا کیا ہے، جس کا مطلب ہے: بَردار، حامل، مالک، والا. جیسے بندوقچی یعنی بندوق والا، مشعلچی یعنی مشعل بردار/مشعل ہاتھ میں اٹھانے والا، ساعت چی یعنی گھڑی والا یا گھڑی ساز ڈھولچی یعنی ڈھول بجانے والا، طبلچی یعنی طبلہ بجانے والا، طبلہ نواز اور جدید لفظ ہیروئنچی۔ ہمارے یہاں ’چِنگ چی‘ کی بڑی دھوم ہے جو درحقیقت ایک چینی کمپنی کی بنائی ہوئی موٹرسائیکل کا نام ہے اور اس چینی نام کے رومن ہجے ہیں: Qingqi۔ ہے نا حیرت کی بات؟ {ایسی بہت سی اور مثالیں بھی ہیں چینی زبان کے الفاظ خصوصاً اسمائے معرفہ کے رومن میں حیرت انگیز ہجوں کی۔ صرف مختصراً عرض کروں کہ شین کی آواز کے لیے عموماً X استعمال ہوتا ہے، جیسے سگریٹ Chuanxi ہے، شوان شی، چین کے صدر کا نام Xi Jinping، شی جِن پنگ ہے جسے بعض لوگ چی بھی بول دیتے ہیں۔ یہاں ایک اور دِقت یہ ہے کہ بہت سے چینی ناموں میں J کو ’چے‘ پڑھا یا بولا جاتا ہے، جیسے Q کا معاملہ ہے۔ Zhi کو ’چی‘ بولتے ہیں اور Chi کو’شِی‘}

آگے بڑھنے سے پہلے ایک غیرمتعلق لفظ اور اس کے دو مختلف مفاہیم کی بات کرتے چلیں، کیونکہ ممکن ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں یہ بھی دَر آئے، یہ ہے: چِیاں (چی آں) یعنی اِملی کا بِیج (ہندی، اسم مذکر)۔ کم عمر بچے، نیز بہت دُبلے پتلے اور حقیر کے معنوں میں ’’چِیاں ریز‘‘ اور صفت کے طور پر بہت چھوٹے/چھوٹی سی، ذرا سی کے لیے ’چِیاں سی‘ بولا جاتا ہے۔ (نوراللغات)

اردو لغت بورڈ کی شایع کردہ مختصر اُردو لغت میں، چِیں کے باب میں یہ اندراج ملتا ہے:

اسم مذکر، اسم مؤنث: اِملی کا بِیج جو اُس کے پھل (کتاروں) میں سے نکلتا ہے۔ (ہمارے یہاں تو کٹارے کہا جاتا ہے، جبکہ بعض لوگ کھٹارے بھی بولتے ہیں۔ س ا ص)

چیاں پڑھنا: محاورہ، مرنے والے کے لیے املی کے بیجوں پر کلمہ طیبہ کا وِرد کرنا۔ (ہمارے یہاں عموماً چئے پڑھنا کہا جاتا ہے۔ س ا ص)

لفظ ’چِیں‘ ( اسم مؤنث) کا بھی ذکر نظراَنداز نہیں کیا جاسکتا:

الف)
۱۔ باریک سلوٹ، جو عموماً غصے یا ناراضی کی حالت میں پیشانی اور بھووں پر آتی ہے، شکن
۲۔بَل، سلوٹ، چُنّٹ۔
۳۔جُھرّی۔

فعل: چین بہ جبیں ہونا (محاورہ) تیوری پر بل ڈالنا، ناراض ہونا۔

ب)۔ اسم مؤنث، اسم مذکر:
۱۔ چڑیا کی آواز
۲۔ باریک آواز، نحیف آواز، بیزاری یا ناگواری کے اظہار کی آواز، بگڑنے یا غصہ کرنے کا کلمہ۔

چِیں بول جانا/بولنا: محاورہ، ہار ماننا، مات کھانا، عاجز آنا۔

…….چِیں: لاحقہ جیسے گل چیں، نکتہ چیں ، خوشہ چیں۔ معنی: چُننے والا۔

شعر:

ملے گا نہ گُل چیں کو گُل کا پتا،
ہر اِک پنکھڑی یوں بکھر جائے گی.
(حالیؔ)

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے،
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے.
(مرزا غالب)

چمن کے پھول بھی تیرے ہی خوشہ چیں نکلے،
کسی میں رنگ ہے تیرا، کسی میں بُو تیری.
(جلیل مانک پوری)

