کیا آپ ٹک ٹاک کی لت کا شکار ہیں؟ نئی تحقیق میں علامات کی نشاندہی

ویب ڈیسک

ایک تازہ تحقیق میں ’ٹک ٹاک کی لت‘ میں مبتلا افراد کے کچھ رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ایسے صارفین میں پائے جاتے ہیں جو اس ایپ سے بہت زیادہ حد تک منسلک ہیں

قبل ازیں فیسبک، انسٹاگرام، اور ٹوئٹر جیسی دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے مقابلے میں ٹک ٹاک کا کم ہی مطالعہ کیا گیا ہے، لیکن اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ ایپ ”خود کو نہ روک پانے کے رویے“ کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے یعنی لوگ خود پر قابو نہ رکھتے ہوئے اس کا استعمال پر مجبور ہو جائیں

اس تحقیق کے لیے یونیورسٹی آف ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو سے وابستہ ٹرائے اسمتھ نے کالج کے 354 طلبہ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، جس میں ٹک ٹاک کے 173 اور فیسبک کے 313 صارفین شامل تھے

فیسبک کے صارفین نے ’برگن فیسبک ایڈکشن اسکیل‘ نامی ایک سوالنامہ مکمل کیا، جو اس پلیٹ فارم کی لت کے چھ بنیادی عناصر کی پیمائش کرتا ہے، جن میں نمایاں رہنا، مزاج میں تبدیلی، رواداری، دستبرداری، تنازع اور غلطی کا اعادہ کرنا شامل ہیں

فیسبک کی لت کے پیمانے کے معیار یہ مقرر کیے گئے ہیں: فیسبک کے بارے میں جنونی خیالات رکھنا، فیسبک کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی خواہش محسوس کرنا، ذاتی مسائل کو بھلانے کے لیے فیسبک کا استعمال کرنا، کامیابی کے بغیر فیسبک کے استعمال کو کم کرنے کی کوشش کرنا، فیسبک سے منع کرنے پر بےچین یا پریشان رہنا اور فیسبک کا اتنا استعمال کرنا کہ اس سے اسکول یا کام پر منفی اثر پڑنا

اسی مطالعے کے لیے پیمانے کے ایک اور ورژن کو اپنایا گیا جس میں محض ’فیسبک‘ لفظ کو ’ٹک ٹاک‘ سے بدل دیا گیا

ایسے صارفین، جنہوں نے اس پیمانے پر زیادہ اسکور حاصل کیا، وہ ٹک ٹاک کو زیادہ شدت سے استعمال کر رہے تھے تاہم صارفین کی اکثریت یعنی 68.2 فیصد کو ’ٹک ٹاک کی لت کا کوئی خطرہ نہیں‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی جب کہ ان میں سے محض 25.4 فیصد کو ’کم خطرے‘ کے طور پر دیکھا گیا

ان صارفین میں سے محض 6.4 فیصد کی ’خطرے سے دوچار‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی

واضح رہے کہ چینی ایپ ٹک ٹاک کےلو اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب صارفین استعمال کر رہے ہیں

ڈاکٹر اسمتھ نے سائی پوسٹ نامی ویب سائٹ کو بتایا ”اگرچہ زیادہ تر صارفین ٹک ٹاک کو مسائل کے بغیر انداز میں استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ استعمال اور ممکنہ طور پر مسائل سے بھرپور استعمال کا خطرہ موجود ہے اور اس کا تعلق لت جیسے طرز عمل سے ہے جو ممکنہ طور پر متاثرین کی روزمرہ کی زندگیوں پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں“

انہوں نے کہا ”مزید مطالعہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ فیسبک اور ٹِک ٹاک سے پیدا ہونے والی لت کے عمل کے درمیان مماثلتیں موجود ہیں، تاہم اوسط کے مقابلے میں مسائل سے بھرپور استعمال سے وابستہ اظہار، پیش گویوں اور استعمال کی شدت میں نمایاں فرق بھی موجود ہیں۔“

اسی طرح صارف ایک مخصوص پلیٹ فارم پر مسائل سے بھرپور استعمال کے آثار ظاہر کر سکتا ہے، مگر وسیع تر سوشل میڈیا کے استعمال پر نہیں

ڈاکٹر سمتھ نے کہا کہ اس لت کی سب سے واضح علامات یہ ہیں کہ صارف بیچین ہو جاتا ہے، چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے، پریشان ہو جاتا ہے یا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ تک رسائی سے محروم ہونے پر اداسی کے شدید جذبات اسے گھیر لیتے ہیں

یو کے ایڈکشن ٹریٹمنٹ گروپ سے وابستہ کنسلٹنٹ ٹریٹمنٹ لیڈ نونو البوکرکی کے مطابق: ’ٹک ٹاک کی لت بلاشبہ ایک بہت ہی حقیقی چیز ہے۔ بدقسمتی سے اس مطالعے میں کرونا وبا کے بعد سے انٹرنیٹ پر معاشرے کے انحصار پر تحقیق نہیں کی گئی۔ ہمیں اپنے کام اور ذاتی زندگی دونوں میں صرف ایک آن لائن دنیا میں دھکیلنے پر مجبور کر دیا گیا‘

انہوں نے مزید کہا ’ٹک ٹاک جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بہت سے لوگوں کے لیے فرار کی ایک شکل بن گئی ہیں خاص طور پر ہماری نوجوان نسل کے لیے، لیکن ایک بے ضرر تفریح کے طور پر شروع ہونے والا یہ عمل تیزی سے کسی اور سنگین چیز میں تبدیل ہو سکتا ہے‘

انہوں نے کہا ’ہم یہ جانتے ہیں کیونکہ ہم لوگوں کا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مبنی لت کا علاج کرتے ہیں اور ہم نے 2020ع کے بعد سے ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے جن کا ہم علاج کر رہے ہیں۔

’لیکن مشکل اس لت کے علاج کے طریقے میں آتی ہے، خاص طور پر جب پرہیز پر مبنی علاج کا ماڈل مناسب نہ ہو۔ اس کے بجائے ہم اس فرد کے ذاتی محرکات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، حدود و قیود کا تعین کرتے ہیں، حقیقی زندگی کے تعلقلات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ تنہائی کے احساسات کو ختم کیا جائے اور خود اعتمادی اور عزت پیدا کرنے کے طریقے بتاتے ہیں‘

اس حوالے سے ٹک ٹاک کا موقف ہے کہ ’ہم اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے ٹک ٹاک کے تجربے کو کنٹرول میں محسوس کریں۔ ہم اپنی ایپ سے بریک لینے کے لیے فیڈ میں ریمائنڈرز کو فعال طور پر سامنے لانے جیسے اقدامات کرتے ہیں۔

’ہم استعمال کو محدود کرنے کے لیے نوجوان صارفین کے لیے شام کے پش نوٹیفیکیشنز کو محدود اور والدین کو فیملی پیئرنگ فیچرز کے ذریعے اہل بناتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے سکرین ٹائم کو کنٹرول کر سکیں‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close