لانگ مارچ شیڈول میں تبدیلی اور نیا گیم پلان: ”ان کو تھکا تھکا کر ماریں گے“

ویب ڈیسک

منگل کی شب گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اسلام آباد پہنچ کر سارے پاکستان کو کال دوں گا

آج گوجرانوالہ میں آزادی مارچ کے چھٹے دن شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اپنے دورِ حکومت میں میری پوری طرح کوشش تھی کہ تیس سالوں سے ملک کو لوٹنے والے چوروں کو کسی طرح سزا ہو لیکن خفیہ ہاتھ تھے جس کی وجہ سے انہیں سزا نہیں ہوتی تھی اور ہم کچھ نہیں کر سکے کیونکہ نیب میرے ہاتھ میں نہیں تھا۔ جو نیب کو کنٹرول کر رہے تھے انہوں نے ان چوروں کو بچایا جو آج ہمارے اوپر مسلط کیے ہوئے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ رانا ثنااللہ کے خلاف کرپشن کیس میں ایک افسر تفتیش کر رہا تھا مگر پتا چلا کہ اس افسر نے خودکشی کرلی جس کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی

گزشتہ روز عمران خان کا کہنا تھا ’اسلام آباد آنے کے لیے اگر گاڑی نہیں تو موٹر سائیکل پر آ جائیں، موٹر سائیکل نہیں تو سائیکل پر آ جائیں اور اگر سائیکل بھی نہیں تو پیدل آ جائیں۔‘

عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’رانا ثنا اللہ تمہارا بھی وقت آنے والا ہے۔ میری پیشن گوئی سن لو، جب ہم اسلام آباد کے قریب پہنچیں گے تو جس پولیس پر اتنے کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں وہ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے کیونکہ وہ بھی پاکستانی ہیں‘

شیڈول میں تبدیلی یا نیا گیم پلان

سابق وزیراعظم اور چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں جاری لانگ مارچ کے قافلے کو چار نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہونا تھا، لیکن اب یہ گیارہ نومبر کو پہنچے گا

بظاہر سابق وزیراعظم بار بار حکمت عملی بدل کر نئی سیاسی چالیں چل رہے ہیں، جس سے متعلق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شاید عمران خان کے ذہن میں کوئی اور گیم پلان چل رہا ہے۔
تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے اعلان کیا کہ لانگ مارچ 11 نومبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا

بدھ کو گوجرانوالہ میں صحافیوں سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ’لانگ مارچ ہماری مرضی سے چلے گا، حکومت کی مرضی سے نہیں۔ ہم ان کو تھکا تھکا کر ماریں گے۔‘

فواد چوہدری نے کہا ”ہم آپ کو اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ دیتے اور بدلتے رہیں گے، آپ روز اندازے لگائیں کہ ہم نے کس وقت پہنچنا ہے، آج ہم نے 11 تاریخ دی ہے، ہو سکتا ہے ہم اس سے پہلے پہنچ جائیں“

انہوں نے کہا ”ان شاء اللہ ہم آپ کو تھکا تھکا کر ماریں گے، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم نے جارحانہ پالیسی اپنائی ہوئی ہے، ہم پورے جی ٹی روڈ پر الیکشن مہم چلاتے ہوئے گزر رہے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کے بعد انتخابات ہیں“

سینئیر صحافی و کالم نگار نصرت جاوید کہتے ہیں ”ایسا نہیں ہے کہ اچانک حکمت عملی تبدیل ہو جائے، کوئی نہ کوئی بڑی گیم عمران خان کے ذہن میں چل رہی ہے“

سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق ’لانگ مارچ کا شیڈول تبدیل کرنے کا مقصد دباؤ برقرار رکھنا ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تقرری تک دباؤ برقرار رکھا جائے اور جب تک یہ تقرری نہیں ہوتی وہ احتجاجی تحریک جاری رکھیں۔‘