ماضی قریب میں چیچنیا [Chechnya] کا اعلانِ آزادی اور روس سے جنگ کا موضوع عالمی سیاست میں سرِفہرست رہا، خاکسار کو یہ شرف حاصل ہوا کہ بعض دیگر عالمی تنازعات (مثلاً سابق یوگوسلافیا کی شکست وریخت، خصوصاً بوسنیا ہرزی گووِینا کی آزادی) کی طرح، اس مسئلے پر، (بزبان انگریزی و اردو)، خامہ فرسائی میں بھی اولیت پائی، پہلے انگریزی میں تین مضامین لکھ کر، پھر اردو میں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہدحکومت میں (جب وہ عارضی طور پر چیچن حُرّیت تحریک کے پُشت پناہ بنے تھے)، چیچن مجاہدین سے نیو میمن مسجد، بولٹن مارکیٹ (کراچی) میں اتفاقاً ملاقات کا ذکر بھی ماقبل کر چکا ہوں

ابھی اس طرف ذہن یوں گیا کہ گُجر/گوجر برادری کا یہ دل چسپ دعویٰ بھی نظر سے گزرا کہ چیچن درحقیقت اُنہی کی بہادر، جنگجو گوت (ذیلی ذات Sub-caste) ہے، جسے ہمارے یہاں چیچی (چے چی:Che Chi) کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کے حق میں کچھ تحقیق بھی کتابی اور آن لائن مواد کی شکل میں دستیاب ہے۔ یہ قوم قدیم دور میں مشرقِ قریب [Near East] کی عظیم یونانی، ترک اور مصری سلطنتوں کی بانی تھی۔ ہمارے محترم دوست پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ صاحب (ڈَڈھیال، میرپور، آزادکشمیر) نے واٹس ایپ پر خاکسار سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ جب ’پرویزی ‘ دورِ حکومت میں چیچن مجاہدین کے وفد نے اپنی آزاد ’’چیچن جمہوریہ اخکیزیہ (اچکیزیا)‘‘ کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کی مہم میں، پاکستان کا دورہ کیا تو سینیٹر چودھری جعفر اِقبال چیچی گُجر صاحب سے ہونے والی ملاقات میں (مترجم کے توسط سے) ہونے والا یہ انکشاف بھی دونوں کے لیے باعثِ حیرت و مسرت تھا کہ وہ چیچی گُجر ہیں

جمیل صاحب نے یہ بھی بتایا کہ چیچی سے منسوب مقامات میں راول پنڈی کا جھنڈا چیچی، میرپور (آزادکشمیر) میں چے چیاں اور پُونچھ /پُنچھ (آزاد کشمیر) میں بانڈی چے چیاں شامل ہیں۔ آن لائن تحقیق سے معلوم ہوا کہ تحصیل وضلع میرپور کا چے چیاں، گاؤں ہے، جبکہ ضلع گجرات (پنجاب) میں چے چیاں ایک قصبہ ہے، نیز پنجاب کے ضلع اَٹک کے قریب، جی ٹی روڈ پر واقع، ایک گاؤں کا نام چے چی ہے، جس کی آبادی گُجروں، ہندکووان، پٹھانوں، اعوانوں اور مغلوں پر مشتمل ہے

اس گاؤں میں ہندکو اور پشتو بولی جاتی ہیں۔ پنجاب ہی کے ضلع نارووال کے ایک گاؤں کو ’’کالا چے چی‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے قطع نظر ایک چی چی بھی ہے جو ملیالم زبان میں بڑی بہن یا کسی بہن جیسی عورت کے لیے احتراماً بولا جاتا ہے۔ اسی نام سے ملیالم زبان میں ایک فلم بنی جو 1950ء میں جاری ہوئی تھی

اب اس سے ذرا ہٹ کر ایک اور ’چی‘ یا ’چے‘ کی بات ہو جائے۔ مارکسی انقلابی رہنما ڈاکٹرچے گے وارا [Ernesto “Che” Guevara:14 June 1928 – 9 October 1967] کو ہمارے یہاں سہواً ’’چی گویرا‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے، کیونکہ یار لوگ ہِسپانوی [Spanish] کُجا، انگریزی میں بھی کسی نام کے تلفظ کو سمجھنے میں وقت صَرف کرنے کے قائل نہیں ہیں، اس لیے بے شمار دیگر ناموں اور الفاظ کی طرح وہ بھی ’چی‘ کہلانے لگے، جو سراسر غلط ہے۔ سامراج کے خلاف جدوجہد میں ہمہ وقت مصروف یہ رہنما 10اگست 1959ء کو پاکستان کے (سابق) دارالحکومت کراچی تشریف لائے اور اُن کی ملاقات اُس وقت کے سربراہ مملکت و حکومت، جنرل ایوب خان اور وزیرخارجہ جناب منظور قادر سے ہوئی تھی