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ‘میرا خیال ہے کہ غالبا عمران خان کی حکمت عملی میں تبدیلی آرمی چیف کی تعیناتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے

انہوں نے لفظ غالبا پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ‘آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت وہ مارچ کو اسلام آباد میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔’

ماضی کے لانگ مارچز سے موجودہ لانگ مارچ کیسے مختلف ہے؟

سہیل وڑائچ کے مطابق ‘عمران خان کے موجودہ لانگ مارچ کی حکمت عملی ماضی کے لانگ مارچز سے یکسر مختلف ہے، ماضی میں ہم نے جتنی بھی تحریکیں یا مارچز دیکھیں ہیں وہ مسلسل چلتی ہیں، نواز شریف کا لانگ مارچ جی ٹی روڈ سے سیدھا چلا آ رہا تھا اور قافلہ ابھی گجرانوالہ پہنچا تو فیصلہ ہو چکا تھا۔‘

سہیل وڑائچ نے ابھی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘عمران خان کا لانگ مارچ کچھوے کی چال کی طرح ہے، یہ لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ الیکشن مہم بھی ہے کہ ہر دوسرے چوک پر جلسے کرنا اور انتخابی حلقوں میں اپنی مہم بھی جاری رکھنی ہے۔ یہ لانگ مارچ کی روایتی تشریح سے بالکل مختلف ہے۔‘

سہیل وڑائچ کے بقول ’لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد مناسب ہے، عمران خان ابھی تک کوئی فقیدالمثال عوام باہر نکالنے میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن اتنے لوگ موجود ہیں جتنے ان کے جلسوں میں ہوا کرتے ہیں۔‘

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہونے والی پی این اے کی تحریک موجودہ مارچ سے مختلف ہے، یہ ایک ریلی کی شکل میں اسلام آباد کی جانب پیش قدمی ہے جبکہ پی این اے ایک پہیہ جام احتجاج کی شکل اختیار کر گیا تھا

سیاسی تجزیہ نگار رسول بخش رئیس کے مطابق پاکستان کی تاریخ کا تیرہواں لانگ مارچ ہے

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہماری تاریخ کا یہ تیرہواں لانگ مارچ کسی ڈرا پر ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کن ہونے جا رہا ہے۔’

رسول بخش رئیس کے خیال میں ‘لانگ مارچ سے ممکنہ طور پر نتائج ہو سکتے ہیں۔ اول مارچ جیسے جیسے بڑھے گا کسی موقع پر مذاکرات کے ذریعے فریقین کسی نقطے پر اتفاق کر لیں گے، دوسرا ممکنہ نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان عوام کو بڑی تعداد میں باہر نکالنے میں ناکام رہیں تو یہ مارچ ناکام ہو سکتا ہے یا پھر سپریم کورٹ اس مارچ کو غیر قانونی قرار دے کر روک دے

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو لاہور سے چلے لگ بھگ پانچ روز ہو چلے ہیں تاہم وہ ابھی گوجرانوالہ تک ہی پہنچ پایا ہے۔ پہلے روز مارچ کا آغاز لاہور کے لبرٹی چوک سے ہوا تو رات گئے بارہ بجے کے قریب جا کر اس کا اختتام داتا دربار پر ہوا

اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جو کنٹینر پر سوار مارچ کی قیادت کر رہے تھے، لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک چلے گئے۔

پہلے روز کے بعد معمول اسی قسم کا رہا ہے۔ دوسرے روز لانگ مارچ نے شاہدرہ سے آغاز کیا لیکن محض چند ہی گھنٹے چلنے کے بعد مریدکے سے بھی پہلے ختم ہو گیا۔ عمران خان وہاں سے واپس لاہور چلے گئے۔ وہ لگ بھگ دن ایک بجے کے بعد شاہدرہ پہنچے تھے