آپ نے شاید کبھی سنا ہوگا کہ فُلاں شخص تو بالکل چیچڑی کی طرح چپک گیا، یا ایک دم چیچڑی بن گیا۔ یہ چیچڑی کیا ہوتی ہے۔ آئیے اب ہم اس کالم کے آخری حصے میں بات کریں، چیچڑی کی، مگر اس سے پہلے چیچڑ بھی ہے

چیچڑ (ہندی، اسم مؤنث): گوشہِ چشم یعنی آنکھ کے ایک حصے میں جمع ہونے والا مواد یا گندہ پانی (اردو انگریزی لغت از فیروز سنز، لاہور)۔ ہمارے یہاں تو اِسے بھی کیچڑ کہا جاتا ہے، بلکہ اس سے قریب تر تو ہمارا لفظ چِیپڑ (چی پَڑ) ہے

چیچڑی کے متعلق ہماری معلومات کچھ یوں ہیں:

۱۔ (ہندی الاصل لفظ): وہ کیِڑے جو کُتّے، بکری یا گائے کے بدن میں پڑجاتے ہیں۔ (نوراللغات)

۲۔ اسم مؤنث: جُوں کی شکل سے ملتا ہوا، قدرے لمبا کیڑا جو کتے، گائے، بھینس، بھیڑ، دنبے کے مختلف حصوں میں نہایت سختی سے چمٹا رہتا ہے اور اُن کا خون چوستا ہے۔ (مختصر اردو لغت: اردو لغت بورڈ)۔ یہ اونٹوں میں بھی پایا جاتا ہے (مصباح اللغات عربی اردو)

جبکہ Urdu-English Dictionary by Feroz Sons کے مطابق، اسے انگریزی میں کہتے ہیں: The tick ۔ مزید تفصیل کے لیے قومی انگریزی اردو لغت (ناشر مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد) کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس سے مراد ہے: چیچڑی، لیک، قراد، جُوں؛ بہت سی قسم کی چِچڑیوں یا طُفیلی جُوؤں میں سے کوئی سا کیڑا جو جانوروں کے جسم پر بیٹھ کر اپنا سَر اُن کی جِلد میں ٹھونس دیتا ہے اور خون چُوستا رہتا ہے اور بالعموم امراض پھیلانے کا باعث بنتا ہے؛ خون چوسنے والے دوپَرہ حشرات میں سے ایک بے پَر کیڑا جو بھیڑوں کو لگ جاتا ہے؛ خون چوسنے والی چِچڑی جو گھوڑوں کو ایذا پہنچاتی ہے اور دیگر چچڑیاں یا جُوئیں جو پرندوں کو لگ جاتی ہیں یا اُن کی کھالوں میں گھُس جاتی ہیں۔ جبکہ مزید تحقیق پر پتا چلا کہ اس کا ایک اور نام Trematode ہے، یعنی وشیعہ؛ ایک قسم کا کیڑا؛ دو یا دو سے زیادہ موشاف (چوسنے والے مُنھ) رکھنے والا کِرم جو عام طور پر طُفیلی بن کر جانوروں کی کھال سے چمٹا رہتا ہے؛ چَم چِچڑ؛ چیچڑی۔ اسی سے ایک لفظ اور بنا ہے Trematoid یعنی چیچڑی نُما۔ (قومی انگریزی اردو لغت، ناشر مقتدرہ قومی زبان اور آن لائن لغت درسال ڈاٹ کام۔)

اسی مخلوق کا ایک تیسرا نام ہے Crab louse or Body louse: جُوں۔ چیچڑی۔ کیکڑا جُوں۔ جم جُوں۔ جسم میں پڑنے والی جُوں، خون چُوسنے والا چھوٹا بغیر بازو کے طفیلی کیڑا، جو میمل جانوروں کے جسم سے چمٹ جاتا ہے۔ (قومی انگریزی اردو لغت میں ممالیہ کی بجائے Mammal دیکھ کر تعجب ہوا: س ا ص)۔ جانوروں میں چیچڑی کا بخار یا تھیلیریا (Theileria)، جانوروں خصوصاً گائے کے خون میں کیڑے کے سبب پھیلنے والی انتہائی مہلک بیماری ہے، جس کا بَروَقت علاج نہ ہو تو جانور کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ تحقیق کا باب وسیع ہوتا ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کانگو بخار [Crimean–Congo hemorrhagic fever (CCHF)] کا سبب بھی یہی چیچڑی ہے

کالی ٹانگوں والی چیچڑی (Deer Tick) کی جینیاتی ساخت [Genetic structure] کے متعلق امریکا کی جامعات میں تحقیق کی جارہی ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ ان چیچڑیوں سے مختلف امراض اَز قسمے جوڑوں کی تکالیف، سوجن، اعصابی امراض، لقوہ اور سستی و کاہلی لاحق ہو سکتے ہیں۔ مزید تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ یہ کیڑا جانوروں کے علاوہ انسانوں کے جسم کے کسی بھی حصے سے چمٹ جاتا ہے اور بیماری کا باعث ہوتا ہے