اگلے چند روز بھی عمران خان قریب اسی وقت پر مارچ میں پہنچتے رہے، جس کے بعد مارچ کا آغاز کیا جاتا ہے۔ تاہم شرکا چند ہی گھنٹے سفر کرتے ہیں اور پھر اس روز کے لیے مارچ ختم کر دیا جاتا ہے۔ عملی طور پر ایک مقام سے دوسرے تک مارچ کے شرکا کا سفر ایک دن میں محض چند گھنٹے سے زیادہ نظر نہیں آیا

ماضی میں عمران خان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے ہونے والے لانگ مارچز پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ مارچ میں شریک لوگوں کی بڑی تعداد کے باوجود مارچ کی رفتار اس سے کہیں زیادہ تیز رہی ہے

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی کی جانب سے باقاعدہ حکمت عملی کے تحت مارچ کی رفتار سست رکھی جا رہی ہے۔ ’وہ چاہتے ہیں ان کا مارچ اس وقت اسلام آباد پہنچے جب ملک میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا وقت ہوگا۔‘

یاد رہے کہ نومبر ہی کے مہینے میں پاکستان میں فوج کی کمانڈ کی تبدیلی ہونا ہے۔ مہینے کے آخر میں موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع ختم ہو رہی ہے اور فوج کے ترجمان کے مطابق انھوں نے مزید توسیع نہ لے کر ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ہے

سلیم بخاری یہ بھی سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ کی پیش قدمی سست ہے اور انھیں بھی لگتا ہے کہ ایسا کرنا عمران خان کی حکمت عملی ہے

ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ پی ٹی آئی دانستاً اپنی پیش قدمی کو سست رکھ رہی ہے، صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی بھی سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان اور ان کی جماعت کا نومبر کا مہینہ ہے۔ وہ اسی وقت اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں کیونکہ اسی مہینے نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہونا ہے۔‘

تاہم سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینٹرل سیکریٹری انفارمیشن فرخ حبیب اس تاثر کی نفی کی کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ سست روی کا شکار ہے

انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ ان کی جماعت دانستہ طور پر لانگ مارچ کی پیش قدمی کو سست رکھ رہی ہے تا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت اسلام آباد پہنچا جائے

وہ کہتے ہیں کہ ’لانگ مارچ کا آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے سے تو کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ یہ تو ہمارا مطالبہ ہی نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ تو پہلے دن سے یہی ہے کہ حکومت نئے عام انتخابات کی تاریخ دے۔‘

فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ سے ان کا مقصد جلد ملک میں نئے عام انتخابات کروانا ہے، جس کا وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سینٹرل انفارمیشن سیکرٹری کے مطابق ان کی جماعت کا لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ سست روی کا شکار نہیں ہے بلکہ لوگوں کی تعداد انتہائی زیادہ ہونے کی وجہ سے کم فاصلہ طے کر پایا ہے

کیا مارچ کی سست رفتاری کی وجہ بیک ڈور بات چیت ہے؟

بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی رفتار کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے درمیان بیک ڈور بات چیت ہو رہی ہے۔ یعنی اس پر پی ٹی آئی کو امید ہے کہ وہ اس بات چیت کے ذریعے اپنے مطالبات تسلیم کروانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں

اس پر سلمان غنی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی اگر سیاسی قیادت کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے تو بہت سے لوگ سیاستدانوں میں ایسے ضرور موجود ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشنز میں دو تین ماہ کے فرق سے زیادہ فرق نہیں پڑتا

’اگر یہ طے ہے کہ الیکشن اگلے سال ہونے ہیں تو اگر وہ دو تین ماہ قبل ہو جائیں مگر اس سے ملک میں استحکام رکھا جا سکے تو دو تین ماہ سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔‘

تاہم ان کے بقول ’الیکشن اب عمران خان کا ہدف نہیں ہیں۔ وہ صرف افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔

’لیکن اگر ایسی صورتحال میں مارشل لا لگتا ہے تو اس کے صرف عمران خان ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ باقی سیاسی قیادت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہوگی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close