ایک اور لفظ بھی لغات میں ملتا ہے : ’’ قُمَّل‘‘ (القمل : اَل قُم مَل) [Qum’mal]۔ یہ عربی الاصل اردو میں اسم مؤنث ہے، جس کے معانی ہیں: جوں، چیچڑی، چھوٹی چیونٹی، سپسش، فصل کو نقصان پہنچانے والا ایک قسم کا کیڑا (اس کا واحد ہے قُمَّلہ: قُم مَلہ، جبکہ محض جُوں کو القَمال بھی کہتے ہیں: مصباح اللغات عربی اردو)۔ (آن لائن لغت ریختہ میں اس کا تلفظ غلط لکھا گیا ہے. س ا ص)۔ قرآن مجید کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر 133میں اس کا ذکر ہے۔ تفاسیر میں مذکور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں نافرمان قِبطی قوم پر نازل ہونے والوں نو (۹) مختلف عذابوں میں ایک اس کیڑے کا عذاب بھی ہے۔ اس کے معانی میں چیچڑی اور اناج میں پڑنے والا گُھن بھی شامل ہے۔ انتہائی حیرت کا مقام ہے کہ فرہنگ آصفیہ میں چِچڑی یا چیچڑی نہیں ملتی۔ ایک لفظ شاید اب گفتگو میں عام نہیں رہا، مگر لغات میں موجود ہے: لَم چِچَّڑ (صفت) یعنی چمٹ جانے والا، چیچڑی کی طرح جان نہ چھوڑنے والا

چیچڑی کو عربی میں القُرُد اور القُراد بھی کہتے ہیں۔ (مصباح اللغات عربی اردو)

اس موضوع کو اختتام تک پہنچانے سے پہلے عرض کروں کہ ایک آن لائن لغت اردو آئنسی میں منقول، چیچڑی سے مماثل کیڑوں کا یہ بیان بھی دل چسپ ہے:

کلنی: ایک کیڑا جو کتے بکری گائے اونٹ وغیرہ کے جسم پر پایا جاتا ہے۔

جو کلنی ہیں بن باس میں لہلہا،
مشخ بید سوں ان کی پائی صبا
(دیپک پتنگ)

بگھی (اصل بَگّی):
۱۔ایک قسم کی بڑی مکھی جو گھوڑے وغیرہ کو بہت ستاتی ہے۔
۲۔ ایک گاڑی جس میں ایک دو یا چار گھوڑے جُتیں چاہے ٹپ ہو نہ ہو۔

شعر:

بڑی مس کو رواں کرو بگھی،
رہی اتنے کو میں نہیں مہنگی.
(نواب باقر علی خاں عروجؔ)

ماضی میں میرے ایک کالم میں حرف ’ب‘ سے شروع ہونے والے جانوروں، پرندوں، کیڑوں کے ناموں کی گردان نقل ہوئی تھی، جو میرے مرحوم خالو سَرور علوی صاحب کی دَین تھی، اُس میں بھی بگھی شامل تھی

اب آخر میں اس واقعے کی وضاحت کردوں، جس سے آج کا کالم شروع ہوا تھا۔ حکایت کے مطابق، کسی گاؤں میں ایک شخص کو اچانک معدے میں شدید درد کی شکایت ہوئی تو کسی حکیم حاذق کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے پوچھا، کیا کھایا تھا، مریض نے جواب دیا کہ میں نے ایک باغ میں درخت سے ٹوٹ کر گرے ہوئے انار کھائے تھے۔ حکیم صاحب نے مریض اور ہمراہیوں کو وہیں انتظار کرنے کا کہا، خود گھر/مطب کے اندر گئے اور تھوڑی دیر کے بعد، ایک برتن میں کچھ بھُنا ہوا گوشت لاکر مریض سے کہا، اسے کھالو۔ مریض نے گوشت کھایا تو اُسے فوراً قے ہوئی اور لوگ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ اُس کے معدے سے برآمد ہونے والی چیزوں میں گوشت کے لوتھڑے سے چمٹی ہوئی ایک چیچڑی بھی شامل تھی

پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے، تو حکیم صاحب نے کہا، کُتّے کا گوشت اور یہ بھی بتادیا کہ یہ سب سے زیادہ لیس دار، چکنا ہوتا ہے، اس لیے چیچڑی اس سے چپک کر باہر آگئی۔ حکایت سننے پڑھنے والے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ حکیم صاحب نے حرام گوشت نہیں کھلایا ، بلکہ مریض کو گھِن دلانے کے لیے اس کا نام لیا تو اُس نے قے کردی ہوگی.

(بشکریہ ایکسپریس نیوز)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close